بخت باچا ہمارے محلے میں ایک ایسے شخص کا نام تھا جو شرافت, انسانیت خدمت اور دیانت میں اپنی مثال آپ تھا مجھے بچپن سے اچھا لگتا تھا کیونکہ وہ ہنس مکھ تھا ,پیار کرنے والا اور نرم لہجہ رکھنے والا انسان تھا , مجھے یاد ہے کہ جب سے ہم اکٹھے فٹ بال کھیلتے تھے ایک محلے میں رہتے تھے .ہمارا اٹھنا بیٹھنا ایک ساتھ تھا ہم ایک مسجد میں ایک امام کے پیچھے نماز پڑھتے تھے ایک ہی زمین پر زندگی بسر کرتے تھے .جہاں ھم ایک دوسرے کے خویئ بویئ اور خصلت سے آشنا ہوچکے تھے مگر ایمان سے مجھے ایسا کویئ واقعہ معلوم نہیں کہ کہہ سکوں کہ یہ عادت اچھی نہیں تھی یا یہ غلط کیا تھا اس ملنسار انسان نے بس اگر کچھ یاد ہے تو صرف بخت باچا کا پیار بھرا لہجہ, ہنس مکھ چہرہ یا پھر عاجزی و انکساری کا چلتا پھرتا نمونہ.بخت باچا کو زندگی کے مصائب سے لڑنا اپنے نام سے پڑگیا تھا وہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ وہ بخت یعنی قسمت کا بادشاہ ہے اور قسمت ایک دن اسکے سامنے ہتھیار ڈال کر سرنگوں ہوگا اور وہ باواز بلند پکارے گا کہ دیکھ لو دنیا والوں کہ بخت کا بادشاہ جیت گیا وقت سے ,قسمت سے . اب میں صحیح معنوں میں بخت کا بادشاہ ہو اب میرے پاس اپنے کنبے کے پالنے و علاج کے اور تعلیم وتربیت کے پیسے ہیں,, روٹی ہے کپڑا ہے اور سر ڈھانپنے کو چت ہے۔وہ اب بھی خوش تھا کہ ایک دن اپنے دن رات محنت کے سرمایہ سے اپنے بیٹیوں کے ہاتھ پیلی اور بیٹوں کے مستقبل سنوار سکیں گے. اپنی بوڑھی ماں جی کا بروقت علاج کرینگے اور اس مقصد کے خاطر وہ اپنے آرام کو ٹھوکریں مارتے ہوئے دن کو ٹیکسی ڈرائیور اور رات کو کلاس فور بن جاتا تھا. کبھی کبھی چھٹی کر لیتے تو اپنے چھوٹے بچوں کو ساتھ لیکر گاوں کے نہر میں جال سے مچھلیوں کا شکار پر نکل آتا تھا جہاں بچپن کے شوق کا تکمیل اور بچوں کو سیر و تفریح کا موقعہ مل جاتا تھا .
آج کل سہ پہر کو اکثر میں دیکھ لیتا کہ وہ اپنا ٹیکسی فیلڈر کار واش کے بجائے نہر میں صاف کرتے جو اصل میں اس نہر سے ان نظاروں سے , اور اس کھیت و کلیان سے ان کا پیار تھا .جو ان کو کھینچ لاتے, وہ پیار بانٹتا تھا اور پیار سمیٹتا تھا۔مگر افسوس…… ان کو کیا معلوم تھا کہ یہاں انسان نہیں درندے رہتے ہیں یہاں آدم ذادہ کے شکل میں آدم خور آباد ہیں, یہاں انسانیت اسلامیت اور پختو دم توڑ چکی ہے, یہاں ایسے اژدہا جنم لے چکے ہیں جو اپنے پیٹ کو بھرنے کے لیے دوسرے جانداروں کو زندہ نگل لیتے ہیں.
اور آج ان کا شکار وہ خاکسار, ملنسار اور جہد مسلسل کا پیکر بخت باچا بنا جو جینا چاہتے تھے بھوک و افلاس کو شکست دینا چاہتے تھے ان کے آنکھوں میں سپنہ تھا اپنے اہل و عیال کے خوشیوں کا وہ دنیا کو بتانا چاہتے تھے کہ اگر حوصلہ جوان ہو اور ہمت مرداں ہو تو غربت, بھوک, جہالت اور افلاس کو شکست دی جاسکتی ہے مگر وہ شکست کھا گیا ان درندوں سے ,ان وحشیوں سے اور ان اژدہاوں سے کیونکہ وہ لاغر تھا لاچار تھا بے بس تھا اور وہ طاقت کے نشے میں مست بھوکے درندیں زیادہ طاقت ور تھے .ان کا میدان یہی ان کام یہی ان کا شکار یہی لاچار اور بے بس محنت کش انسان ہیں …..یہ خونخوار کل ایک اور بخت باچا کا شکار کرلیں گے.
مگر ہے کوئی روکنے والا ہاتھ ،ہے کوئی پوچھنے والا زبان, ہے کوئی جواب دینے والا دل ,ہے کوئی انصاف دیلانے والا ضمیر…. کیونکہ غریب اور محنت کش بخت باچا کا بوڑھی ماں, بیوہ, بال بچے, رشتہ دار اور روح نم دار آنکھوں کیساتھ پوچھ رہے ہیں ….. کیا ھم اس دھرتی کے بیٹے نہیں تھے اگر ہے تو پھر جینے کا حق کیوں چھینا گیاھم سے۔بخت باچا …. اگرچہ دنیا میں تو نہیں لیکن روز قیامت کا بخت بادشاہ بن کے اٹھے گا اور روز قیامت حاکم وقت سے ضرور پوچھے گا… میرا قاتل کون ہے مجھے کیوں مرا , میں جینا چاہتا تھا مجھے اپنے بچوں کے لئے کچھ کرنا تھا وہ چھوٹے تھے , معصوم تھے , وہ بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں اپنی بوڑھی ماں کا علاج کرنا ہے ان کا سہارا بننا ہے۔ میری بوڑھی ماں میرا صدمہ برداشت کرنے سے قاصر ہے انکا جینا میرے بغیر ناممکن ہے۔ اور پھر انصاف کرنے والا بادشاہ مالک یوم الدین خود انصاف کرے گا.تو پھر بخت باچا شھید کا قاتل صرف وہ بھوکا درندہ نہیں ھوگا ھم سب ہوں گے تو بھی اے حاکم وقت , تیرا نظام بھی اور ہمارا یہ ظالم سماج بھی ہوگا. سب قاتلوں کے صف میں کھڑے کی جائیں گے۔
وہ بھوک مٹانے نکلا تھا کہ بھوکوں کا شکار ہوا تحریر:۔ احمد سالار
You might also like