فاطمہ خان شیروانی پاکستان کی نامور ادیبہ ہیں۔ان کا تعلق لاہور سے ہے۔وہ پاکستان کے ادیبوں کی سب سے بڑی تنظیم آل پاکستان رائٹرز ویلفیئر ایسوسی ایشن کی خواتین ونگ کی سینئر نائب صدر ہیں۔انھوں نے اپنی سوچ کے اظہار کے لیے اردو افسانے کا انتخاب کیا۔میرے خیال میں افسانہ لکھنا ادب کی دوسری اصناف سے کہیں مشکل کام ہے۔کیونکہ افسانے میں موضوع کا انتخاب، منظر نگاری، افسانے کے آغاز اور انجام پر خاص توجہ،جزئیات نگاری،کرداروں کی تشکیل،اور افسانے کا پلاٹ بہت ضروری پہلو ہوتے ہیں۔مجھے یہ کہتے ہوئے خوشی محسوس ہورہی ہے کہ فاطمہ خان شیروانی کی ان سبھی پہلووں پر گرفت مضبوط ہے۔ان کی تخلیقات سوشل میڈیا کے ذریعے میری نظروں سے گزرتی رہتی ہیں۔اج کل بہت سپاٹ افسانے لکھے جارہے ہیں۔قاری افسانے کے درمیان میں ہی افسانے کا انجام جان جاتا ہے۔ایسے افسانے فن اور فنکار کی موت کا سبب بنتے ہیں۔مگر فاطمہ خان شیروانی کے افسانوں میں یہ سب نہیں ہے۔بلکہ ان کے افسانوں کو پڑھتے وقت ”آگے کیا ہو گا” قاری کے دماغ میں چلتا رہتا ہے۔اور قاری کے دل میں افسانے کا کلائمکس جاننے کی جستجو بڑھتی ہے۔پچھلے دنوں مجھے انکا چھے کہانیوں کا مجموعہ”تیرے قرب کی خوشبو ملا”مجموعے کی کہانیاں پڑھتے ہوئے مجھے احساس ہوا کہ سچ مچ فاطمہ خان شیروانی نصیب والی ہیں۔کیونکہ انھوں نے اپنے پیش لفظ میں لکھا ہے کہ ”لکھنا ایک سعادت ہے۔اور یہ سعادت نصیب والوں کے حصے میں آتی ہے۔”
ان کی کہانیوں میں زندگی سانس لیتی ہوئی محسوس ہوئی۔ افسانہ اپنے عصر کا آئینہ دار بھی ہوتا ہے۔ اور تخلیق کار کی ادبی جمالیات کا اشارہ بھی۔کچھ افسانہ نگار اخبار کی سرخیوں سے متاثر ہو کر افسانے کے نام پرربوتاژ لکھ دیتے ہیں۔مگر فاطمہ خان شیروانی کی کہانیوں کے موضوع عام نہیں ہیں۔انھوں نے جس بھی واقعہ کو پیش کیا ہے اس پر گہرائی سے مشاہدہ کیا ہے۔یہ بات ”تیرے قرب کی خوشبو” سے صاف چھلکتی ہے سبھی کہانیوں میں محبت شروع سے آخر تک الگ الگ رنگ میں اپنی خوشبو بکھرتی نظر آتی ہے۔چاہے وہ تراب اور بیا کی محبت ہو یا میرے دل میرے مسافر کی سائرہ اور علی یا موسیٰ حیات،عروہ مائدہ کی محبت ہو۔ہر ایک کہانی میں محبت ہی سانس لیتی ہے۔اور ہر کہانی کے آخر میں مثبت پہلو سامنے آتا ہے۔مجموعہ کی تمام کہانیاں بہت اچھی ہیں۔مگر ”مجھے میں مسلمان ہوں ”کہانی سب سے زیادہ پسند ائی۔فاطمہ خان شیروانی کے پاس الفاظ کی کمی محسوس نہیں ہوتی۔وہ جملے تراشنے میں ماہر ہیں۔جیسے ایک جگہ وہ لکھتی ہیں ”محبت کسی خوشبو کی طرح زین کے پورے وجود کو اپنی لپیٹ میں لیتی جا رہی تھی۔وہ جو محبت کے نام سے متنفر تھا۔اب تو محبت ہی گویا اسکا اوڑھنا بچھونا بن گئی تھی۔محبت اگر گیت تھی تو زین تاعمر اس کو گنگنانا چاہتا تھا۔۔۔۔۔”ایسے ہی دوسری کہانیوں میں انھوں نے اپنے قلم کے جوہر دکھائے ہیں۔میں چاہتا ہوں قاری خود ان کا مطالعہ کرے اور لطف اندوز ہو۔کہانیوں میں منظر نگاری بھی انھوں نے کمال کی کی ہے۔
”میریدل میرے مسافر”پڑھتے ہوئے قاری اپنے آپ کو سڈنی شہر کا حصہ ہی محسوس کرئے گا۔فاطمہ خان شروانی کی کہانیوں کو پڑھتے ہوئے صاف محسوس ہوتا ہے کہ وہ کوئی پیغام دیتی ہیں اور نہ ہی معاصر، سیاسی یا معاشرتی محاذ آرائیوں کی موافقت یا مخالفت کرتی نظر آتی ہیں۔وہ تو صرف محبت کی کہانیاں سناتی ہیں۔اور یہ کہانیاں سننا اور سنانا ہر کسی کو پسند ہیں۔
میں فاطمہ خان شروانی کو مجموعہ ”تیرے قرب کی خوشبو”کے لیے مبارک باد دیتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ آنے والے وقت میں وہ اور بھی اچھی اچھی کہانیاں تخلیق کریں ان کا نام اردو ادب کے افق پر روشن ستارے کی ماند چمکے
”محبت کی خوشبو سے لبریز مجموعہ تیرے قرب کی خوشبو”ارشد منیم(بھارت)
You might also like