نشتر میڈیکل کالج ملتان کے مسلمان طلباء تفریح کے لئے سوات جاتے ہوئے قادیانیوں کے مرکزربوہ ریلوے اسٹیشن پرگزررہے تھے گزرتے ہوئے انہوں نے ختم نبوت کا نعرہ لگایا جو قادیانیوں کو بہت برالگا سوات سے واپسی پر جب 29/مئی 1974ء کو طلباء کی گاڑی یہاں پہنچی تو قادیانیوں نے گاڑی کو روک لیا اور باقاعدہ تیاری کے ساتھ لاٹھیوں اور ڈنڈوں کے ساتھ ان مسلمان طلباء کومارا پیٹا جس سے بہت سارے طلباء زخمی ہوگئے جب یہ خبر فیصل آباد پہنچی تو مسلمانوں میں اشتعال پیداہوااور مولاناتاج محمودؒکی قیادت میں قادیانیوں کے خلاف جلسہ جلوس کا سلسلہ شروع ہوگیا اور اس طرح یہ تحریک پورے ملک میں پھیل گئی چوہدری ظہور الہی نے قومی اسمبلی میں سانحہ ربوہ کے متعلق التواء کی تحریک پیش کی لیکن 4جون کو قومی اسمبلی میں سانحہ ربوہ کے متعلق التواء کی سات تحریکیں مستردہونے پراپوزیشن ارکان نے ختم نبوت زندہ باد کا نعرہ لگاتے ہوئے واک آؤٹ کردیا۔پنجاب بھر میں سانحہ ربوہ کے خلاف زبردست احتجاجی مظاہرے ہوئے اکثر شہروں میں ہڑتال ہوئی متعددمقامات پر قادیانیوں کے مکانوں اور دوکانوں کو نزرآتش کیاگیا پولیس نے لاٹھی چارج اور آنسوگیس استعمال کی بعض مقامات پر فائرنگ سے کئی افرادزخمی ہوئے اور سینکڑوں مظاہرین گرفتار ہوئے ملتان میں انتظامیہ نے کالج کے تمام ہوسٹل بندکردئے اور طلباء کو فوری طورپر گھروں کو چلے جانے کا حکم دیا۔پورے شہر میں فوجی اور نیم فوجی دستوں کا گشت شروع ہوا، 9/جون 1974ء کو امیرتحریک ختم نبوت حضرت مولاناسید محمدیوسف بنوریؒ کی طرف سے ایک اجتماع رکھاگیا جس میں بیس جماعتوں کودعوت دی گئی تھی۔اجلاس میں حضرت بنوریؒکے علاوہ مفکر اسلام حضرت مولانامفتی محمود،ؒ مولاناحکیم عبدالرحیم اشرفؒ،نوابزادہ نصراللہ خان،ؒچوہدری غلام جیلانی،ؒشیخ الحدیث مولانا عبدالحق،ؒاور آغاشورش کاشمیریؒ نے شرکت کی۔ حضرت بنوریؒ نے اجتماع کے اغراض ومقاصدبیان کئے اور کہا کہ ہمارا یہ اجتماع صرف ایک دینی عقیدہ کی حفاظت کے لئے ہے یہ اجتماع ختم نبوت کے مسئلے پر ہے اس کا دائرہ آخرتک محض دین رہے گا۔ ہمارے مدمقابل صرف مرزائی امت ہوگی ہم حکومت کو ہدف نہیں بناناچاہتے اگر حکومت نے ان کی حفاظت کی یا ان کی حمایت میں کوئی غلط قدم اٹھایا تو اس وقت مجلس عمل کوئی مناسب فیصلہ کرے گی۔اس اجلاس میں مجلس عمل کی طرف سے 14/جون کو ملک گیرہڑتال اور قادیانیوں کے مکمل بائیکاٹ کا فیصلہ کیاگیا۔اس دوران حکومت نے مجلس عمل کے قائدین سے ملاقات کی۔مجلس کی طرف سے حضرت بنوری ؒ نے اپنے مطالبات پیش کردئے۔چنانچہ 30/جون 1974ء کو قومی اسمبلی کا اجلاس بلایاگیاحزب اختلاف کے ۲۲/ارکان نے مفکراسلام مولانامفتی محمودؒکی قیادت میں قادیانیوں کو غیرمسلم اقلیت قراردینے کے لئے قومی اسمبلی میں بل پیش کیا اور اس میں قومی اسمبلی کو خصوصی کمیٹی قراردینے کا فیصلہ ہوا۔ 22،اگست 1974کو حزب اختلاف کے چھ راہنماؤں مفکر اسلام مولانا مفتی محمودؒ، پروفیسر غفور احمدؒ، مولانا شاہ احمد نورانی،ؒ چوہدری ظہور الہیؒ، مسٹر غلام فاروق ؒاور سردار مولا بخش سومروؒ اور حزب اقتدار کے مسٹر عبدالحفیظ پیرزادہ پر مشتمل ایک سب کمیٹی کی تشکیل دے دی گئی۔ سب کمیٹی کے ذمہ یہ کام لگا کہ وہ مذاکرات اور افہام و تفہیم کے ذریعہ قادیانی مسئلے کا متفقہ حل تلاش کریں۔اگست 1974ء تک تحریک ختم نبوت کے تمام اکابر بالخصوص جمعیت علماء اسلام کے رہنمااور جانشین حضرت لاہوریؒ حضرت مولانا عبیداللہ انور ؒنے ملک کے چھوٹے بڑے بیسیوں شہروں میں جلسوں،جلوسوں،اور خصوصی ملاقاتوں سے ملک بھر میں کروڑوں لوگوں کے دلوں میں شمع نبوت کے جذبات کو بھڑکا کرایک شعلہ جوالہ بناڈالا۔بھٹوحکومت بوکھلاہٹ کاشکار بن کر جذباتی ہوتی چلی جارہی تھی۔چونکہ تحریک کا مرکز ہمیشہ کی طرح لاہور ہی تھا وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو نے 20،اگست کولاہور میں اعلیٰ سطح کے اجلاس کی صدارت کی اور تمام جائزوں سے واضح کیا کہ لاہور میں اصل محرک مولانا عبیداللہ انورؒ ہیں جن کی ان تھک دوروں کی وجہ سے ملک بھر میں عوام وخواص تحریک میں شامل ہوتے جارہے ہیں۔اسی اجلاس میں مولانا عبیداللہ انورؒ کو گرفتارکرنے اور انہیں کوٹ لکھپت کی سخت ترین جیل کی کوٹھڑی میں (جہاں سزائے موت دئے جانے والوں کو چندروزرکھاجاتا ہے)بھیجنے کے احکامات صادرکردئے گئے۔جمعہ 23،اگست 1974ء کو حضرت مولانا عبیداللہ انور ؒ کو جامعہ مسجد مرکز خدام الدین حضرت امام لاپوری شیرانوالہ گیٹ لاہورسے گرفتار کرلیا گیا۔حضرت اقدسؒ اپنے ساتھیوں کو جب جیل میں دیکھتے تو فرماتے اگر جان کام آجائے اور ختم نبوت کے باغیوں کا قلع قمع ہوجائے تو یہ سستا سودا ہے۔7ستمبر 1974 ء تک پندرہ شب وروز حضرت مولانا عبیداللہ انور ؒ نے سزائے موت والی کوٹھڑی میں جان پر کھیل کر وقت گزارا۔ادھرقومی اسمبلی میں قادیانیوں پر جرح جاری تھی۔قائدجمعیۃ حضرت مولانا مفتی محمود ؒکی پارلیمانی زندگی کااہم ترین واقعہ قومی اسمبلی کے مشترکہ اجلاس میں اس وقت پیش آیا جب اٹارنی جنرل یحییٰ بختیار نے ملت مرزائیہ کے سربراہ مرزاناصراحمدسے بحث کرتے کے وقت قومی اسمبلی میں کہہ دیا کہ میں تیاری نہیں کرسکا،آج جرح نہیں ہوسکتی۔اس پر قائدملت اسلامیہ مفکر اسلام حضرت مولانامفتی محمود ؒنے کھڑے ہوکر فرمایا آج کے اجلاس کے لئے میں اٹارنی جنرل آف پاکستان کے فرائض انجام دیتاہوں۔اسمبلی کے فلورپر سناٹاچھاگیا۔ایک عالم دین،مدرس اورمفتی بھلاکیا اٹارنی جنرل بنے گا؟لیکن قومی اسمبلی کی تاریخ میں محفوظ ہے کہ جب کہ قائدجمعیۃ علماء اسلام مفکراسلام حضرت مولانامفتی محمود نے مرزاناصرپر جرح کرتے ہوئے مسلمانوں کے مرزائیوں کے خلاف جملہ اعتراضات پیش کئے۔اور مرزاناصرکو عقیدہ ختم نبوت کے بنیادی ۷۱سوالات بطور جرح کئے تو اسمبلی کے اجلاس کے اختتام تک مرزاناصرسے کوئی جواب نہ بن پڑا اور یہ کہا کہ کل جواب دوں گا،اسمبلی سے چلاگیا۔مسلسل تین روز تک مرزاناصر جرح کے ایک سوال کاجواب بھی نہ دے سکا۔22اگست سے پانچ ستمبر 1974کی شام تک اس کے بہت سے اجلاس ہوئے مگر متفقہ حل کی صورت گری ممکن نہ ہو سکی۔ سب سے زیادہ جھگڑا دفعہ 106 میں ترمیم کے مسئلہ پر ہوا۔ اس دفعہ کے تحت صوبائی اسمبلیوں میں غیر مسلم اقلیتوں کو نمائندگی دی گئی ہے جو بلوچستان میں ایک، سرحد میں ایک، سندھ میں دو اور پنجاب میں تین سیٹیں اور چھ اقلیتوں کے نام یہ ہیں: عیسائی، ہندو، سکھ، پارسی، بدھ اور شیڈول کاسٹ یعنی اچھوت۔حزب اختلاف کے نمائندگان چاہتے تھے کہ ان چھ کی قطار میں قادیانیوں کو بھی شامل کیا جائے تاکہ کوئی شبہ باقی نہ رہے۔ اس کے لئے حکومت تیار نہ تھی اور ویسے بھی قادیانیوں کا نام اچھوتوں کے ساتھ پیوست پڑتا تھا۔عبدالحفیظ پیرزادہ نے کہا، اس کو رہنے دیں۔مفتی صاحب نے کہا، جب اور اقلیتی فرقوں کے نام فہرست میں شامل ہیں تو ان کا نام بھی لکھ دیں۔پیرزادہ نے جواب دیا، یہ اقلیتی فرقوں کا ڈیمانڈ تھا اور مرزائیوں کا ڈیمانڈ نہیں۔مفتی صاحب نے کہا یہ تو تمہاری تنگ نظری ہے اور ہماری فراخدلی کا ثبوت ہے کہ ہم ان کے ڈیمانڈ کے بغیر انہیں ان کا حق دے رہے ہیں۔7 ستمبر1974 کو اسمبلی نے فیصلہ سنانا تھا۔ ادھر سب کمیٹی 5 ستمبر کی شام تک کوئی فیصلہ ہی نہ کر سکی۔ چنانچہ 6 ستمبر کی صبح کو مسٹر بھٹو نے مولانا مفتی محمودؒ سمیت سب کمیٹی کے چھ ارکان کو پرائم منسٹر ہاؤس بلایا جہاں دو گھنٹے کی مسلسل گفتگو کے باوجود بنیادی نقطہ نظر پر اتفاق رائے کی صورت پیدا نہ ہوئی۔ اپوزیشن سمجھتی تھی کہ اس کے بغیر حل ادھورا رہے گا۔ بڑی بحث و تمحیص کے بعد مسٹر بھٹو نے یہ جواب دیا:میں سوچوں گا اگر ضرورت محسوس ہوئی تو میں دوبارہ بلاؤں گا۔“عصر کو اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا۔ پیرزادہ نے مفتی صاحبؒ سمیت دیگر ارکان کو اسپیکر کے کمرے میں بلایا۔ تار دراصل پیچھے سے ہلایا جارہاتھا۔ اپوزیشن نے اپناموقف پھر واضح کیا کہ دفعہ 106 میں چھ اقلیتی فرقوں کے ساتھ مرزائیوں کی تصریح کی جائے اور بریکٹ میں ”قادیانی گروپ اور لاہوری گروپ“ لکھا جائے۔مسٹر پیرزادہ نے کہا، وہ اپنے آپ کو مرزائی نہیں کہتے، احمدی کہتے ہیں۔مفتی صاحب نے کہا، ہم ان کو احمدی تسلیم نہیں کرتے، احمدی تو ہم ہیں، ”چلو مرزا غلام احمد قادیانی کے پیروکار لکھ دو۔“پیرزادہ نے نکتہ اٹھایا، دستور میں کسی شخص کا نام نہیں ہوتا۔ حالانکہ دستور میں حضرت محمد ﷺ اور قائداعظم کے نام موجود ہیں۔ اور پھر سوچ کر بولے، مفتی صاحب مرزا کے نام سے دستور کو کیوں پلید کرتے ہو؟الغرض7 ستمبر 1974ء ہماری تاریخ کا وہ یادگار دن ہے جب 1953ء اور 1974ء کے شہیدان ختم نبوت کا خون رنگ لایا اور ہماری قومی اسمبلی نے اپنی تاریخ میں پہلی بار ملی امنگوں کی ترجمانی کی اور عقیدہ ختم نبوت کو آئینی تحفظ دے کر قادیانیوں کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دے دیا۔ اس روز دستور کی دفعہ 260 میں اس تاریخی شق کا اضافہ ہوا:”جو شخص خاتم النبیین محمد ﷺ کی ختم نبوت پر مکمل اور غیر مشروط ایمان نہ رکھتا ہو اور محمد ﷺ کے بعد کسی بھی معنی و مطلب یا کسی بھی تشریح کے لحاظ سے پیغمبر ہونے کا دعویدار ہو یا اس قسم کا دعویٰ کرنے والے کو پیغمبر یا مذہبی مصلح مانتا ہو، وہ آئینی یا قانون کے ضمن میں مسلمان نہیں ہے۔“دستور ۶۰۱ کی شکل یوں بنی:”بلوچستان، پنجاب، سرحد اور سندھ کے صوبوں کی صوبائی اسمبلیوں میں ایسے افراد کے لئے مخصوص فاضل نشستیں ہوں گی جو عیسائی، ہندو، سکھ، بدھ او رپارسی فرقوں اور قادیانی گروہ یا لاہوری افراد (جو اپنے آپ کو احمدی کہتے ہیں) یا شیڈول کاسٹس سے تعلق رکھتے ہیں، بلوچستان ایک، سرحد ایک، پنجاب تین، سندھ دو۔قومی اسمبلی کے اس تاریخی فیصلہ کے بعدقائد ملت حضرت مولانا مفتی محمود جبؒ اسمبلی ہاؤس سے باہر نکلے تو سیدھے راولپنڈی میں واقع دفتر مجلس تحفظ ختم نبوت پہنچے۔ وہاں حضرت مفتی صاحب ؒکا بڑی شدت سے انتظار ہو رہا تھا۔ حضرت مفتی صاحب ؒپہنچے تو سالارِ قافلہ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے امیر اور مجلس عمل ختم نبوت کے سربراہ حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ مصلے پر سجدہ ریز تھے اور اللہ سے گڑگڑا کر دعا مانگ رہے تھے، آنسوؤں سے ان کی داڑھی تر ہو گئی تھی۔ مفتی صاحب ؒتشریف لائے اور انہوں نے آواز دی۔ ”حضرت! اللہ پاک کا شکر ہے، ہمارا مطالبہ مان لیا گیا، قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا گیا ہے۔“ محدث العصر حضرت مولانا محمد یوسف بنوریؒ دوبارہ سجدہ ریز ہو کر شکر بجا لائے۔ وہ روتے جاتے تھے اور کہہ رہے تھے، ”اللہ پاک ہم آپ کا شکر کیسے ادا کریں، آپ نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے۔“ سجدہ سے اٹھتے ہوئے فرمانے لگے، ”اللہ نے مجھے سرخرو کیا ہے۔ مرنے کے بعد امیر شریعت سیدعطاء اللہ شاہ بخاری ؒسے ملاقات ہوئی تو میں کہہ دوں گا کہ آپ کے مشن میں تھوڑا سا حصہ ڈال کر آیا ہوں۔ آپ نے ختم نبوت کے جس پودے کو پانی دیا تھا، میں اسے پھل لگے ہوئے دیکھ آیا ہوں۔ اس طرح نوے سال سے مسلمانوں کو شدیدپریشانی سے دوچار کرنے والامسئلہ طویل جدوجہد کے بعدحل ہوگیا اور پاکستانی قانون میں مرزاغلام احمدقادیانی کے پیروکار غیرمسلم اقلیت قراردے دئے گئے۔7ستمبر ہمیں یاددلاتا ہے کہ ہم آنحضرت ﷺکی ختم نبوت کے تحفظ کے لئے تمام تر سیاسی،مسلکی،گروہی،لسانی،علاقائی اور نسلی تعصبات سے بالاتر ہوکراپناکردار اداکریں کیونکہ اگر آپﷺ کی عزت وناموس محفوظ ہے تو ہمارا ایمان محفوظ ہے اگر خدانخواستہ اس پر کوئی حرف آیا تو پھربقول امام المحدثین حضرت علامہ انورشاہ کشمیری ؒہم سے گلی میں پھرنے والاکتا بہتر ہے اگر ہم آنحضرت ﷺکی عزت وناموس کا تحفظ نہ کرسکے۔آج ملک بھر میں یوم دفاع ختم نبوت کے موقع پر ”ختم نبوت“کے عنوان سے جلسے ہورہے ہیں،مینارپاکستان میں عظیم الشان اجتماع ہورہاہے،جس سے قائدجمعیت مولانافضل الرحمن سمیت مجلس تحفظ ختم نبوت،جمعیت علماء اسلام اور دیگر جماعتوں کے اکابرین خطاب کریں گے۔اس تاریخی موقع پر جمعیت علماء اسلام اوگی کے کارکنان کی طرف سے بھی ایک عظم الشان ”ختم نبوت کانفرنس“ بٹل روڈ اوگی بازارمیں منعقد ہورہی ہے،اس کا نفرنس سے فاتح قادیانیت مفکر اسلام مولانامفتی محمودؒ کے فرزند جے یو آئی کے صوبائی امیر سینیٹرمولاناعطاء الرحمن،صوبائی جنرل سیکرٹری مولاناعطاء الحق درویش،سابق سینیٹرمولاناراحت حسین،جے یو آئی آزادکشمیر کے جنرل سیکرٹری مولاناامتیازاحمدعباسی سمیت دیگر علماء کرام اور مختلف پارٹیوں کے قائدین خطاب کرتے ہوئے تحریک ختم نبوت کے ماضی اور حال پر روشنی ڈالیں گے۔اس عظیم الشان کانفرنس کے لئے جمعیت علماء اسلام کے کارکنان نے دن رات محنت کرکے اوگی بازار میں مین چوک کے قریب قاری برادرزکی مارکیٹ کی وسیع چھت پر خوبصورت پنڈال سجایاہے۔
7 ستمبریومِ دفاعِ ختم نبوت (حافظ مومن خان عثمانی)
You might also like