افغانستان میں خانہ جنگی کے منفی اثرات پاکستان میں بڑھنے کے خدشات کو رد نہیں کیا جاسکتاہے ایک تو یہ کہ پاکستان میں بہت سے مذہبی حلقے جو طالبان سے ہمدردی رکھتے ہیں وہ کھلم کھلا طالبان کی حمایت شروع کردیں تو پاکستان میں اندرونی طورپر سیاسی مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں ،اس طرح افغانستان میں اندرونی خلفشار مزید طول پکڑنے سے افغانستان سے نئے مہاجرین کی آمد کا سلسلہ شروع ہوسکتاہے ،جبکہ پاکستان میں 25سے30لاکھ افغان مہاجرین پہلے سے ہی موجود ہیں اس طرح نئے ریفیوجیز کی آمد سے پاکستان پر معاشی اور معاشرتی دباومزید بڑھے گا ۔ علاوہ ازیں افغانستان میں موجود عام شہریوں کی طرح وہاں کے فوجی بھی پناہ کے لیے پاکستان کارخ کرسکتے ہیں یعنی افغان فوجی بھاگ کر پاکستان آسکتے ہیں جیسا کہ حال ہی میں تقریباً 100کے قریب فوجیوں نے پاکستان میں پناہ لینے کی اجازت مانگی تھی اور روایت کے مطابق انہیں آنے بھی دیا گیامگر بعد ازاں ان فوجیوں کو افغان حکومت کے حوالے کردیا گیا،افغانستان میں جھڑپوں کی شدت سے ایک بڑا خطرہ یہ بھی ہے کہ افغان طالبان لڑاکاعناصر بھی پاکستان میں داخل ہوسکتے ہیں جس سے پاکستان میں امن وسکون کے مسائل کھڑے ہوسکتے ہیں جو ماضی میں ہم بھگت چکے ہیں ، جبکہ افغانستان میں خلفشار کا ایک بڑا فائدہ پاکستان کے مخالف ممالک اٹھاسکتے ہیں یعنی کچھ ممالک اپنے سیاسی ایجنڈے کو چلانے کے لیے افغانستان میں موجود گروہوں کی مدد کرنا شروع کردیں جس سے افغانستان میں ایک نئی پراکسی جنگ شروع ہوجائیگی جس کے منفی اثرات ہمسائیہ ممالک خصوصاً پاکستان پر پڑسکتے ہیں ۔ لہذا پاکستان اس صورتحال کو سمجھتے ہوئے ہر بار یہ ہی الفاظ دہراتاہے کہ افغانستان کے مسئلے کا حل اسلحے کی بجائے گفت وشنید سے حل کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے ۔ اور میں سمجھتاہوں کہ یہ اسی صورت میں ممکن ہوگا کہ جب طالبان اور کابل حکومت کسی درمیانے راستے پرایک دوسرے کے ساتھ بات چیت کرنے پر رضامند ہوجائیں ۔ کیونکہ اب ان مسائل کو یہ دونوں فریق ہی بہتر انداز میں حل کرسکتے ہیں ، امریکا کا وجود اب نہ ہونے کے برابر ہی رہ گیاہے اور بقول وزیراعظم عمران خان کے امریکا اور نیٹو فورسسز کے پاس اب سودے بازی کی طاقت نہیں رہی ہے ،جس سے طالبان بھی خود کو فاتح سمجھ رہے ہیں کیونکہ امریکا اور نیٹو فورسزجب بھرپور انداز میں تقریباًڈیڈھ لاکھ کی فوجی نفری کے ساتھ موجود تھی تو وہ طالبان کو کنڑول کرنے میں قاصر تھے اب جب کہ 31اگست تک امریکا اور نیٹو فورسز کی افواج افغانستان کو مکمل طورپر خالی کردینگی توطالبان ایک پراعتماد لہجے میں قابل حکومت پر اپنا رعب جماسکے گے،اور جہاں تک طالبان کی افغانستان میں اثرو رسوخ کی بات ہے تو ایسا لگتاہے کہ چند ایک بڑے شہروں کے باقی افغانستان پر طالبان کا قبضہ دکھائی دے رہاہے ،اسی تناظر میں ایک بڑی خبر یہ ہے کہ افغانستان کی سات سے زیادہ چھوٹی بڑی راہداریوں پر طالبان کا مکمل کنٹرول ہوچکاہے جس کی وجہ سے صدراشرف غنی کی افغان حکومت کو یومیہ تقریباً 45لاکھ ڈالر سے زائد کے خسارے سے گزرنا پڑرہاہے ،اس سے قبل بھی جون کے مہینے میں طالبان نے پہلی تجارتی گزرگاہ کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے لیاتھا اس کے برعکس غنی حکومت کا یہ دعویٰ مسلسل سامنے آرھا تھا کہ ان کی حکومتی فورسسز نے یہ قبضے چھڑوالیے ہیں لیکن مختلف جریدوں سے ملنے والی اس قسم کی خبروں سے محسوس تو یہ ہی ہوتاہے کہ جہاں افغان حکومت کو تجارتی راہداریوں سے مسلسل نقصان ہورہاہے وہاں طالبان کے پاس آمدنی کے بھرپور زخائر بھی ہاتھ لگ رہے ہیں ، جبکہ طالبان کی جانب سے پاکستان کی سرحد کے ساتھ لگنے والے طور خم ڈرائی پورٹ پر بھی قبضے کی خبریں زیر گردش ہیں ، طالبان کی جانب سے اس قسم کی کوششوں کا تسلسل افغان حکومت کو دیوالیہ کرنے کے ساتھ اسے چند علاقوں تک محدود کردے گی جبکہ اس سے غذائی قلت یعنی خوراک کی کمی کا بھی سامنا کرنا پڑسکتاہے جو پہلے ہی سے خاصہ مشکل بنا ہواہے ،یہ ہی وجہ ہے کہ اس قسم کے المیہ سے بچنے کے لیے افغانستان کی سرکاری فورسسز اور طالبان میں شدید جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے ۔ دوسر ی جانب ایک خبر یہ ہے کہ افغانستان میں قیام امن اور خطے میں تجارتی تعلقات کے فروغ کے لیے پاکستان ،امریکا،افغانستان اور ازبکستان پر مشتعمل ایک سفارتی پلیٹ فارم بنایا جارہاہے ،یہ نیا چار رکنی سفارتی پلیٹ فارم علاقائی رابطوں میں اضافے پر کام کریگاجو تجارت میں توسیع راہداری کی تعمیر اور کاروباری تعلقات کومظبوط بنانے کے لیے تعاون کریگا اور یہ کہ افغان ایشو کے پرامن حل کے لیے مشترکہ کوششیں کریگا،ان تمام باتوں کے باوجود افغان صدراشرف غنی نے وسطی وجنوبی ایشائی رابطہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستا ن پر یہ الزام عائد کیاہے کہ پاکستان سے 10ہزار جنگجو افغانستان میں داخل ہوئے ، اس پر وزیراعظم پاکستان عمران خان کی جانب سے افغان صدر کے بیان پر اپنا رد عمل دیتے ہوئے کہاہے کہ اشرف غنی کی جانب سے لگائے گئے الزام سر اسر بے بنیاد ہیں ،جبکہ پاک فوج کے ترجمان کی جانب سے اس قسم کی گفتگو کو رد کیا گیاہے ۔ یعنی افغانستان کے صدر کی دوہر ی پالیسی نے خطے کو مزید مشکلات میں ڈال رکھاہے کیونکہ ایک طرف تو کابل کی حکومت پاکستان کی مدد کی خواہشمند ہے تو دوسری جانب کابل حکام نے پاکستان کے خلاف ایک جھوٹا اور منفی پروپیگنڈہ شروع کررکھاہے جس کی وجہ سے دونوں ممالک کے باہمی تعلقات میں کمی آئی ہے ،اشرف غنی کے الزامات پر دلچسپ بات تو یہ ہے کہ افغان حکومت اور ان کی فوج کے بیشتر اخراجات توامریکا اور نیٹو کے ممالک کے مہیا کرتے ہیں ،اور دوسری طرف بھارت را کی مدد سے افغانستان میں موجود انتہا پسندوں اور خفیہ تنظیموں کو پیسہ اور اسلحہ مہیا کرکے ان کی حوصلہ افزائی کرتاہے تاکہ وہ پاکستان میں افراتفری پھیلا سکیں لیکن الزامات کا پٹارہ ہمیشہ پاکستان کے خلاف کی کھولا جاتاہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ افغانستان کے پرامن حل کے لیے جو پاکستان کی کوششیں رہی ہیں اس پر کوئی دشمن بھی شک کرنے کی جسارت نہیں کرسکتا، بظاہر تو ایسا لگتاہے کہ اشرف غنی کی حکومت اب زیادہ دن رکتے دکھائی نہیں دیتی ہے،کیونکہ تیزی سے طالبان تخت کابل کی جانب بڑھ رہے لیکن فی الحال کچھ نہیں کہا جاسکتاکہ آئندہ آنے والے دنوں میں کابل حکومت کے اقتدار پرکون بیٹھے گا ۔ بے شک امریکا طالبان کو اقتدار میں دیکھ کر خوش نہیں ہوگا اور نہ ہی انہیں قبول کریگا مگر گزشتہ 90کی دہائی میں پاکستان ان تین ممالک میں سے ایک تھا جس نے طالبان کی حکومت کو تسلیم کیا تھا، پاکستان ماضی میں دوسروں کی جنگ میں کودتا رہا ہے اس دوران امریکہ نے ڈالروں سے نوازشات میں یہ محسوس کیا کہ وہ پاکستان کو امداد فراہم کر رہا ہے اس لیے پاکستان وہ کرے جس کے بارے میں واشنگٹن ہدایت دے اور پاکستان نے ایسا ہی کیا اور اس کے نتیجے میں 70ہز
ار پاکستانی ہلاک ہوئے اور 120ار ب ڈالر کا معاشی نقصان ہوا کیونکہ پاکستان کے گزشتہ نا اہل حکمرانوں کی غلط پالیسیوں اور امریکا نواز دوستوں کی وجہ سے ملک بھر میں خود کش حملے اور بم دھماکے ہوئے ، بظاہر پاکستان توامریکہ سے آج بھی تعلقات کو قائم رکھنا چاہتا ہے مگر اب ہ میں ان معاملات سے دور رہنا ہوگا جس سے پاکستان کے مفادات کو نقصان پہنچتا ہو لہذا مجھ سمیت ہر محب وطن پاکستانی یہ چاہتا ہے کہ امریکہ کے ساتھ تعلقات باہمی احترام اور باہمی اعتماد پر مبنی ہوں جبکہ ماضی میں امریکہ کے جو مفادات تھے انہوں نے پاکستان کو سوائے نقصان کے اور کچھ فراہم نہیں کیا ۔