گمنام پختون ہیروعلینگار فقیر تحریر: مولانا خانزیب (نواگئی باجوڑ)

0

آپ کا نامسید جلال المعروف علینگار فقیر تھا آبائی علاقہ سوات خوازہ خیلہ ہے۔آپ اگر ایک طرف اس وقت کے ایک بہت بڑے روحانی شخصیت تھے اور اس زمانے کے ایک بڑے روحانی شخصیت،سنڈاکے بابا، سے بیعت کی تھی تو دوسری طرف آپ انیسویں صدی کے ان عظیم غازیوں میں سے ہے جنہوں نے عملًا اس وقت کے انگریز استبداد کیخلاف میدان میں مقابلہ کیا تھا۔1906میں علینگار فقیر صاحب اس وقت مومند میں واقع باجوڑ نواگئی سے متصل شینواری قبیلے کے علاقے،علینگار،میں آباد ہوگئے اور علینگار میں انگریز کیخلاف باقاعدہ مرکز بنانے کیلئے قوم کے تعاون سے ایک بڑی مسجد بنائی ساتھ ہی روحانی تربیت کیلئے ایک خانقاہ بھی قائم کی، جس میں لوگوں کی اصلاح کے ساتھ ساتھ باقاعدہ لنگر بھی دیا جاتا تھا یہ مسجد علینگار میں اب بھی موجود ہے۔علینگار کو فقیر صاحب کی طرف سے چننے کی وجہ یہ تھی کیونکہ سوات کے بنسبت یہ علاقے انگریزوں کے کنٹرول سے عملاً باہر تھے اور یہ جگہ مسلح جدو جہد کیلئے بطور مرکز اپنانے کے حوالے سے انتہائی مناسب تھی۔علینگار میں قیام کے ساتھ ہی فقیر صاحب کی روحانی شہرت لوگوں میں دور دور تک پھیل گئی اور اپنے نام کے بجائے انکی شہرت تاریخ میں علینگار فقیر کے نام سے ہوئی فقیر صاحب انتھائی متقی اور ایک کامل ولی اللہ تھے آپکے مریدوں کا ایک بڑا جھتہ ہر وقت آپ کے ساتھ ہوتا تھا فقیر صاحب عورتوں کی طرف دیکھنے سے مکمل اجتناب کرتے تھے جبکہ عورتوں کو بھی کہا جاتا تھا کہ وہ فقیر صاحب کی طرف نہ دیکھے اور اگر کوئی عورت راہ چلتی نظر آجاتی تو آپکے مرید آپ پر پردہ ڈال کر،محجوب،کرتے تھے اسی طرح علینگار فقیر کی بہت سی کرامات عوام الناس میں مشہور تھی مگر تاریخ میں فقیر صاحب کی اصل کرامت انگریز سامراج کیخلاف مسلح مزاحمت تھی جو رہتی دنیا تک یاد رکھی جائیگی۔1915میں حاجی ترنگزئی بابا جی کے اس علاقے میں آنے سے پہلے علینگار فقیر مومند اور باجوڑ کے علاقے میں انتہائی بااثر شخصیت تھے اور ہزاروں کی تعداد میں باجوڑ اور مومند کے لوگ انکے لشکر کا حصہ تھے۔ترنگزو بابا کے بونیر کے بعد مومند کے علاقے غازی آباد کو جنگی مرکز بنانے سے علینگار فقیر اور بابڑے ملا صیب کو انگریز کیخلاف لڑنے کیلئے ایک جنگی سالار اور رہنما مل گیااور پھر بعد میں ترنگزو باباجی کا علینگار فقیر نے اپنے ہزاروں مریدین کیساتھ ہر لڑائی میں بھر پور ساتھ دیا جن میں خصوصیت کے ساتھ ترنگزو باباجی کی انگریزوں کے ساتھ 1923,1925,1926,اور،1928،کی مشہور لڑائیاں شامل ہے۔فقیر صاحب کا اسوقت کے افغان حکومت کے ساتھ بھی قریبی تعلقات تھے اور افغانستان بھی جایا کرتے تھے۔علینگار فقیر کا ذکر انگریزوں نے اپنی ڈائریوں میں ایک خطرناک باغی کمانڈر کے طور پر کیا ہے جو لڑائی کے میدان میں بنفس نفیس شریک ہوتا تھا اور ان لڑائیوں میں انگریز فوج کو بے تحاشہ نقصان پہنچایا کرتا تھا۔علینگار فقیر کو قوم شینواری نے اعزاز کے طور پر ساٹھ دڑی زمین بطور،سیرئی،بھی دی تھی۔اسی طرح علینگار فقیر خار نواب کے مقابلے میں نواگئی کے نواب کا بھرپور ساتھ دیتا تھا جس کا سبب خار نواب کا انگریز کی طرف داری کرنا تھا جبکہ، احمد جان خان، پاچا گل صیب اور علینگار فقیر کا خاص خیال رکھتا تھا ۔مشران کے بقول جب 1924کے بعد خار نواب اور احمد جان خان کے درمیان دشمنی شروع ہوئی جو تیرہ سال پر محیط تھی جس میں باقاعدہ لڑائیاں ہوتی تھی ان لڑائیوں میں فقیر صاحب احمد جان خان کی حمایت میں شامل ہوتا تھا اور،غلو غونڈ،کے قریب،ڈوڈا،کے علاقے میں فقیر صاحب کا ایک مستقل،برج مورچہ،تھا جو کہ کچھ عرصہ پہلے تک موجود تھا۔فقیر صاحب کی باجوڑ کے علاقے میں بھی ہزاروں مریدین کی ایک بڑی تعداد موجود تھی جو انگریز کیخلاف لڑائی میں فقیر صاحب کے حکم پر میدان جنگ کا رخ کرتی تھی۔اسی طرح علینگار کے علاوہ فقیر صاحب کا دوسرا ٹھکانہ باجوڑ سلارزو، گاؤں ملکانہ،تھا جہاں پر آپ اکثر آتے جاتے تھے جبکہ ملکانہ میں بھی لنگر دیا جاتا تھا اور لنگر کیلئے لوگ فقیر صاحب کے ساتھ عقیدت کی وجہ سے اکثر پہاڑی،بکریاں،اور،دنبے،لے اتے تھے جن کے سینگ اب بھی بطور یادگار فقیر صاحب کے مزار کے قریب موجود ہیں ۔بر صغیر کے آزادی کا یہ گمنام،بطل حریت،1361ہجری بمطابق 1938عیسوی،کو اس فانی جہاں سے رخصت ہوا اور انکی تدفین،سلارزو گاؤں ملکانہ،میں ہوئی۔آپ کے خاندان کے کچھ افراد کراچی میں مقیم ہیں۔آج انکا مزار انتہائی خستہ حالت میں اس گاؤں میں موجود ہے جس کے دیکھ بال اس گاؤں کے لوگ خود کرتے ہیں ہم پختون قوم جو اپنی آزادی کے حقیقی،ہیروز،کو بھول چکے ہیں اگر انکے افکار وکردار پر عمل نہیں کرسکتے تو کم از کم صاحب استطاعت لوگ اگر انکی،مرقد،کی یادگار کے طور پر حفاظت کرلیں تو یہ بھی بڑی بات ہوگی۔

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.