گزشتہ کئی دنوں سے میرے ذہن میں ایک ایسے ہستی کے حوالے سے لکھنے کاخیال گردش کررہا تھا جو اِس دور کے عظیم لیڈر، متحرک نڈر امیر، مشفق استاد، روحانی والد، لاکھوں علماء کے استاد، کروڑوں دلوں کی دھڑکن اور معاشرے کے نبض شناس میرے مرشد اور مشفق استاد محترم قائد انقلاب قرآن شیخ القرآن مولانا محمد طیب طاہری مدظلہ ہیں۔
میں نے کالم کا عنوان تریسٹھ سال کا نوجوان اسلئے رکھا ہے کہ میرے مرشد وقائد کی عمر اس وقت 63 سال ہے اور ماشاء اللہ اِس عمر میں اس کا دینی و تحریکی جہد مسلسل، محنت، فعالیت، جذبہ اور مخلوق خدا کے اصلاح کی فکر لاحق ستائش ہے۔ یہ خدمات وہ ایسے انجام دے رہے ہیں کہ جیسا کہ ایک 28 سال کا نوجوان ہوں۔
میں چند ہفتوں سے استاد محترم کے ساتھ وحدت المدارس الاسلامیہ پاکستان بورڈ کی خدمت میں مصروف عمل ہوں۔ اِن چند ہفتوں میں حضرت کی رفاقت میں سالوں کا تجربہ، لیڈر شپ کی خصوصیات، امارات کا نبوی انداز، کارکنان سے دلی محبت، کارکنان کا قائد محترم پر جان نچھاور کرنے کی حد تک محبت، توحید و سنت و قرآنی مشن سے سچا لگاؤ، بڑوں کا احترام، چھوٹوں پر شفقت، جماعت سے انتہائی درجہ مخلصی اور شیخ القرآن نوراللہ اقدہ کے وصیت پر مِن وعن عمل کا ایک ایسا عملی نمونہ دیکھا جو کہ یقیناً توحید وسنت کے پروانوں اور ہر مکتبہ فکر کے لوگوں کیلئے ایک مشعل راہ اور قابل تقلید نمونہ ہے۔
گزشتہ رمضان المبارک میں مشہور صحافی یوسف جان اتمانزئی صاحب میرے ساتھ دارالقرآن پنج پیر کے سالانہ دورۂ تفسیر القرآن میں شرکت کیلئے تشریف لائے تو استاد محترم سے انٹرویو کے دوران ایک سوال پوچھا کہ آپ جو رمضان المبارک میں گھنٹوں درس دیا کرتے ہے آیا آپ تھکتے نہیں؟ تو استاد محترم نے جواب دیا کہ اس وقت میری عمر تریسٹھ سال ہے اور اللہ تعالیٰ کا خاص فضل وکرم ہے کہ میں اول میں چند گھنٹے اور پھر رفتہ رفتہ سات گھنٹوں تک درس دیتا ہوں اور جتنا قرآن پڑھتا ہوں تو اُتنا زیادہ پڑھنے کا مزہ مجھے اورمیرے شاگردوں کو ہوتا ہے۔ اور الحمداللہ میں بدنی لحاظ سے فِٹ ہوں اور صبح ورزش بھی کرتا ہوں اور عالمی جماعت کے امیر ہونے کے ناطے جماعتی اُمور بھی سنبھالتا ہوں۔
یقین جانئے شیخ صاحب جتنا دینی و تحریکی کام میں متحرک، صاحب فراست، ذیرک، ذہین اور دلیر انسان میں نے آج تک نہیں دیکھا۔ عالمی جماعت کو ایسے مدبرانہ انداز سے چلاتے ہیں کہ لاکھوں علماء و طلباء و جماعتی احباب کے ہزاروں مسائل اور مخالفین کے مخالفتوں کے جھنجھٹ و دلدل کے درمیان یہ شخص پھر بھی ہر کسی سے مسکراتا ہوا ملتا ہے اور کسی کو اپنی ثقیل بوجھ کی فریاد نہیں کرتا بلکہ صبر جمیل کا عملی نمونہ رہتے ہوئے کسی مسئلہ و مشکل کے بارے میں کسی کو خبر تک نہیں کرتا اور خود اپنے دل پر سینکڑوں مسائل لئے ہر کارکن و شاگرد سے ایسے خوش مزاجی سے ملتے ہیں کہ ہر کوئی یہ تاثر لیتا ہے کہ شیخ صاحب سب سے زیادہ محبت ان ہی سے کرتے ہیں۔ ماشاء اللہ استاد محترم عظیم اخلاق و مہمان نوازی میں پشتون روایات کے بھی حقیقی امین ہے۔ بہادری، غیرت و دلیری میں پشتون نسل کے سچے وارث بھی ہے۔ جب حق بات پر ڈٹ جائے تو کسی کو آج تک نہ سر جھکایا ہے اور نہ جھکائیں گے۔
استاد محترم پر انتہائی کم عمری میں توحید وسنت کے عظیم عالمی جماعت اور لاکھوں علماء کے فکر کی علمبردار تنظیم جماعت اشاعۃ التوحید والسنہ کی امارت کی بھاری ذمہ داری عائد ہوئی۔ اپنے والد محترم شیخ القرآن والعجم شیخ القرآن مولانا محمد طاہر نوراللہ مرقدہ کے وصیت کے موقع پر جو کہ انتہائی غم اور حوصلہ شکن ماحول تھا، جس میں بڑوں بڑوں کے حوصلے جواب دے جاتے ہیں۔ لیکن استاد محترم نے ان لمحات میں بھی جبل استقامت کی طرح انداز اپنایا اور شوری’ اراکین کے سامنے انتہائی دلیرانہ خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا،
”یہ موقع رونے، غم اور کمزور باتوں کا نہیں، بلکہ غیرت، بہادری اور عزم کا وقت ہے۔ حضرت شیخ القرآن مولانا محمد طاہر نوراللہ مرقدہ نے اس دور میں توحید وسنت کی صدا بلند کی تھی جب ہر طرف دشمن ہی دشمن، ناکارہ پیر ومولوی، متبدعین اور انگریز تھے۔ آپ تن تنہا اس تمام دشمنوں کو سیدنا حضرت ابراہیم ؑ کی طرح اکیلے بمثل جماعت کھڑے تھے اور ہر باطل کا مقابلہ ڈٹ کر کیا تھا۔ اس وجہ سے آخری وصیت بھی یہ فرمائی کہ اگر میں نہیں رہا تو آپ اس جماعت اور توحید وسنت کے مشن کو آگے بڑھائے گئے۔ تو میں سیدنا ابوبکر صدیق ؓ کی طرح بات کرتا ہوں کہ اگر میں ٹیڑھا ہوا تو مجھے سیدھا کروگے۔ میں تحدیث باالنعمت کے طور پر یہ بات کہنا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ میں دو صفات رکھ دیئے ہے۔ ایک صفت علم کی اور دوسری پشتونی کی۔ تو ایماندار و پشتون کبھی بھی حق بات سے پیچھے نہیں ہٹتا۔ تو اللہ نے مجھے ایمان کے ساتھ پٹھانی بھی نصیب کی ہے۔ ایک بار حق بات پر جب کھڑا ہوجاتا ہوں تو پیچھے نہیں ہٹتا اور نہ کوئی ہٹا سکتا ہے۔ آپ ساتھی اس بات کی پرواہ نہ کریں کہ حضرت شیخ صاحب تشریف لے گئے تو ہم کیا کریں گے۔ بلکہ آپ اس کے مشن کو دیکھو کہ وہ آج بھی زندہ ہے اور ان شاءاللہ قائم و دائم رہے گی۔ میں ایسے بہادر خاندان سے ہوں کہ جب جنگ کی پگڑی سر پر رکھ لوں تب میری ایمان آپ دیکھے گے۔ میں شیخ القرآن مولانا محمد طاہر نوراللہ مرقدہ کے مشن پر کبھی بھی آنچ نہیں آنے دوں گا اور نہ کبھی سستی کروں گا۔ الحمد للّٰہ ہم اللہ کے فضل سے پہلے سے ذیادہ مضبوط ہے، ہم مرد تو کیا ہماری فکر کے خواتین بھی نڈر ہوئی ہے۔ متبدعین ومشرکین کو چین سے رہنے نہیں دیتی اور ہر مقام پر خواتین مشن توحید و سنت کی سعی میں مصروف عمل ہیں۔ میں جماعت میں خادم کی حیثیت سے رہوں گا اور ساتھی میرے بازوں کی حیثیت سے فرائض انجام دیں گے۔ ان شاءاللہ تادم مرگ اس جماعت اور توحید و سنت کے عظیم مشن میں کبھی بھی سستی اور کوتاہی نہیں کریں گے۔ "
استاد و امیر محترم کے نوجوانی میں مشن سے محبت، خلوص اور جذبے سے بھرپور الفاظ آپ نے دیکھ لئے۔ یقین جانئے ساتھیوں! امیر محترم قائد انقلاب قرآنی شیخ القرآن مولانا محمد طیب طاہری مدظلہ کا آج بھی وہی جوانی والا جذبہ اور خلوص زندہ و تابندہ ہے۔ بلکہ شیخ صاحب کے جذبہ و خلوص اور مشن و جماعت کی ترقی میں پہلے سے سو گنا زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ اسی بناء پر میں استاد محترم کو تریسٹھ سال کا نوجوان کہتا ہوں۔ امیر محترم کی مخلصانہ اور مدبرانہ قیادت پر ہمیں فخر ہیں اور اس کالم کے توسط سے تمام جماعتی احباب بڑے بزرگوں اور نوجوانوں سے درخواست کرتا ہوں کہ قائد محترم جیسا باصلاحیت، نڈر اور مخلص و مہربان امیر جس کیلئے لوگ ترستے ہیں، اللہ نے ہمیں اس عظیم نعمت سے نوازا ہے تو قدر کیجئے، اطاعت کیجئے، امیر کے کے امر پر سمع و طاعت کے ساتھ لبیک کہئے ورنہ اگر ہم نے اس نعمت کی ناشکری کی تو جماعت و مشن و امیر محترم کا کوئی نقصان نہیں ہوگا بلکہ ہم خود اپنی نقصان اٹھانے والے ٹھہریں گے۔
تریسٹھ سال کا نوجوان (مولانا مجاہد خان ترنگزئی)
You might also like