تحریر: حسبان اللہ
پولیو قطروں سے انکار مستقبل کی تباہی
ضلع باجوڑ میں پولیو مہم کے کامیابیاں اور ناکامیاں
لیویز اہلکار اور پولیو ورکرز جان پر کھیل کر پولیو مہم جاری رکھے ہوئے ہیں
باجوڑ میں موبائل پاپولیشن کی وجہ سے پولیوپر جلدی قابو پانا ناممکن نظر آرہاہے
ضلع باجوڑ کے دور دراز علاقوں مقیم عوام میں پولیو سے متعلق شعور کی کمی کے باعث 6سالہ کی محنت پر پانی پھیر گیا
تحصیل سلارزئی علاقہ تلی میں ایک شخص نے بچوں کو چھپاکر محکمہ صحت اور حکومت کے چھ سالہ محنت پر پانی پھیر دیا
افغانستان کی سرحد سے جڑے پا کستان کے حساس ضلع باجوڑ میں دہشت گردی ہمیشہ سے ہی ایک سنگین مسئلہ رہاہے لیکن یہاں ہنستے کھیلتے بچوں کےلئے پولیوکامرض اس سے بڑا اورخطرناک دشمن ثابت ہواہے ۔
;3939;مجھے حصول تعلیم کے دوران بہت ساری مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ۔ پرائمری اسکول تو گاوں ہی میں تھا جو بیساکھیوں کے ذریعے وہاں جاتا تھا یہی بیساکھیاں میرے والد صاحب نے دوران مزدوری کراچی سے ایدھی فاونڈیشن سے حاصل کیے تھے اور وہاں سے بھیج کر مجھے زمین سے اٹھا کر چلنے پھرنے کے کچھ قابل بنایا ۔ ہائی سکول کی تعلیم حاصل کرنے کیلئے روزانہ آنے جانے 4کلومیٹر کا فاصلہ بیساکھیوں پر طے کرنا بہت مشکل تھا، ایک طرف راستے کی ناہمواری، بیچ میں نہر اور دوسری طرف کمر پر بستہ اور چلنا بیساکھیوں پر مگر صبح سویرے سکول کیلئے روانہ ہوتا تاکہ بروقت سکول پہنچ سکوں ;34; ۔ یہ کہا نی 39سالہ حضرت ولی شاہ کی ہے جو پاکستان کے قبائلی ضلع باجوڑ کے ر ہائشی ہیں ۔ وہ افغانستان کے ساتھ جڑے پاکستان کے ایک ایسے حساس ضلع میں رہتے ہیں جہاں دہشتگردی کے کئی بڑے اورخوفناک واقعات وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے ہیں ۔ لیکن حضرت ولی پولیوکودہشتگردی سے زیادہ بڑاخطرہ سمجھتے ہیں ۔ حضرت ولی یہ تونہیں جانتے کہ خود انہیں یہ مرض کیسے لاحق ہوا لیکن وہ اسے ایسا خطرہ سمجھتے ہیں جوہسنتے کھیلتے چہروں سے خوشیاں چھین لیتاہے ۔ حضرت ولی شاہ کے مطابق وہ بچپن میں کافی تکالیف سے گزرا اور نہ صر ف وہ بلکہ اُن کے خاندان والوں کو بھی کافی تکلیف پہنچا ۔ حضرت ولی شاہ کافی مشکلات کیساتھ بارہویں جماعت تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد 1998 میں اوپن میرٹ پر گورنمنٹ پرائمری سکول میں پرائمری سکول ٹیچر بھرتی ہوا ۔ حضرت ولی شاہ کا کہنا ہے کہ جو والدین اپنے بچوں کو پولیو سے بچاءو کے قطرے نہیں پلاتے وہ ظلم کرتے ہیں اور اپنے بچوں کو عمر بھر کےلئے معذور کرتے ہیں اور پھر اُن معذور افراد کو اپنے اوپربوجھ تصور کرتے ہیں ۔ اُن کا کہنا ہے کہ اکثر غریب خاندان کا معذور تو اپنے گھر والے اپنے لیے ذریعہ آمدن تصور کرکے بازاروں میں بھیک مانگنے کیلئے بھیجتا ہے جو سارا دن یا تو بیساکھیوں پر دوکان دوکان گھومتا رہتا ہے یا پھر رینگتے ہوئے پورے بازار کا چکر لگاتا ہے ۔ حضرت ولی شاہ نے باجوڑ کے والدین سے اپیل کی کہ وہ پولیو مہم کو کامیاب بناکر اپنے بچوں کو قطرے پلوائیں تاکہ باجوڑ اور پاکستان پولیو سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے صاف ہوسکے ۔
(1093684) دس لاکھ تریانوے ہزار چھ چوراسی نفوس پر مشتمل ضلع باجوڑ میں پولیومہم کے دوران کھبی کامیابیاں اور کھبی ناکامیاں ہوتی ہیں اورناکامی کی بنیادی وجوہات میں سے کئی یہ ہے کہ عوام میں شعور کی کمی کیوجہ سے انکاری والدین ، پولیو کے خلاف پروپیگنڈہ ، سکیورٹی خطرات، ماحولیاتی نمونہ کا مثبت آنا وغیرہ شامل ہیں ۔ ضلع باجوڑ 2012سے لیکر 2018کے ستمبر تک پولیو فری تھا اور محکمہ صحت باجوڑ نے ضلع کو پولیو فری بنانے کیلئے کافی محنت کیا تھا اور اس دوران کوئی پولیو کا کیس مثبت نہیں آیاتھا لیکن ستمبر 2018;247;ء میں تحصیل سلارزئی کے علاقہ تلی میں ایک شخص اپنے بچوں اور رشتہ دار کے بچوں کوپولیو مہم کے دوران چھپاتا تھا کہ یہاں پر بچے نہیں ہیں اور اس سے قبل یہ شخص کافی عرصہ سے بلوچستان میں مقیم تھا اور باجوڑ آنے کے بعد پولیو ٹیموں سے اپنے بچوں کو چھپاتا تھا جبکہ پولیو ٹی میں بھی ڈر کیو جہ سے اپنے بالا حکام کو رپورٹ پیش نہیں کرسکتی تھی جس کیوجہ سے بالا آخر کار باجوڑ میں پولیو کے خاتمے کیلئے کی جانیوالے 6سالہ کوشش پر پانی پھیر دیاگیا اور اس شخص کے بچے میں پولیو
وائرس کی تصدیق ہوگئی جبکہ ساتھ ہی قریبی گھر میں بھی دو بچے پولیو سے متاثر ہوئے اور یہ وائرس پھیلتے ہوئے دوسرے علاقوں میں بھی بچوں کو متاثر کرگیا اور ستمبر 2018سے لیکر جنوری 2019;247; تک پولیو کے 6کیسز سامنے آگئے ۔ جو شخص بچوں کو پولیو کے قطرے نہیں پلاتا تھا اُس کا نام سلطان ابراہیم ہے ۔ تحصیل سلارزئی کے علاقہ بانڈہ میں سلطان ابراہیم کے بیٹی نبیلہ بی بی میں پولیو وائرس پایاگیا ۔ سلطان ابراہیم نے بتایا کہ ہم کو پولیو کے قطروں کے افادیت بارے پتہ نہیں تھا اور ہم اس کے نقصان کے بارے میں لاعلم تھے اور بچوں کو چھپاتے تھے لیکن میری بیٹی متاثر ہوئی تو ہ میں پتہ چلا کہ پولیو کتنی نقصان دہ بیماری ہے ۔ انھوں نے کہا کہ ہمارے خاندان کے اندر مزید دو بچے مصطفی ولد احسان اور عبدالرحمن ولد فضل سبحان پولیو کیوجہ سے متاثر ہوئے ۔ سلطان ابراہیم نے بتایا کہ میں تمام لوگوں کو پیغام دینا چاہتاہوں کہ وہ اپنے بچوں کو پولیو سے بچاءو کے قطرے پلوائیں تاکہ اُن کے بچے عمر بھر کے معذوری سے بچ سکے )
اس کیس کے حوالہ سے گفتگو کرتے ہوئے ضلعی ہیلتھ آفیسر ڈاکٹر وزیر خان صافی کا کہنا ہے کہ یہاں بہت سارے چیلنجز موجود ہیں اوراُن چیلنجز پر کافی حد تک قابو پالیاگیا ہیں لیکن ضلع باجوڑ کی ذیادہ تر آبادی ملک کے دوسرے شہروں اور علاقوں میں محنت مزدوری کی وجہ سے مقیم ہیں اور باجوڑ کی ذیادہ تر آبادی (موبائل آبادی ) ہیں جو ایک جگہ سے دوسرے جگہ منتقل ہوتی ہے جس کیوجہ سے پولیو کا وائرس بھی یہاں منتقل ہوتاہے ۔ (ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر باجوڑ ڈاکٹر وزیر خان صافی نے بتایا کہ محکمہ صحت باجوڑ نے پولیو کیسزآنے اور باجوڑ کے علاقہ خار میں گٹر کے پانی میں پولیو وائرس مثبت آنے کے بعد دیگر اقدامات کے علاوہ پولیو ٹیموں کے تعداد میں بھی اضافہ کیا ۔ سال 2018 میں پولیو ٹیموں کی تعداد 829تھی جن میں موبائل ٹیم 776، فکسڈ ٹیم 41، ٹرانزٹ 12اور ایریا سپروائزر کی تعداد 184تھی تاہم کیسز اور پولیو وائرس مثبت آنے کے بعد 2019 میں ٹیموں کی تعداد میں اضافہ کیاگیا اور ٹیموں کی تعداد 829سے بڑھاکر 989کردی گئی ۔ اب موجودہ وقت میں ٹیموں کی تعداد کچھ یوں ہیں موبائل ٹیم 929، فکسڈ 42، ٹرانزٹ 18اور ایریا سپروائزر کی تعداد 285کی گئی ہیں ۔ ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر نے بتایا کہ موبائل پاپولیشن کی وجہ سے وائرس کی روک تھام رکوانے کیلئے ٹرانزٹ ٹیموں کی تعداد میں اضافہ کیاگیا ہیں اور ٹرانزٹ ٹی میں پہلے12تھی اور اب 18کردی گئی ہیں ۔ انہوں نے بتایا کہ ٹرانزٹ ٹی میں ضلع باجوڑ کے سرحدی علاقوں کے کراسنگ پوائنٹس اور بس اسٹیشن میں تعینات ہوتی ہیں اور وہ اُن بچوں کو قطرے پلاتے ہیں جو ضلع باجوڑ سے باہر جاتے ہیں یا باہر کے علاقوں سے باجوڑ آتے ہیں ۔ ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر باجوڑ ڈاکٹر وزیر خان صافی کے مطابق باجوڑ میں چند ماہ قبل ماحولیاتی نمونہ مثبت آیا تھا اور وائرس پایاگیاتھاجس کا بنیادی وجہ یہ تھا کہ یہ وائرس دوسرے علاقہ سے منتقل ہواتھا اور یہی وجہ تھا کہ چھ سالہ محنت پر پھیر گیا ۔ انہوں نے بتایا کہ علاقہ تلی میں ایک شخص نے بچوں کو چھپاکر قومی مقصد کو نقصان پہنچایا ۔ اُن کے مطابق 2018 میں چھ سال وقفہ کے بعد پولیو کیس رپورٹ ہوا اور اس کیس کی بدولت غفلت برتنے والے 7اہلکاروں جن میں عالمی ادارہ صحت کے ملازمین بھی شامل تھے کوبرطرف کیاگیا ۔
باجوڑ پولیو کیوجہ سے حساس ضلع کیوں ;238;
محکمہ صحت باجوڑ کے حکام کے مطابق باجوڑ کا حساس ہونے کی پانچ وجوہات ہیں جن میں یہ کہ2018کے آخراور 2019کے اوائل میں پولیو کیسز کا مثبت آنا ، مارچ 2019 میں ماحولیاتی نمونہ کا مثبت آنا، انکاری والدین ، پہاڑی علاقہ ہونے کیوجہ سے پولیو مہم میں مشکلات اور سکیورٹی کی غیر یقینی صورتحال شامل ہیں ۔ یہاں پر کئی بار دہشت گردوں نے پولیو ٹیموں پر حملے کئے ۔
دس سال کے دوران 39کیسز
محکمہ صحت باجوڑ کے اعداد وشمار کے مطابق باجوڑ میں صرف دس سال کے دوران پولیوکے 39کیسز سامنے آچکے ہیں ۔ سال2009سے لیکر اب تک 2019تک ٹوٹل 39کیسز آچکے ہیں ۔ سال 2009 میں 15کیسز ، 2010 میں 11کیسز ، 2011 میں 2کیسز ، 2012 میں 5، جبکہ 2018 میں 5اور 2019 میں ایک کیس آیاہے ۔ 2013سے لیکر 2018کے ستمبر تک باجوڑ پولیو سے فری تھا ۔
سکیورٹی رسک
باجوڑ جیسے حساس ضلع میں بچوں کو پولیو کے قطرے پلانا آسان کام نہیں ہیں ،ضلع میں پولیو مہم کے دوران کئی باردہشتگردوں نے پولیورضاکاروں اوراہلکاروں پرحملے کئے، جن میں پانچ لیویز اہلکار شہید بھی ہوچکے ہیں جبکہ آٹھ لیویز اہلکار زخمی ہوئے ۔ اس کے علاوہ ایک رضاکار اور پولیوٹیم کے ایک مانیٹرنگ آفیسر کو فائرنگ کرکے بھی قتل کیاجاچکاہے ۔ جبکہ پولیو ٹیم کا ایک اہلکار فائرنگ کیوجہ سے زخمی ہوا ۔ سال 2015;247;ء میں تحصیل ناوگئی کے علاقہ کمانگرہ میں پولیو ورکر روح اللہ کو نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے دوران مہم قتل کیا جس کے بعد وہاں کے مقامی ورکرز نے سکیورٹی خدشات کے بنیاد پر مزید پولیو مہم میں حصہ نہیں لینے کا اعلان کیا جس کے بعد ضلعی انتظامیہ نے لیویز فورس کے اہلکاروں کو پولیو قطرے پلانے کی ٹریننگ دی اور اب کمانگرہ اور تحصیل چمرکنڈ میں پولیو قطرے لیویز کے اہلکار پلاتے ہیں اور وہاں پر مقامی محکمہ صحت کے رضاکار پولیو کی ڈیوٹی کرنے سے انکاری ہیں ۔
پولیو کے خلاف پروپگنڈہ
رواں سال اپریل کے مہینے میں پولیو کےخلاف پروپیگنڈے کیوجہ سے ضلع باجوڑ میں بھی والدین نے پولیو قطرے پلانے سے انکار کردیا جس کیوجہ سے ہزاروں کی تعداد میں انکاری کیسز سامنے آگئے تھے ۔ تاہم محکمہ صحت باجوڑ نے علمائے کرام ، مقامی مشران اور اثر ورسوخ رکھنے والے افراد کے ذریعے انکاری والدین کو قائل کیا ۔
پولیو ورکرز کو کم الاءونس دینا
ضلع باجوڑ میں پولیو قطرے پلانے والے فرنٹ لائن ورکرز کو انتہائی کم اجرت دیاجاتاہے اورچار روزہ مہم کا فی کس اجرت 3000روپے دیاجاتاہے جبکہ اس کے برعکس ملک کے دیگر علاقوں اور دیگر قبائلی اضلاع میں ورکرز کو کافی معاوضہ دیاجاتاہےاور وہاں پر اس مقصد کیلئے مستقل ٹی میں ہوتی ہیں ۔ دیگر قبائلی اضلاع میں کمیونٹی بیسڈ ویکسینیشن ٹیموں کو ماہانہ 15ہزارسے لیکر20ہزارروپے تک فی کس ماہانہ تنخواہ دیاجاتاہے ۔ لیکن باجوڑ میں صرف تین دن کا اجرت دیاجاتاہے اور وہ بھی اکثر اوقات کافی تاخیر سے ملتاہے ۔ باجوڑ میں پولیو کیلئے مستقل سٹاف بہت کم ہے اور تمام مہم کا انحصار روزانہ اجرت لینے والے ورکرز پر ہیں ۔
شعور وآگاہی مہم پر کم جبکہ آپریشن پر ذیادہ خرچ کیاجاتاہے
محکمہ صحت باجوڑ کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ضلع باجوڑ میں پولیو مہم کو کامیاب بنانے کیلئے سب سے ذیادہ توجہ عوام میں شعور وآگاہی پھیلانے پر دینا چاہئے لیکن اس کے برعکس ذیادہ پیسہ پولیو آپریشن پر خرچ کیاجاتاہے ۔ انہوں نے کہا کہ عالمی ادارہ صحت کے ملازمین کے تنخواہیں بہت ذیادہ ہیں ۔ (عالمی ادارہ صحت کے سوشل موبیلائیزر کو 56ہزار روپے ماہانہ تنخواہ فی کس دیا جاتاہے جبکہ کمیونیکیشن سٹاف کے سوشل موبیلائیزر کو ماہانہ 21ہزار روپے فی کس تنخواہ دیا جاتاہے اور اس کے علاوہ فرنٹ لائن پر ڈیوٹی کرنیوالے ورکر کو چار دن کا معاوضہ 3ہزار روپے دیا جاتاہے ۔ اس کے علاوہ تحصیل لیول پر کام کرنیوالے عالمی ادارہ صحت کے ملازم کی تنخواہ 90ہزار روپے ماہانہ جبکہ کمیونیکیشن سٹاف کے ملازم کو 45ہزا روپے ماہانہ دیا جاتاہے ) فرنٹ لائن پر ڈیوٹی کرنیوالے ملازمین اور کمیونیکیشن سٹاف کی تنخواہ بہت کم ہیں ۔ یہ بھی ایک وجہ ہیں کہ فرنٹ لائن پر کام کرنیوالے ورکرز اور شعور وآگاہی مہم چلانے والے اہلکاروں کو انتہائی کم معاوضہ دیاجاتاہیں ۔ انھوں نے کہا کہ اگر عالمی ادارہ صحت کے سارے ملازمین کی تنخواہیں کے برابر بجٹ شعور وآگاہی مہم پر خرچ کیاجائے تو باجوڑ میں کبھی پولیو کے حوالہ سے مسئلہ نہیں آئیگا ۔ انھوں نے بتایا کہ کم اجرت کے باعث ذیادہ تر ورکرز ڈیوٹی میں بہت کم دلچسپی لےتے ہیں ۔ پولیو کےلئے مستقل سٹاف نہ ہونے کیوجہ سے اجرت پر کام کرنیوالے ورکرز سے کام لیا جاتاہے اور باجوڑ میں مستقل سٹاف نہ ہونے کیوجہ سے اکثر اجرتی ملازمین سے ویکیسن خراب ہوجاتی ہیں کیونکہ پولیو ویکسین انتہائی قیمتی ہوتے ہیں اور اُس کو ٹھنڈے کولر میں رکھنا پڑتے ہیں جبکہ اس کے علاوہ دور دراز پہاڑی علاقوں میں پہنچائے جاتے ہیں جس کیوجہ سے اکثر ویکسین خراب ہوجاتے ہیں ۔
باجوڑ میں پولیو کےخلاف علمائے کرام کا مثبت کردار
ضلع باجوڑ میں جب بھی پولیو کےخلاف منفی پروپیگنڈہ کیاگیاہیں یا انکاری والدین نے روڑے اٹکائے تو یہاں کے علمائے کرام اور مذہبی شخصیات نے اُن کو قائل کیا ۔ محکمہ صحت باجوڑ نے ہمیشہ علمائے کرام ، قبائلی مشران اور اثر ورسوخ رکھنے والے افراد کی مدد حاصل کی اور ان لوگوں نے پولیو مہم کے کامیابی میں ہمیشہ کردار ادا کیاہےں جوکہ ایک بڑی کامیابی ہے ۔ باجوڑ کے ایک مذہبی شخصیت مفتی حنیف اللہ نے بتایا کہ پولیو کے قطرے جائز وحلال ہے اور اس میں کوئی ممانعت نہیں ہیں ۔ انھوں نے کہا کہ والدین بچوں کو پولیو کے قطرے ضرور پلوائیں تاکہ ان کے بچے پولیو معذوری سے بچ جائے ۔ مفتی حنیف اللہ نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ اکثرلوگ پروپیگنڈے کیوجہ سے پولیو قطرے نہیں پلاتے اور وہ یہ کہتے ہیں کہ یہ کافروں نے مسلمانوں کی آبادی کنٹرول کرنے کیلئے بنائی ہیں جبکہ اس کے علاوہ اور بھی مختلف قسم کے باتیں کرتے ہیں لیکن ہم اُن کو قائل کرتے ہیں ۔ اور اُن کو ملک کے بڑے علمائے کرام جن میں مفتی اعظم مفتی تقی عثمانی، مولانا فضل الرحمن ، مولانا سمیع الحق مرحوم کا حوالہ دیتے ہیں کہ وہ ملک کے بڑے علمائے کرام ہیں اوراُنہوں نے بھی پولیو قطروں کو جائز وحلال قرار دیاہیں تو پھر وہ لوگ راضی ہوجاتے ہیں اور بچوں کو پولیو کے قطرے پلاتے ہیں ۔
10سال کے عمر تک کے بچوں کو قطرے پلانا
محکمہ صحت باجوڑ نے پولیو کیسز آنے اور خار کے علاقہ میں گٹر کے پانی میں پولیو کا وائرس مثبت آنے کے بعد 10سال تک عمر کے بچوں کو قطرے پلائے اور اس خصوصی مہم کے تحت خار میں 4056بچوں کو پولیو سے بچاءو کے قطرے پلائے گئے اور اس منصوبہ بندی کیوجہ سے مزید کیسز کا روک تھام کیاگیا ، محکمہ صحت باجوڑ کے مطابق پولیو روکنے کیلئے اس نئے حکمت عملی کواپنایاگیا جوکہ کامیاب رہا اور جنوری کے بعد کوئی کیس سامنے نہیں آیا ۔ یہ حکمت عملی پہلی بار پاکستان میں اپنائی گئی جو کامیاب رہی ۔
پولیو وائرس کو منفی میں تبدیل کرنا
ضلع باجوڑ میں اگست 2018ء میں صدر مقام خا رکے نالیوں میں پولیو وائرس پایاگیا تھا اور ماحولیاتی نمونہ مثبت آیاتھا تا ہم محکمہ صحت باجوڑ کے کوششوں سے یہ منفی ہوگیا اور جنوری سے لیکر تاحال باجوڑ کا ماحولیاتی نمونہ منفی رہاہے ۔ ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر ڈاکٹر وزیر خان صافی کےمطابق جب صدر مقام خار میں پولیو وائرس پایاگیا اور علاقہ خار کے گٹر کے پانی میں وائرس پایاگیا تو سب سے پہلے ہم نے یہ حکمت عملی اپنائی کہ ہم نے مذکورہ علاقہ میں 10سال سے کم عمر بچوں کو پولیو کے قطرے پلوائے ، اس کے علاوہ مقامی مشران اور علمائے کرام کیساتھ جرگے کی اور عوام کو مشران اور علمائے کرام کے ذریعے قائل کیاگیا ۔ تازہ رپورٹ کے مطابق 15ستمبر 2019;247;ء کو ایک بارپھر صدر مقام خا رکے گاوں چاقوڑئی اور سہیل آباد میں گٹر کے پانی کے نمونے لئے گئے اور ایک مرتبہ پھر وائرس منفی پایاگیا ۔