آج جب میری نظر ٹی وی پر چلنے والی ایک بریکنگ نیوز پر سے گزری کہ پنجاب کے مختلف شہروں سے ہزاروں من گندم اور چینی اسمگل کرنے کی کوشش ناکام بنادی گئی،ملتان شجاع آباد موٹر وے انٹر چینج پر1ہزار 790من گندم اسمگل کرنے کی کوشش ناکام بنادی گئی اس کے علاوہ شجاع آباد موٹر وے انٹر چینج پر1790گندم قبضے میں لیکر محکمہ خوراک کے گودام میں جمع کروادی گئی جبکہ فیصل آباد اسسٹنٹ کمشنر نے ایک زخیر اندوزکے زخیرے پر چھاپہ مار کرزخیرہ کی گئی چینی کی 1500بوریاں قبضہ میں لے لیں اس کے علاوہ مظفر گڑھ میں گندم سے بھرے ٹرک پکڑے گئے جس پر محکمہ خوراک کے مطابق ٹرکوں میں 900من گندم سندھ اسمگل کی جارہی تھی، میں سمجھتاہوں کہ جن زخیرہ اندوزوں کی اسمگلنگ کی ان کوششوں کو ناکام بنایاگیایہ وہ لوگ ہیں جو منظرعام پر آئے ورنہ اس قسم کی کوششوں کاعمل اس ملک میں چندلمحوں کے لیے بھی نہیں رک پاتا جس کا سب سے بڑا ثبوت ملک میں اشیاء ضروریہ کی قلت اور ان کا مہنگے داموں بکنا ہے،بعض اوقات تو ایسے بے شمار ٹرکوں کو ایک فون کال پر چھوڑ دیا جاتاہے بلکہ بعض اثرو رسوخ والے لوگوں کے ان زخیرہ کیئے گئے ٹرکوں کو بہ حفاظت خود ہی گوداموں تک پہنچادیا جاتاہے،بہت سے دکاندار اور بزنس مین رمضان المبارک اور دیگر تہواروں سے پہلے سستے داموں اشیاء ضروریہ کو خرید کر ان ٹرکوں میں اسمگل کرتے ہیں اور ضرورت کے مواقع پر مارکیٹ میں کمی پیدا کرکے قیمتیں بڑھا دیتے ہیں،جس کے نتیجے میں حکومت کی یقین دہانیوں اوروزیراعظم کی خوشخبریوں کے باوجود نہ تو مہنگائی میں کمی ہوتی ہے اور نہ ہی عوام کو کسی قسم کا کوئی ریلیف مل پاتاہے،تمام اشیاء خودونوش کی قیمتوں میں کم ازکم 40فیصد اضافہ ہوچکاہے،ہمیشہ کی طرح موجودہ حکومت کے دور میں بھی لوگ آٹا چینی دالیں سبزیوں اوربجلی کے بلوں کے لیے پریشان ہیں گزشتہ دور حکومت کی طرح اس دور میں بھی ہرچیز غریب آدمی کی پہنچ سے دورہوچکی ہے اور لگتایہ ہی ہے کہ گزشتہ سالوں کی طرح اس سال بھی حکومت عوام کو کوئی نمایاں ریلیف نہ دے پائے گی،سیاسی معاملات سے قطعہ نظر حکومت کو اس وقت مہنگائی کے جن کے خلاف پوری تندہی سے لڑنے کی ضرورت ہے اس وقت معاشی سرگرمیوں کے مثبت سمت میں جانے کے نعرے عوام کومطمئین نہ کرسکیں گے کیونکہ یہ عوام کا حق ہے کہ انہیں مہنگائی کی عفریت سے نجات دلائی جائے، جس کے لیے ضروری ہے کہ ایسے دکانداروں یا بزنس مینوں کے زخیروں پر چھاپے مار کر فوری سزادی جائے،گزشتہ برس30مارچ2020 میں علماء کونسل اور دارالافتاء پاکستان کی جانب سے انسانی ضرورت کی چیزوں کی زخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع کوحرام قرار دیکر ایک فتویٰ بھی جاری کیا کہ ایسے لوگ نہ صرف ملعون ہیں بلکہ انہیں عبرت کا نشان بنایاجائے، اس فتویٰ کو جاری کرنے والوں کی سربراہی چیئرمین علماء کونسل ونمائندہ خصوصی وزیراعظم بین المذاہب ہم آہنگی حافظ محمد طاہر محمد اشرفی نے کی تھی،اسی طرح گزشتہ برس 17اپریل یعنی اس فتوی ٰ کے ایک ماہ بعد ضروری اشیاء کے زخیروں کی مسلسل اطلاعا ت پر وزیراعظم پاکستان عمران خان نے سخت نوٹس لیتے ہوئے زخیروں اندوزوں اور32ضروری اشیاء کی قیمتوں میں مصنوعی اضافے کے خلاف سخت نوٹس لیتے ہوئے ایک آرڈینینس جاری کیا،جس میں ہدایات جاری کی گئی زخیرہ اندوزوں کو زیادہ سے زیادہ 3سال قید دی جائے گی اور انہیں اشیاء کی قیمت کے50 فیصدکے برابر جرمانہ اداکرنا پڑیگا،اس آرڈیننس میں جن 32اشیاء کا زکر ہے ان میں چائے،آٹا گھی چینی دودھ پاوڈر،نوزائیدہ بچوں کے لیے دودھ کھاناخوردنی تیل سوڈا پھلوں کا رس جیسی غذائی ضرورت کی چیزیں ہیں،یہ سب کچھ لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ ان باتوں کو ایک سال کا عرصہ گزرنے کو ہے مگر اس کے باوجود ہم آئے روز درجنوں اشیاء ضروریہ کی چیزوں کی اسمگل کی خبریں ہم سنتے ہیں،عوام کو بتانا چاہیے کہ ان میں سے کتنوں کو سزائیں دی گئی کتنے زخیرہ اندزوں کو ملعون قراردیکر عبرت کا نشان بنایا گیایعنی معاملہ صرف احکامات جاری کرنے کا نہیں بلکہ عملی اقدامات کا ہے،رمضان المبارک عبادتوں کا مہینہ ہے اس مہینے میں میں اللہ پاک کی رحمتوں کی برسات ہوتی ہے مگرہم لوگ اس مہینے کی قدرمنزلت سے واقف ہوکر بھی گناہوں کی جانب راغب ہیں ہماری ساری فکر اور کوششیں دنیاوی کاروبار اور مال واسباب سمیٹنے پر مرکوز ہے،حضرت عمر فارق کہتے ہیں کہ نبی کریم نے فرمایاتاجر کو رزق یا جاتاہے اوراحتکار کرنیوالا معلون ہے،ایک اور جگہ پر حضرت عمر فاروق فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ جس شخص نے چالیس دن تک گرانی کے خیال سے غلہ روک رکھاگویا وہ اللہ سے بیزار ہوااور اللہ اس سے بیزار ہوا۔اس طرح بے شمار احادیث ایسی موجود ہیں جس میں باربار زخیرہ اندزوی کی ممانعت کی گئی ہے،ہم تو ایک ایسے ملک میں رہتے ہیں جہاں کی اکثریت مسلمانوں پر مشتعمل ہے جسے کلمے کے نام پرحاصل کیا گیا،اس کی نسبت باہرکے ممالک میں جب مذہبی تہوار آتے ہیں تو وہاں مہنگائی کا طوفان نہیں آتابلکہ عام طورپربہت سی اشیاء خوردونوش کی قیمتوں کو کم کردیاجاتاہے اور خصوصی سستے بازار لگائے جاتے ہیں کیوں وہاں کا فلسفہ یہ ہے کہ اگر لوگوں کو موزوں قیمتوں پران کی ضرورت کی چیزیں فراہم کی جائیں تواس پر وہ لوگ معمول سے زیادہ چیزیں خریدتے ہیں،اس طرح دکانداروں کو اشیاء خوردونوش کی قیمتوں کو نچلی سطح پررکھنے سے نقصان نہیں ہوتا،مگر افسوس ہمارے یہاں پاکستان میں مذہبی تہواروں بلخصوص رمضان المبارک میں کھانے پینے کی اشیاء کو مہنگا کردیا جاتاہے،ان تہواروں پر بیشتر دکانداروں پر نیکی کی بجائے لوٹ مار کاجزبہ زیادہ ہوتاہے ایسے لوگ ان نیکی کے مہینوں میں یہ بات بھول جاتے ہیں کہ عوام سے پیدا گری کرنے والے ان پیسوں میں برکت نہیں ہوتی یہ سب کچھ جانتے ہوئے کہ وقتی طورپر تو یہ پیسہ ان کی جیبوں میں آجاتاہے لیکن بعد میں یہ پیسہ کسی نہ کسی طریقے سے نکل جاتاہے، لہذا میں سمجھتاہوں کہ اس قسم کے بزنس کرنے والے لوگ اور دکاندارتنظیمیں رضاکارانہ طورپرقیمتوں میں کمی کریں اور اگر حکومتی ریٹس کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں ہے تو کم ازکم مناسب بچت سے زیادہ قیمتوں کو اوپر نہ جانے دیں،جہاں تک حکومت کی بات ہے تو میں سمجھتاہوں کہ زیادہ تر ذمہ داری حکومت پر ہی عائد ہوتی ہے کہ وہ پرائس کنٹرول میں رکھے بنیادی طورپر چیزوں میں پر ائس کنٹرول کرنے کی ذمہ داری صوبائی حکومتوں کی ہوتی ہے جو کہ ضلعی انتظامیہ کے زریعے قیمتوں کو کنٹرول کرتی ہے اور اسطرح صوبائی حکومتیں زیادہ مہنگے داموں چیزوں کوفروخت کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کرسکتی ہیں اس میں صوبائی حکومت کے وزراء متعلقہ بیوروکریسی کے ساتھ ملکر مارکیٹوں کی نگرانی رکھیں اور پرائس کنٹرول مجسٹریٹ کے زریعے مصنوعی مہنگائی کرنے والے عناصر کو فوری طورپر اور سرعام سزادلوائیں تاکہ معلوم ہوسکے کہ ایسے عناصر پر لگنے والے فتوے اور ان کے خلاف نکلنے والے آرڈیننس پر عملدرآمد بھی ہورہاہے۔رمضان المبارک کے اس بابرکت مہینے میں جہاں ہمیں اللہ تعالیٰ غربامساکین اور یتیموں کے ساتھ بھلائی کرنے کا حکم دیتاہے وہاں ہم ان کو لوٹنا اوران کی جیبوں پر ڈاکہ مارنا شروع کردیتے ہیں،نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا فرمان ہے کہ جب ماہ رمضان کی پہلی رات آتی ہے توجنت کے تمام دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور سارا مہینہ ایک دروازہ بھی بند نہیں ہوتااور اللہ تعالیٰ ایک آوازدینے والے کو حکم دیتاہے کہ یہ آوازدو! اے بھلائی کے طلبگار آگے بڑھو،اے برائی کے طلب گار پیچھے ہٹو، پھر فرماتا ہے کہ کوئی بخشش مانگنے والا ہے تاکہ اسے بخش دیاجائے،ہے کوئی توبہ کرنے والا تاکہ اس کی توبہ قبول کی جائے،صبح طلوع ہونے تک اس قسم کی آوازیں دی جاتی ہیں۔قائرین کرام اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ جب تک عام آدمی کا معیار زندگی بلند نہیں ہوگا ایک عام آدمی کی زندگی میں بہتری نہیں آئے گی مہنگائی اور لاقانونیت کا خاتمہ نہیں ہوگا اس وقت نہ تو کسی قسم کی کوئی تبدیلی آئے اور نہ ہی ملک ترقی کی جانب گامزن ہوگا۔آپکی فیڈ بیک کا انتظاررہے گا۔