عنایت سلارزئی
پھچلےدو دنوں سے جاری پرانے وقتوں کی تصویروں پر کمینٹس میں دوستوں اور جاننے والوں کی طرف سے (نائس) لکھنے سے ہمارے لیے ایسے دروازے کھولے جو اب تک بند پڑے تھے۔ ہم نےاپنے بڑوں،استادوں اور بزرگوں سے کہانیاں تو بہت سنی تھیں لیکن اب جاکر آپ باقاعدہ یہ محسوس کرسکتے ہیں کہ ایسا ہوا ہے تبی کہانیاں بنیں ہیں اور یہ سبق ملتا ہے کہ حالات کیسے، کتنی جلدی بے بدل کر بےقابو ہو سکتے ہیں، مگر گزرے ہوئے وقتوں میں تاریخ بھی ہے، سبق بھی، درد بھری داستانیں بھی، اور محبت کے حسین قصے بھی۔ اور جسے جس کی تلاش ہو وہ ان یادوں میں جھانک وہ سب کچھ تلاش کر سکتے ہیں۔ویسے انسان کے یادیں بھی بڑی عجیب شے ہیں، ان سے غمگین لمحوں میں ان کے ذریعے جینے کا حوصلہ ملتا ہے تو کبھی خوشی کے لمحے میں کوئی پرانی تلخ واقعے کی ایک جھلک ذہن کے کسی دریچے سے سر نکالے تو انسان آانسوؤں کے سمندر میں غرق بھی ہو جاتا ہے۔ یہ وہ خزانہ ہے جس کی رکھوالی کے لیے کبھی سانپ بٹھانے کی ضرورت بھی نہیں پڑتی اور نہ ہی اسے چوری کیا جا سکتا ہے،اسلئے یہ سو فیصد محفوظ ہوتا ہے۔ اپ جب چاہیں دماغ کے کسی کونے سے کسی پرانی یاد نکالیں دل بہلایں اور واپس رکھ دیں۔ ان یادوں میں ہمارا بچپن، سکول، کالج،یونورسٹی، ہاسٹل، گاؤں سے لیکر آج تک کے ہمارے دوست،پیار کرنے والے لوگ،خوبصورت نظارے،شرارتیں، مستیاں وہ سب کچھ قید ہوتے ہیں جن کے ساتھ ہمارا بہت مضبوط رشتہ ہوتا ہے۔ یہ ساری چیزیں وقت کے اس پار ہمیں بلاتی ہیں۔ان کے اختیار میں نہیں کہ ہمارے پاس آجائیں لیکن کبھی کبھارہم اپنی مصروفیات میں سے کچھ وقت ان کے لیے ضرور نکالتے ہیں۔اگر اس خزانے میں مثبت یادیں موجود ہیں تو ہمارے امیر ہونے میں کسی کو شبہ نہیں ہونا چاہئے،لیکن ان یادوں میں ایک ڈھیرمنفی یادیں بھی ضرور ہوتے ہیں جو کے زندگی کا حصہ ہوتا ہے ۔ اور بار بار ان منفی یادوں کے دریچے میں سے جھانک کر اپنا وقت اور دماغ خراب نہیں کرنا چاہیے بلکہ ان سے سبق سیکھنا اور آگے چلنے کا نام زندگی ہے ۔ جسے ہم کسی اچھے لطیفے یا پرلطف بات پر کئی بار نہیں ہنس سکتے تو کسی کی طنز بھری باتوں یا برے روئیے کو یاد کر کے نئے سرے سے کیوں روتے یا خفا ہوتے ہیں۔ یہ مشکل ضرور ہے کہ کسی کی کڑوی باتیں یا اذیت دینے والا رویہ انسان بھول جائے لیکن ایسا بھی نہیں ہونا چاہیے کہ انہیں بلائے ناگہانی کی طرح جان پر نازل کریں۔ یہ باتیں کچھ ان لوگوں کے لئے لکھ رہا ہوں جو شاید اذیت پسند واقع ہوئے ہیں کہ جو بات ہمیں تکلیف دیتی ہے اسے فراموش کرنے کی کوشش نہیں کرتے بلکہ انتہائی احتیاط سے رکھتے ہیں،اور تھوڑی سی بھی اونچ نیچ ہو جائے تو اس بات کا موجودہ صورتحال سے ایسا تعلق جوڑتے ہیں کہ خود ہمیں حیرت ہونے لگتی ہے۔ اپنے ذہن میں پیدا ہونے والے منفی سوالوں کا جواب خود ہی سوچتے ہیں جس سے یہ مشکل ٓان پڑتی ہے کہ یا توہم سماج اور لوگوں کو برا بھلا کہیں گے یا اپنے غصے کا اظہار نہ ہونے کی صورت میں جی ہی جی میں کُڑھتے رہیں گے۔ ہماری قوتِ برداشت اتنی نہیں ہے کہ اپنے ساتھ برا کرنے والوں کے حق میں کلمہ خیر کہیں بلکہ اسکے برعکس نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ منفی سوچوں کے ذخیرے میں اضافہ ہو گا۔ ہم ان کو جتنا بھی چھپانے کی کوشش کریں ہمارے چہرے سے سب کچھ ظاہر ہوگا،ہماری صحت متاثر ہوگی،رشتے اور دوستوں سے د وریاں بڑھیں گی۔ یہ نقصان صرف ہمارا ہی ہو گا۔ کیوں کہ کوئی ایسی خوبی ہماری شخصیت میں نظر نہیں ٓائے گی جو پسندیدگی کا باعث بن سکے۔ہمارے اعصاب اور اخلاق پرپڑنے والے برے اثرات بیزاری کا سبب بنیں گے لیکن اگر ہم اپنی سوچھ کا دھارادوسری جانب موڑ دیں تو اس کا فائدہ بھی ہمیں ہی ہو گا، مثبت پہلوؤں پر غور کرنے کی کوشش کریں گے،اپنے خیالوں کی دنیا کو کھوجیں گے تو کتنے بیتے سمے اور بچھڑی صورتوں کی تصویریں نظر ٓائیں گی جنھیں ہم نے بڑے سلیقے سے سجایا ہوتا ہے،یہ انمول یادیں ہمارے چہرے پرمسکراہٹ بکھیر دیتی ہیں۔ہمیں معلوم ہے کہ نہ وہ لمحات ہمارے قبضے میں ہیں اور نہ ہی اس سے بچپن کی بادشاہت لوٹے گی،لیکن کٹھن مراحل سے گزرتے ہوئے ہمیں ٓارام ضرور ملے گی۔حالات سے لڑتا ہوا انسان کبھی کبھی فرار بھی چاہتا ہے جب مسلسل یکسانیت سے وحشت ہونے لگتی ہے اسلئے شکر گزار ہوں کے وقت کے ساتھ ہی حالات اور یہاں تگ کے ہمارے چہرے بھی ہلکے پلکے بدل جاتی ہیں۔یہاں یہ بات ذہن نشیں رہے کہ ماضی کو یاد کرنا اچھی بات ہے لیکن ماضی میں جینا نہیں چاہیے کیونکہ ماضی پرستی چین سے جینے نہیں دیتی اور ہر کسی کا ماضی بھی شاندار نہیں ہوتا لیکن اگر کسی نے تنگی ترشی دیکھی ہے اور حالات کی بھٹی میں جلتا رہا ہے تو ایسے ہی لوگ کندن بن کر نکلے اور کامیابی کے جھنڈے گاڑے کیونکہ برے حالات کی تکلیف انسان کو کچھ کر گزرنے کے قابل بناتی ہے۔ شرط اتنی ہے کہ انسان تخریبی سوچھ سے تعمیری عمل کی طرف منتقل ہو جائے جس کے لیے بڑے دل گردے کی ضرورت ہوتی ہے۔اگر کسی کا ماضی شاندار بھی رہا ہے تو اس کی یاد یا اسکی غرور سے اپنے حال کو ضائع نہ کرے ۔
دوستوں اگر یہ آگے لکھنے والی بات کسی کو بھی برا لگے تو ابھی سےمعافی مانگتا ہوں لیکن بات ضرور کرونگا اور وہ یہ ہے کہ ہمارے دوستوں اور جاننے والوں میں کچھ نرگسی شخصیت کے مریض اپنے ذاتی خود ساختہ وقار اور اہمیت کے متعلق شاندار خیالات رکھتے ہیں جسکا وہ حق رکھتے ہے لیکن اگر وہ اپنی ذمہ داریاں پوری کیے بغیر دوسروں سے اعتقاد رکھتے ہیں کہ انہیں صرف اعلیٰ درجے کے لوگ ہی سمجھ سکتے ہیں۔ حسد اور غلط نظریات کی وجہ سے ان کے دوسرے لوگوں کے ساتھ تعلقات کبھی اچھے نہیں ہوتے اسے دوستوں اور جاننے والوں کے لیے کہنا ہے کہ آپ اور ہم سب ایک ہی جسے انسان ہے۔ دوسروں کو شعور کی بات کرنا ، برداشت کا درس دینا ، صبر کی تلقین کرنا اور بڑی بڑی باتیں کرنا ٹھیک ہے لیکن خود بھی ان پر عملدرآمد کرو گے تو اپکا قد و قدر بڑھےگا اگر ایسا نہیں تو وہ سب وقت کا ضیاع ہیں ۔ انسان کو ہمیشہ شکرگزار ہونا چاہیے کہ ہر کوئی اپنے آپ میں خاص اہمیت کا حامل ہیں، اپنی شکل صورت میں اس جیسا کوئی نہیں، ہر کوئی منفرد ہیں،اور اپنے گزرے ہوئے خود پر فخر کرے اور جو کچھ اسکو جیسا بھی ملا وہ اسی کا تھا ہے اور ہمیشہ دل کے قریب رہیگا۔ ہمارا ۔ماضی ہمارے اج کا حصہ ہے اور اس پر کبھی بہی خفہ یا شرمندہ ہر گز نہیںہنا چاہیے ۔ میں اپنے گزرے ہوئے آپ پر خوش ہوں اور ان تمام لوگوں کا دلی شکریہ جنہوں نے اپنا قیمتی وقت وقت نکال کر میری یادیں تازہ کیں، خوش و خرم اور شاد رہے