پولیس کمانڈ ثناء آغاخان

0

	

	 قیام پاکستان ہمارے باپ داداکی بینظیرجدوجہدکا بیش قیمت انعام جبکہ استحکام پاکستان کاخواب شرمندہ تعبیرکرنا ہماراسخت امتحان ہے۔ مادروطن نے اپنے تہتر برس کے دشوار" سفر" میں بہت" "Sufferکیا ہے۔ کارواں کے آغازمیں پاکستانیوں کے سچے میرکارواں کی اچانک موت نے قوم کاشیرازہ بکھیردیا۔بابائے قوم ؒ کی وفات کے بعدکسی سیاستدان میں قائد ؒ کے افکارو کردارو کی جھلک نظرآئی اورنہ کسی نے ہجوم کوپھر سے قوم بنانے کابیڑااٹھایابلکہ روزانہ کی بنیادپرمعرض وجودمیں آنیوالی سیاسی پارٹیوں نے عوام کومزید منقسم کردیا۔مخلص قیادت سے محروم اورمظلوم پاکستان تختہ مشق بن کررہ گیا۔شروعات کے چندبرس بعدہی جمہوریت اورآمریت کے درمیان آنکھ مچولی شروع ہوگئی۔پولیس سمیت کئی ریاستی ادار ے آج بھی ماضی کی حادثاتی قیادت کے ہاتھوں تجربات کاخمیازہ بھگت رہے ہیں۔ہر کامیاب اورمہذب معاشرے میں افرادکی انفرادی واجتماعی اصلاح اوراداروں میں دوورس اصلاحات کی ضرورت واہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔پاک فوج سمیت ہمارے کئی ریاستی اداروں کودنیا بھر میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔دفاع کے ہرشعبہ میں پاک فوج کاعروج پرپہنچنااورمتعدد عالمی مقابلوں میں کامیابی کے جھنڈے گاڑنا قابل قدربلکہ قابل رشک ہے۔پاک فوج کاادارہ دوسرے ریاستی اداروں کیلئے قابل فخراورقابل تقلید ہے۔ہمارے عوام اپنی پولیس کوبھی پاک فوج کی طرح مستعد اورمنظم دیکھنے کے خواہاں ہیں۔
	سیاستدان انتخابات میں پولیس میں اصلاحات اورتھانہ کلچر کی تبدیلی کازوردار نعرہ لگاتے بلکہ مژداسناتے ہیں مگر اقتدارمیں آنے کے بعداپوزیشن سمیت ہرقسم کے احتجاج کوکچلنے کیلئے پولیس کا سہارالیاجاتا ہے،میں سمجھتی ہوں جوحکومت مستقل مزاجی سے اپنے عوامی'' ایجنڈے'' پرکاربندرہے گی اسے اپنے خلاف کوئی مزاحمت دبانے یاروکنے کیلئے کسی ڈنڈے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔پولیس کے قیام اوراستحکام کابنیادی مقصد معاشرے میں امن وامان برقراررکھنا ہے مگر ہمارے ہاں پولیس سے ہروہ کام لیاجاتا ہے جودوسرے انتظامی اداروں نے کرنے ہوتے ہیں۔پولیس میں مسلسل سیاسی مداخلت سے اس کی انتظامی صلاحیت پرمنفی اثرپڑا ہے۔ہمارے ہاں ہربااثر سیاستدان اورحکمران نے پولیس کواپنے سیاسی مفادات کیلئے استعمال بلکہ اس اہم ریاستی ادارے کااستحصال کیا۔وزیراعظم عمران خان نے بھی کنٹینر والی اپنی جذباتی تقریروں میں جہاں ایک سے بڑھ کرایک بلندبانگ دعویٰ کیا تھاوہاں وہ پولیس کلچر کی تبدیلی کے بھی داعی تھے۔پنجاب میں پولیس کلچر کی تبدیلی کیلئے ایک دوراندیش،صاحب بصیرت اورزیرک منتظم اعلیٰ کی ضرورت تھی مگر وزیراعظم عمران خان کوسردارعثمان بزدار پسندآگئے اوریوں پنجاب ایک اناڑی کے سپردکردیاگیا۔پنجاب کے زیرتربیت وزیراعلیٰ دوسروں کی تربیت کیا خاک کریں گے۔ایک ناقص فیصلے سے کئی فیصلے متاثرہوتے ہیں۔پی ٹی آئی کاجنم لاہور  میں ہوا مگر ان کے اپنے دوراقتدارمیں پنجاب سے ان کی سیاست کاجنازہ اٹھ گیا۔وزیراعظم عمران خان کے اس عاقبت نااندیشانہ فیصلے سے ان کے اورعوام کے درمیان فاصلے مزید بڑھ گئے ہیں۔خیبرپختونخوامیں بھی وزیراعلیٰ اور صوبائی وزراء کے درمیان خلیج اورگہری دراڑ ہے،تین وزراء کی چھٹی سے خطرے کے بادل نہیں چھٹ سکتے۔
	 تبدیلی سرکار پولیس کلچر تبدیل کرنے میں کوئی خاص سنجیدہ نہیں لگتی۔شہرلاہور کے سابقہ جہاندیدہ اورپیشہ ورسی سی پی اوبی اے ناصر نے پولیس ریفارمز کیلئے تحریری طورپر پورانصاب اورنظام بنادیا تھا جویقیناپچھلے کئی مہینوں سے کسی ایوان اقتدار کے کباڑخانے میں پڑا ہے۔میں سمجھتی ہوں ارباب اقتدارکے مائنڈسیٹ کی تبدیلی تک تھانہ کلچر نہیں بدلے گا۔میں جب پولیس حکام کی بے بسی اورمجبوری دیکھتی ہوں توریاستی نظام کاماتم کرنے کوجی چاہتا ہے۔عوام کی پولیس کمانڈ سے جوبھی ڈیمانڈ ہے وہ کوئی مافوق الفطرت نہیں،وہ تو اپنی پولیس کونیک نام اوراپنے حقیقی مقام پرجبکہ پیشہ ورانہ اورآبرومندانہ اندازسے محکمانہ کام کرتے ہوئے دیکھناچاہتے ہیں۔آئی جی پنجاب شعیب دستگیر،بی اے ناصراوراشفاق احمدخان سمیت پولیس حکام تھانوں میں رائج فرسودہ نظام سے نجات کے خواہاں اوراس کیلئے انتہائی سنجیدگی سے کوشاں ہیں مگر ہماری سیاسی اشرافیہ اس ناگزیر تبدیلی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔پولیس کلچر کی تبدیلی کیلئے کس آفیسریااہلکارسے کیاکا م لیاجائے یہ حقیقت عثمان بزدار ہرگز نہیں سمجھ سکتے۔بی اے ناصر کوپولیس سیٹ اپ میں موثرتبدیلی کیلئے مزید اختیارات اورمینڈیٹ دینے کی بجائے الٹانہیں منظر سے ہٹادیا گیا۔شہرلاہورکے مستعداورمنظم ڈی آئی جی آپریشن اشفاق احمدخان کوجاندار کارکردگی اورشاندارنتائج کے باوجودمحض سات ماہ بعد تبدیل کردیا گیا،تبدیلی سرکار کوتھانہ کلچر کی تبدیلی سے ہرگزکوئی سروکار نہیں۔ملک میں تبدیلی کیلئے پنجاب پولیس میں آئے روزتبادلے ضروری نہیں۔نظام میں استحکام جبکہ حکام کوجائزاحترام اورمناسب ٹائم فریم دینے سے آئے گا۔ بی اے ناصراوراشفاق احمدخان سے پروفیشنل آفیسرز کی  متنازعہ''تبدیلی'' سے تھانہ کلچر کی تبدیلی کاخواب شرمندہ تعبیر ہوتے ہوتے رہ گیا۔لاہور پولیس لائنز میں ہونیوالی مختلف اورموثرسرگرمیوں کی شروعات کاکریڈٹ اشفاق احمدخان کوجاتا ہے۔اشفاق احمدخان ڈی آئی جی آپریشنزلاہور کے منصب پرنہیں رہے مگران کی اصلاحات کے ثمرات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ایس ایس پی آپریشنزلاہورمحمدنوید اپنے کام سے اپنامقام بنارہے ہیں۔محمدنویدسے نیک نام آفیسرز پنجاب پولیس کے ماتھے کاجھومرہیں۔
	تھانہ کلچر کی تبدیلی کیلئے سردار عثمان بزدار سے کسی بردباری، کارخیر اورمثبت کردار کی امید نہیں کی جاسکتی۔سردارعثمان بزدار کامیرٹ اورمینڈیٹ کسی سے چھپاہوانہیں ہے۔کپتان کے ہاتھوں بزدار کی تبدیلی تک پنجاب میں پولیس کلچر اورپٹوارکلچر ہرگز نہیں بدلے گا۔ان دنوں پنجاب پولیس کی کمانڈ ایک پروفیشنل،تجربہ کاراورسمارٹ آئی جی شعیب دستگیر کے پاس ہے جو پنجاب کی سطح پرپولیس کلچر میں تبدیلی کیلئے مسلسل دوررس اصلاحات کیلئے کوشاں ہیں مگرہنوزدلی دوراست۔صرف آئی جی پنجاب کاپروفیشنل ہوناکافی نہیں جب تک منتظم اعلیٰ فہم وفراست کاحامل نہیں ہوگا،اس وقت تک آئی جی پنجاب شعیب دستگیرتنہا کچھ نہیں کرسکتے۔شعیب دستگیر کی طرف سے مختلف شہروں کے اچانک مگر موثر''دوروں '' سے عوام اورپولیس کے درمیان'' دوری'' میں خاطرخواہ کمی آئی ہے۔آئی جی پی شعیب دستگیر کیلئے ان کامنصب ایک بڑا چیلنج ہے،وہ ڈیلیورکرنے کیلئے پنجاب بھرمیں پولیس کی کاررکردگی کونہایت مہارت اورباریک بینی سے مانیٹرکررہے ہیں۔شعیب دستگیر نے مختلف عہدوں پراپنے منفردکام سے اپنی خدادادصلاحیتوں کالوہامنوایا ہے۔ آئی جی پی کے قابل قدر ''ویژن'' سے معاشرے میں پولیس کا''وزن'' بڑھ گیاہے۔آئی جی شعیب دستگیر کی تعمیری اصلاحات کے سبب اہلکاروں کا شہریوں کے ساتھ رویہ تبدیل ہورہا ہے۔انتھک شعیب دستگیر نے پولیس کی سمت اورگفتارکافی حدتک درست جبکہ رفتارتیزتر کردی ہے،پولیس میں انقلابی اقدامات دیکھنے میں آرہے ہیں۔پولیس میں مجرمانہ سرگرمیوں کی سرکوبی کیلئے جدیدٹیکنالوجی کامہارت سے استعمال خوش آئند ہے۔شعیب دستگیر پولیس کوجدیدتقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کیلئے کوشاں ہیں۔میں سمجھتی ہوں پولیس نے مجموعی طورپر اپنے وسائل محدود جبکہ مسائل کا انبارہونے کے باوجوداپنے کام اورکاز کے ساتھ بھرپور انصاف کیا ہے تاہم ابھی مزید بہتری کی ضرورت ہے۔وہ لوگ جوپولیس کلچر پرانگلی اٹھاتے ہیں انہیں اس ادارے کے اندر جاری سیاسی مداخلت بلکہ سیاسی جارحیت کوبھی سمجھنااورعوامی طاقت کے بل پرروکناہوگا۔آئی جی پی شعیب دستگیر جس عزم واستقلال اور منظم اندازسے پنجاب پولیس کوکمانڈکررہے ہیں اسے دیکھ کرلگتا ہے وہ عوام کی ہرجائزڈیمانڈ پوری کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے
You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.