”مظلوم فلسطینی اور امت مسلمہ“ (حاجی محمد لطیف کھوکھر)

0

ارض مقدس فلسطین سے کون نہیں واقف؟ وہ جگہ جہاں نبیوں کا اجتماع ہوا تھا، وہ جگہ جہاں امام الرسل نے امامت کرائی، وہ جگہ جہاں آدم صفی اللہ، نوح نجی اللہ، ابراہیم خلیل اللہ، اسماعیل ذبیح اللہ، موسیٰ کلیم اللہ، عیسیٰ روح اللہ، محمد رسول اللہ، اکٹھا ہوے تھے۔وہ جگہ جسکا ذکر قرآن میں ہے، وہ جگہ جسکا ذکر حدیث میں ہے، وہ جگہ جسے عمر فاروق ؓنے فتح کیا تھا، وہ جگہ جسے صلاح الدین ایوبی نے آزاد کیا تھا، آج اسی جگہ دجالیوں نے اس پر قبضہ کررکھاہے اور وہاں کے مسلمانوں پر ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں، مسجد کے مقتدیوں پر گولیوں کے انبار برساے جارہے ہیں۔اس لئے تمام مسلمانوں کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے مسلم بھائیوں کی مدد کریں، وہ اپنی ارض مقدس کی حفاظت کریں، وہ اپنے قبلہ اول کی حفاظت کریں، وہ اپنے خلیفہ ثانی اور صلاح الدین ایوبی کی فتح کے کی ہوی مسجد کی حفاظت کریں۔ ساری دنیا میں موجود امت مسلمہ ایک جسم کی طرح ھے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ آپسی محبت ہمدردی و خیر خواہی میں سارے مسلمان ایک جسم کی طرح ہیں، جسکے کسی ایک عضو کو تکلیف پہنچتی ہے تو سارا جسم متاثر ہوجاتا ہے۔
گویا حقیقی مسلمان وہ ہوتا ہے جو سارے عالم کے مسلمانوں کے بارے میں فکر مند رہتا ہے،اور دنیا مختلف گوشوں میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کی جانے والی تشدد کی پر زور مخالفت کرتا ہے اور اس ظلم سے انھیں بچانے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن افسوس صد افسوس ہمارا یہ شعور کمزور پڑ چکا ہے، آج بہت مسلمان اس فکر سے بیگانہ ہو چکے ہیں، انہیں دوسرے مسلمانوں کی کوی فکر ہی نہیں رہی، اس لئے آج اس بات کی از حد ضرورت ہے کہ ملت کا ہر فرد اپنی یہ ذمہ داری سمجھے اور فلسطینی مسلمانوں کی حمایت میں آواز بلند کرے۔: مسلم ممالک اور بالخصوص ان عربوں کو جو اسرائیل کے ساتھ امن معاہدوں کے ذریعے حل نکالنا چاہتے ہیں، ان کو یہ بات خوب سمجھ لینی چاہئے کہ یہودی اسلام اور مسلمانوں کے ازلی دشمن ہیں، جیسا کہ قرآن مجید نے بھی کہا ہے کہ“یہودی تم سے اس وقت تک خوش نہ ہوں گے جب تک تم انکے ملت کی پیروی نہ کرو”(البقرہ).ایک دوسری جگہ ارشاد ہے کہ:“تم ان یہودیوں کو سب سے زیادہ اہل ایمان کا دشمن پاؤ گے”۔ (المائدہ).قرآن کی ان پیشین گوئی کے بعد بھی اگر کوئی شخص یہودیوں سے امن مذاکرات و معاہدات کا توقع رکھتا ہے وہ انتہائی حماقت کا شکار ہے۔اس لئے مسئلہ فلسطین کا واحد حل یہ ہے کہ امت میں جہاد کی روح پیدا کی جائے، اور حقیقی جہاد کا راستہ جہاد بالنفس سے ہوکر گذرتا ہے، یعنی خواہشات نفس سے جہاد نہ کرنا اس وقت تک دشمنوں سے جہاد میں کامیابی ممکن نہیں۔ اس لیے مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ پہلے جہاد بالنفس کریں، خواہشات کو پس پشت رکھ کر اسباب و تدابیر کی ساری شکلیں اختیار کریں، پھر وہ دن دور نہیں کہ انشاء اللہ فلسطین آزاد ہو جائے۔ اسرائیلی 1948 ء سے مسلسل فلسطینیوں پر مظالم ڈھاتے چلے آرہے ہیں اور یہ سلسلہ آج تک بدستور جاری ہے۔ اس سال بھی جب سے رمضان المبارک کا مہینہ شروع ہوا ہے،بیت المقدس میں اسرائیلی فوج کی جارحانہ کارروائیوں میں سیکڑوں فلسطینی زخمی اور کئی شہید ہوئے ۔اگر ہم فلسطینی علاقوں پر یہودیوں کے غاصبانہ قبضے کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو یہ سلسلہ گزشتہ صدی کے اوائل سے ہی شروع ہوتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ اس ضمن میں قابل ذکر ہے کہ انیسویں صدی تک فلسطین میں یہودیوں کی کل آبادی تقریباً 5 فیصد ہی تھی۔اس وقت فلسطین کا دارالحکومت بیت المقدس تھا۔ 1967ء کے بعد فلسطینی علاقوں میں قائم کی گئی یہودی بستیوں کو اقوام متحدہ غیر قانونی قرار دیتا ہے لیکن دوسری طرف امریکہ نے ان بستیوں کو باضابطہ طور پر تسلیم کیا ہے جبکہ فلسطینی حکام کا یہ شروع سے ہی موقف رہا ہے اور اس میں وہ حق بجانب بھی نظر آتے ہیں کہ اس منصوبے کے ذریعے اسرائیل کو خطے میں حاکمیت قائم کرنے کی کھلی چھوٹ دے دی گئی۔ اب مسلم اکثریتی فلسطین کے بیشتر علاقوں پر یہودی قابض ہیں۔مسجد اقصیٰ،جو انبیائے بنی اسرائیل کے سجدوں کی گواہ ہے،یہودبے بہبود کے پنجہ استبداد میں ہے،وہاں مسلمانوں کو داخلے اور دینی رسوم تک ادا کرنے کی اجازت نہیں۔ مسلمانوں پر عرصہ حیات مزید تنگ ہے۔دسمبر 1917ء برطانوی جرنیل ”ایلن بی” فاتحانہ طور پر بیت المقدس میں داخل ہوا،تب اس نے فخر سے کہا:میں آخری صلیبی ہوں۔ اس جملے کا مفہوم یہ تھا کہ بیت المقدس پر قبضے کے لیے یورپی مسیحیوں نے 1096?ء میں صلیبی جنگوں کے جس سلسلے کا آغاز کیا تھا، اس کا اختتام اب ہْوا ہے۔1917ء میں فلسطین کی یہودی آبادی محض چھپن ہزار تھی، لیکن پہلی جنگ عظیم میں برطانیہ کی فتح کے ساتھ ”اعلان بالفور” پر عمل درآمد شروع کردیا گیا، او ریہودیوں نے فلسطین کی طرف ہجرت شروع کردی، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ1922?ء تک فلسطین میں یہودیوں کی آبادی 83ہزار تک جاپہنچی۔ 1922ء میں مجلسِ اقوم (لیگ آف نیشنز) نے فلسطین پر حکومت کرنے کا عارضی اختیار برطانیہ کو سونپ دیا، اور اسے ہدایت کی کہ فلسطین کے حکومتی نظم و نسق میں یہودی تنظیموں کو باقاعدہ طور پر شریک کیا جائے۔ یہودیوں کو فلسطین میں بسانے کا کام منظم انداز میں کیا گیا، فلسطین کی زمینیں حاصل کرنے کے لیے یہودیوں نے خزانوں کے منہ کھول دئیے، عربوں پر ٹیکس لگائے گئے، او رٹیکسوں کے بہانے بناکر ان کی زمینیں ضبط کرکے انہیں یہودیوں کی جھولی میں ڈال دیا گیا۔دوسری جنگ عظیم کے دوران بھی یہودی فوج در فوج، فلسطین میں داخل ہوئے، اور انگریز انہیں تمام تر سہولتیں مہیا کرتا رہا۔ نومبر 1947ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطین کو عربوں اور یہودیوں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ صادر کیا، اس فیصلے کے مطابق فلسطین کا 55%فیصد رقبہ یہودیوں کو اور 45%فیصد رقبہ عربوں کو دیا گیا، یہ تقسیم انتہائی ظالمانہ اور بدنیتی پر مبنی تھی، کیوں کہ فلسطین میں عرب آبادی 67% فیصد اور یہودی آبادی 33% تھی، لیکن یہودی اس تقسیم پر بھی راضی نہ ہوئے اور مار دھاڑ کرکے عربوں کو ان کی زمینوں سے نکالنا شروع کردیا۔مئی 1948ء کو یہودیوں نے اپنے قومی وطن ”اسرائیل” کے ناجائز وجود کے قیام کا اعلان کردیا،جسے امریکہ، روس اور برطانیہ نے سب سے پہلے تسلیم کیا۔ نومبر 1948ئمیں جب اقوام متحدہ نے جنگ بندی کا اعلان کیا، تو اس وقت تک اسرائیل فلسطین کے78%فیصد رقبے پر قبضہ کرچکا تھا۔ اردن نے مشرقی بیت المقدس کو یہودیوں کے قبضے میں جانے سے بچالیا جہاں مسجد اقصیٰ واقع تھی۔1967ء کی عرب اسرائیل جنگ میں اسرائیل نے باقی ماندہ بیت المقدس اور مصری صحرائے سینا اور شام کی جولان پہاڑیوں پر بھی قبضہ کرلیا۔ یوں مسلمانوں کا قبلہ اوّل بیت المقدس بھی غیر مسلموں کے تسلط میں چلا گیا۔۔ آج مسلم امت دوراہے پر کھڑی گومگوں کی کیفیت سے دو چار اپنی بے بسی پر نوحہ کناں ہے۔

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.