حالیہ سینیٹ انتخابا ت کے نتیجے میں مسلم لیگ ن کے حامی اور اسٹیبلشمنٹ کے مخالف صحافی ایک ایسی صورتحال بنا کر پیش کررہے ہیں جیسے پیپلز پارٹی کے علاوہ پی ڈی ایم کی باقی تمام جماعتیں بشمول مولانا فضل الرحمن کے مہنگائی سے پریشان عوام کے لیئے جدوجہد کررہے ہیں، اور ان قوتوں کے خلاف جو پس پردہ رہ کر اقتدار کی ڈوریاں ہلاتے ہیں یا پھر جنھیں وہ عمران خان کی حکومت کے ذمہ دار سمجھتے ہیں اور جس کا وہ اپنی تقریرں میں برملا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں ایسی قوتوں کے خلاف جدوجہد کررہے ہیں،لیکن درحقیقت ایسا بالکل بھی نہیں ہے! سینیٹ الیکشن کے بعد جو کچھ چیئر مین سینٹ کے انتخاب میں ہوا اور جس طرح پیپلز پارٹی یوسف رضا گیلانی صاحب کو لیڈر آف اپوزیشن بنانے میں کامیاب ہوئی ہے اس سے بڑے بڑے تجزیہ کاروں کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے ہیں،اس واقعہ سے درحقیقت یہ بات بالکل روز روشن کی طرح عیاں ہوگئی کہ پی ڈی ایم کی تمام جماعتیں ان قوتوں سے جن کے خلاف مولانا فضل الرحمن اور میاں نواز شریف نے اپنی تقریروں میں ایک طوفان اٹھایا ہوا تھا ایسے منصوبہ سازوں سے ہاتھ ملانے اور ان کے آشیربا د سے اقتدار میں کچھ نہ کچھ حصہ لینے کے لیے ان کی سرپرستی کی خواہش مند رہتی ہیں،پی ڈی ایم میں شامل ان جماعتوں کے اپنے اپنے سیاسی مفادات ہیں اور وہ ان کے حصول کے لیے پی ڈی ایم کے اندر اور باہر کوششیں کرنے سے گریز نہیں کرتے اس اسٹیج پر پیپلزپارٹی یہ سمجھتی تھی کہ قومی اسمبلی میں چونکہ لیڈر آف اپوزیشن کا عہدہ(ن) لیگ کے پاس ہے لہذا سینٹ کے اپوزیشن کا عہدہ ان کا حق بنتاہے چونکہ پیپلزپارٹی کی اس سوچ کی حمایت مسلم لیگ ن (مریم صفدر) نہیں کررہی تھی اس لیے پیپلزپارٹی نے اپنی کوشش سے پی ڈی ایم کے باہر(بی اے پی) سے جوتعاون حاصل کیا اور جس طرح کچھ اپنے خفیہ بٹنوں کا استعمال کیااس طرح راتوں رات ان کو تیس سینیٹر کی حمایت حاصل ہوگئی،اسی طرح پی ڈی ایم سے باہر رہ کر کی جانے والی کوششوں کا عمل دوسری جماعتوں کی جانب سے بھی جاری ہے کیونکہ بات صرف یہی تک محدود نہیں ہے شہباز شریف اور حمزہ شہباز کی اہم شخصیات سے خفیہ ملاقات کی خبریں بھی گردش کر رہی ہیں اور اب تک جن کی تردید بھی نہیں کی گئی ہے، پیچھے رہ جاتے ہیں پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان صاحب تو پیپلزپارٹی ان کو اپنے ساتھ ملانے کے لیے ان کو بھی خفیہ ہاتھوں سے کچھ سیاسی فائدے پہچانے کی کوشش کرسکتی ہے، دوسری طرف پی ڈی ایم کی موجودہ شکل اور جدوجہد کو جاری رکھنے کے لیے مریم صدصفدر کی خواہش کہ تمام اپوزیشن پارٹیاں جس میں پی پی بھی شامل ہے ان کی پروں کے نیچے رہیں اور اس کی ہدایات پر ہی عمل کریں جو کہ پیپلزپارٹی جیسی ایک بڑی پارٹی جو سندھ میں حکومت کررہی ہے ان کے لیے ایسا کرنا ممکن نہیں ہے اس سلسلے میں پیپلزپارٹی والے مریم صفدر کے ساتھ مختلف سیاسی امورپر تعاون تو کرسکتے ہیں لیکن وہ مریم کے پیچھے ہاتھ باندھ کر نہیں کھڑے ہوسکتے،اسی وجہ سے پیپلزپارٹی اب ن لیگ سے بڑھتے ہوئے اختلافات کے بعد اپنی نئی حکمت عملی تیارکررہی ہے،پی پی نے پنجاب میں ان ہاؤس تبدیلی کے لیے اور مریم صاحبہ کا توڑ نکالنے کے لیے حمزہ شہباز سے رابطوں کا فیصلہ کیا ہوا ہے،اس کے برعکس یہ بات بھی اب واضح ہوچکی ہے کہ پی ڈی ایم بلخصوص مریم صاحبہ پنجاب کے چیف منسٹر کے خلاف عدم اعتماد اس لیے نہیں لارہی ہیں کہ اگر یہ عدم اعتماد کامیاب ہوگیا تو یقینی طور پر اگلا چیف منسٹر حمزہ شہباز کو بنانا پڑیگا،جس سے مسلم لیگ ن کی موجودہ سیاست جس کی قیادت مریم نواز کررہی ہیں ان کے لیے شدید مسائل پیدا ہوجائینگے، کیونکہ صاف ظاہر ہے کہ چیف منسٹر بننے سے حمزہ شہباز پنجاب میں توجہ کا مرکز بنے گے اور وہ مسلم لیگ ن کی سیاست کو مریم صفدر کی جارحانہ سیاست سے مختلف چلائینگے جیسا کہ شہبازشریف اور حمزہ شہبازکی اہم شخصیات سے خفیہ ملاقاتوں کا تزکرہ اوپر کیا جاچکاہے،اس عمل سے وہ ایجنڈا جو نوازشریف اور مریم صفدر مل کر قائم کرنا چاہتے ہیں اس کو خطرہ ہوگا اس طرح مریم کی کوشش یہ ہی رہے گی کہ پی پی کی تجویز کہ پنجاب میں عدم اعتماد لایا جائے اس پر عمل درآمد نہ ہوسکے، جناب یوسف رضا گیلانی صاحب کے لیڈر آف اپوزیشن منتخب ہونے کے بعد یہ ثابت کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں کہ اس تمام صورتحال میں پی ڈی ایم سے راہیں جدا کرنے اور ایک(بقول مریم نواز صاحبہ کے) غیر اصولی موقف اپنانے کے بعد پیپلز پارٹی نے اپنی سیاسی ساکھ داؤ پر لگا دی ہے ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ کون سی سیاسی جماعت بشمول ن لیگ اور جے یو آئی ف کے سیاسی بلوغت کا مظاہرہ کر رہی ہے یا کسی سیاسی دوری، اصول پسندی یا جمہوری روایات کا پاس کررہی ہے۔حقیقت میں مولانا صاحب اور مریم صفدر صاحبہ اقتدار کی دوڑ میں شامل ہیں کیونکہ انہیں اس معاملے میں حکومت کی کارکردگی پر تو اعتراض ہے لیکن انہوں نے کبھی بھی ان معاملات کے لیے کوئی متبادل حل پیش نہیں کیالہذا ان کے پاس عوام کے لیے عمران خان پر تنقید کے ان کی تقریروں میں کچھ نہیں ہوتا،ایک کھیل یہ بھی کھیلا جارہاہے کہ پیپلز پارٹی کو نام نہاد جمہوریت کے چمپیئن یہ مشورہ بھی دے رہے ہیں کہ انہیں پی ڈی ایم کی دیگرجماعتوں کے ساتھ ملکر عمران خان کی حکومت کو گرانے کی غیر جمہوری (جدوجہد نہیں) کوششوں کا حصہ بننا چاہیے، سوال یہ ہے کہ پیپلز پارٹی ایسا کیوں کریگی کیازرداری صاحب کوئی بہت اصولی سیاستدان ہیں؟ اور کیا ان کی مسلم لیگ ن کے ساتھ یادیں بہت خوشگوار ہیں،؟ یا عمران خان کی حکومت گرجانے کے بعد انہیں اس سے زیادہ ملنے والا ہے،؟اور جو ان کے پاس ہے ان تمام سوالوں کے جوابات یقینانہیں میں ہیں وہ یہ بات اچھی طر ح جانتے ہیں کہ پنجاب میں عمران خان کی مقبولیت کم ہونے کا فائدہ صرف و صرف نواز لیگ کو ہوگا، اوربزدار حکومت کی کمزوری کا فائدہ بھی مسلم لیگ ن کو ہی ہوگا، ان حالات میں جب بلاول بھٹو وزارت اعلیٰ کے لیئے حمزہ شہباز کا نام لے رہے ہیں یہ مسلم لیگ ن کا المیہ ہے کہ ان کی سیاست صرف مریم نواز اور نوازشریف میں سمٹ گئی ہے ان میں بغض عمران تو بھرا ہی پڑا ہے اس پراب انہیں حمزہ شہباز اور شہباز شریف بھی وزارت اعلیٰ کے لیئے قبول نہیں ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ حمزہ کے وزیراعلیٰ بننے پر پنجاب میں سیاست کا محور ان کی ذات کے گرد گھومے گا،دیکھتے ہیں پی ڈی ایم کی تضادات سے بھرپور یہ سیاست مزید کتنے ہنگاموں کو جنم دیتی ہے۔