آہ. سرمایہ ملت حضرت مولاناپیرعزیزالرحمن ہزاروریؒ ہم سے بچھڑ گئے۔ حافظ مومن خان عثمانی

چٹان
0

برکۃ العصر،مرشدعالم، شیخ الحدیث حضرت مولانامحمدزکریا نوراللہ مرقدہ کے خادم،تربیت یافتہ اورخلیفہ اجل،مرشدالعلماء،پیرطریقت،رہبرشریعت،سرمایہ ملت حضرت مولاناپیرعزیزالرحمن ہزارویؒ اپنے خاندان،ہزاروں شاگر،مریدین ومتوسلین اور لاکھوں عقیدت مندوں کومغموم چھوڑ کریکم ذی قعدہ ۱۴۴۱ھ (۳۲جون ۰۲۰۲) بروزمنگل سفر آخرت پرروانہ ہوگئے،حضرت پیرصاحب کا سانحہ ارتحال صرف پاکستان کے لئے نہیں بلکہ پوری دنیا کے مسلمانوں کے لئے بہت بڑانقصان ہے،دنیا ایک عظیم مرشد،بیباک مبلغ،،باکرداراستاذ،مخلص رہنمااور حق گوعالم دین سے خالی ہوگئی،مولاناپیر عزیزالرحمن ہزاروی رحمہ اللہ ۲فروری ۲۴۹۱ء کو چھپرگرام ضلع بٹگرام میں صاحبزادہ مولانامحمدایوبؒ کے ہاں پیداہوئے،آپ کے دادامولاناعبدالمنان سلسلہ نقشبندیہ میں کشمیر کے ایک بزرگ کے خلیفہ مجازتھے،مقامی مسجد میں امامت کے ساتھ طلباء کو اسباق پڑھاتے تھے،تعلیم وتربیت کے ساتھ ذکروشغل میں مصروف رہتے تھے،انہی کے زیر تربیت حضرت پیرصاحب کی ابتدائی تعلیم کا آغازہوا،ان کی وفات کے بعد اپنے والد گرامی مولانامحمدایوب صاحب ؒکی زیر سایہ ابتدائی کتب پڑھنے کے ساتھ سکول کی تعلیم بھی جاری رکھی،۰۶۹۱ء میں داداکی وفات کے بعد حضرت پیر صاحب کے والد کو حالات نے گھیر لیاجس پر آپ بچپن میں اپنے چچاکے ساتھ روزگار کے سلسلہ میں کراچی تشریف لے گئے،بچپن میں تعلیم ادھوری چھوڑ کر روزگار کے لئے سفر کرنا یقیناوالدین کے لئے ایک پریشان کن مرحلہ تھا،چنانچہ انہی کی دعاؤں کی بدولت ان کے ماموں مولاناعبدالستار نے چند ماہ بعد کراچی سے واپس لاکر بڑے بھائی حبیب الرحمن سمیت راولپنڈی کے ایک دینی مدرسہ میں داخل کیا،موقف علیہ تک آپ نے راولپنڈی کے مختلف مدارس میں تعلیم حاصل کی،دورہ حدیث کے لئے دیوبند ثانی دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک تشریف لے گئے شوال ۱۹۳۱ھ ۱۷۹۱ء کو دارالعلوم حقانیہ میں داخل ہوکر دورہ حدیث کی تکمیل شروع کی،شیخ الحدیث حضرت مولاناعبدالحق صاحب اور اس وقت کے اکابر علماء سے دورہ حدیث پڑھ کر سندفراغت حاصل کی،دورہ حدیث سے فراغت کے بعدچوہڑ ہڑپال راولپنڈی کی ایک مسجد میں امامت وخطابت کے ساتھ درس وتدریس کاسلسلہ شروع کیا،برکۃ العصر شیخ الحدیث حضرت مولانامحمدزکریا نوراللہ مرقدہ سے بیعت کے متعلق حضرت پیر صاحب خود فرماتے ہیں ”حضرت مرشدی کو اس ناکارہ نے زمانہ طالب علمی سے جانا اورغالباًاس کی ابتداء کچھ طرح ہوئی کہ میں نے حضرت کی کتاب ”حکایات صحابہ“خرید کر پڑھی، پڑھنے کے دوران بیحد اثر ہوتاتھا اور رقت وگریہ کی حالت طاری ہوجاتی تھی، حضرت کی پہلی زیارت مسجد زکریا راولپنڈی میں اس وقت ہوئی تھی جب احقر طالب علم تھا اور اسی ملاقات میں بیعت کی عمومی مجلس میں حضرت اقدس سے بیعت ہوا،حضرت نے کھانے کے وقت مدارس دینیہ کے طلباء کو خصوصیت سے انتہائی شفقت فرماتے ہوئے بلواکر کھاناکھلایا جس کامجھ پر بہت اثر ہوا کہ اتنے بڑے بزرگ اور غریب طلبہ پر ایسی شفقت فرمائی،حالانکہ وہاں بڑے بڑے لوگ موجودتھے،حضرت سے مصافحہ بھی ہوا اور باجماعت نمازپڑھتے بھی دیکھا،اس وقت حضرت کی معذوری ایسی تھی کہ نمازکے لئے کھڑے کئے گئے پھر ساری نمازخود ہی ادافرمائی،۵۷۹۱ء میں ایک دلخراش واقعہ کے بعد آپ اس مسجد سے علیحدہ ہوئے اور مسجد صدیق اکبر کی بنیاد رکھ کر وہاں دینی خدمات سرانجام دینے لگے جو بعد میں ایک عظیم دینی مرکز اور نامور خانقاہ کی صورت اختیار کرگئی،۶۷۹۱ء میں آپ نے حرمین شریفین میں مستقل سکونت کے ارادے سے وہاں کا سفر کیا،چونکہ آپ کے پیرومرشد شیخ الحدیث حضرت مولانازکریا صاحب کامستقل قیام بھی مدینہ منورہ میں تھا،اس لئے آپ بڑے شوق اور جذبہ کے ساتھ اس سفر پر روانہ ہوئے،اس سفر میں آپ کے ساتھ مجاہدملت حضرت مولاناغلام غوث ہزارویؒ،مولاناحکیم محمدجان ؒ،مولاناحکیم محمدداؤدؒ اور ان کے صاحبزادے مولانامسعودالرحمن ؒآف ٹیکسلا بھی شریک تھے،مکہ مکرمہ پہنچ کر آپ نے اپنے پیر ومرشد برکۃ العصر شیخ الحدیث حضرت مولانازکریا رحمہ اللہ سے تجدیدبیعت کاشرف حاصل کیا،اس واقعہ کو لکھتے ہوئے مولاناپیر عزیزالرحمن رحمہ اللہ فرماتے ہیں ”۷/۸ رجب ۶۹۳۱ھ مئی ۶۷۹۱ ء کو مکہ مکرمہ پہنچے ۸یا۹ رجب کو احقر مدرسہ صولتیہ ایک امانت رقم دینے گیا تو مدرسہ کی مسجد میں ایک بزرگ کو دیکھا جو کہ مراقب تھے اور چند خدام پیچھے بیٹھے ذکر جہری میں مصروف تھے غور سے دیکھا تو مرشدعالم حضرت شیخ ]مولانامحمدزکریا[نوراللہ مرقدہ تھے مدرسہ والوں سے معلوم ہوا کہ حضرت مدینہ طیبہ سے ہندوستان کے لئے بغرض سفر رخصت ہوکر آئے ہیں اور رمضان کے بعد ہندوستان سے واپسی ہو گی یہ معلوم کرکے مجھے بہت صدمہ ہوا،چنانچہ غالباً بعد نماز عشاء حاضرخدمت ہوا،حاضری سے قبل اسی غرض سے طواف بھی کیا اور ملتزم وغیرہ مقامات ِ مبارکہ پردعائیں کیں،حضرت اقدس سے مصافحہ کیا،حضرت نے خصوصی شفقت فرمائی،کھانابھی کھلایا،اب احقر نے اپنی تمناوخواہش کا اظہار کیا سابقہ بیعت کا بھی بتایا دوبارہ بیعت کے لئے درخواست کی،حضرت اقدس ]شیخ زکریا رحمہ اللہ[نے فرمایا ”کل فلاں وقت آجانا“بندہ نے عرض کیا کہ میں جماعت کے ساتھ پابندہوں وہ تو کل مدینہ منورہ جائیں گے اسی وقت بیعت فرمالیں،حضرت اقدس چار پائی پر رونق افروز تھے بندہ کی درخواست قبول کی اور کمال شفقت سے احقر کے ہاتھ اپنے ہاتھ مبارک میں لے کر بیعت فرمایااور دعافرماکر رخصت کیا،اس بیعت کی پہلی برکت دیکھی کہ اس رات پاکستان ہاؤس محلہ شامیہ مکہ مکرمہ میں بندہ نے خواب دیکھا جس کی کیفیت الفاظ میں بیان ہوہی نہیں سکتی دیکھا کہ میرے سینے سے بیت اللہ شریف تک ایک برق روچل رہی ہے اور اس سے دل کو بے حد سرور ہورہاہے۔“حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ کا معمول تھا کہ رمضان المبارک کا مہینہ ہندوستان میں گزارتے اور اعتکاف کے دوران اپنے ہزاروں مردیدین ومنتسبین کی اصلاح وتربیت فرماتے،چنانچہ حضرت شیخ الحدیث نوراللہ مرقدہ رمضان المبارک کے بعد واپس مدینہ منورہ تشریف لے گئے تو حضرت پیر عزیزالرحمن ہزاروی صاحب ؒ مدینہ منورہ میں ہی تھے،اس دوران آپ حضرت شیخ الحدیث کی خدمت کا شرف حاصل کرتے ہوئے حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ کی صحبت کا پورا پورا فائدہ اُٹھایا اور خوب مستفید ہوئے۔

اس روحانی کیف ومستی کی کیفیت بیان کرتے ہوئے حضرت ہزاروی ؒ فرماتے ہیں ”احقر کو معلوم ہوا تھا کہ مسجد نور کی طرف سے حضرت اقدس کی خدمت میں دوآدمی مقررہوتے ہیں چنانچہ بندہ نے اس کے لئے درخواست کی جو منظورہوگئی اور اس طرح بندہ باقاعدہ حضرت اقدس کے ہاں خدمت پرمامورہوگیا،عشاء کے بعد مہمانوں کوکھاناکھلاتے وقت حضرت کی خوب خوب زیارت ہوتی تھی، دسترخوان سے فراغت کے بعد ہم برتن دھوتے اور حضرت اقدس وضوتازہ فرماکر روضہ شریف پر حاضری کے لئے جاتے اور خدمت والوں کو بھی شفقت ومحبت کی نظر سے دیکھتے،فارغ ہوکر احقر بھی اس جگہ پہنچ جاتا ]یعنی مصلی جنائزپر[جہاں حضرت اپنے خدام کے ساتھ تشریف فرماہوتے تقریباًایک گھنٹہ کی یہ سعادت بھی نصیب ہوجاتی تھی،علاوہ ازیں بعد فجر مجلس ذکر،بعد عصر عمومی مجلس میں بھی پابندی سے شرکت کرتا،انہی دنوں ایک بار خصوصی ملاقات کے لئے وقت لیا،اس میں حضرت اقدس کو اپناایک خواب سنایا جو عبرت آموزہونے کی وجہ سے لکھتا ہوں ”خواب میں دیکھا،میں اور دواور صاحب تھے جن کو جانتا نہیں،مسجد نبوی کے اندر ریاض الجنہ میں روضہ شریف کی طرف منہ کرکے کھڑے ہیں اور پوری مسجد شریف خالی ہے ان دومیں ایک صاحب عقیدہ حیات النبی ﷺ کے منکر تھے اور چونکہ میں زبردست قائل تھااس لئے وہ منکر حیات مجھ سے کہتا ہے کہ پڑھو سنتے ہیں؟اس کا مقصد انکار واستہزاتھا،اتنے میں دیکھا کہ جالی مبارک اوپر اُٹھی اور حضور پرنور فداہ ابی وامی صلی اللہ علیہ وسلم نے احقر کو اشارہ فرمایا کہ”اس کو مارو“چنانچہ اشارہ ملتے ہی بندہ اور دوسرے ساتھی نے اس بدبخت کو مارناشروع کیا وہ بھاگ گیا،اب حضور ﷺنے دوچادریں بندہ کو عنایت فرمائیں جن میں خاص قسم کی سبزلکیرے تھیں،بندہ نے خوشی خوشی قبول کیں اور آنکھ کھل گئی“اس خواب کو حضرت نے غور سے سنا،پھر بندہ نے نصیحت کے لئے درخواست کی تو فرمایا”موت کو کثرت سے یادرکھنا“ اور اپنارسالہ ”موت کی یاد“اور کتاب ”شمائل ترمذی“کو مطالعہ میں رکھنے کا ارشاد فرمایا۔“سرمایہ ملت حضرت مولاناپیر عزیزالرحمن ہزاروی رحمہ اللہ کا ارادہ مدینہ منورہ میں مستقل سکونت اختیار کرنے کا تھا اور اسی غرض سے یہ سفربھی کیا تھا مگر دوست واحباب کا تقاضاتھا کہ واپس آجائیں،اسی دوران مجاہد ملت مولاناغلام غوث ہزارویؒ کا حکم نامہ بھی پہنچا کہ واپس آجائیں یہاں دینی کی کام کی ضرورت ہے،جس پر حضرت پیر صاحب یہ ارادہ ترک کرکے وطن واپس لوٹے،مدینہ منورہ میں قیام کے لئے آپ نے اپنے پیر ومرشد حضرت شیخ الحدیث نور اللہ مرقدہ اور مبلغ اسلام حضرت مولاناسعید احمدخان رحمہ اللہ سے بھی مشورہ کیا جس کے متعلق حضرت پیرصاحب لکھتے ہیں ”احقر نے قیام مدینہ منورہ کے لئے مرشدی نور اللہ مرقدہ اور ان کے مجاز حضرت مولاناسعید احمدخان ؒصاحب سے بھی مشورہ کیا فرمایا”جوان ہو پاکستان جاکر کام کرو میں تو بوڑھاہوں جب تم بوڑھے ہوجاؤ تو مرنے کے لئے آجانا….مدینہ منورہ کا چھ ماہ کا قیام بے حددلچسپ،بابرکت اور مفید رہا،اس دوران میں جب تک ]حضرت شیخ الحدیث صاحب [ہندوستان میں تشریف فرما رہے میرازیادہ تر وقت تبلیغی جماعت کے ساتھ گزرتاتھا چنانچہ حج کے فورا ًبعد پاکستان واپس آیا اور مسجد صدیق اکبر میں مالک نے خدمتِ دین کا موقع عطافرمایا“۰۰۴۱ھ (۰۸۹۱ء)میں حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ نے فیصل آباد میں رمضان گزراکر اعتکاف کیاتھا،اس میں حضرت ہزاروی ؒ نے شرکت کرکے حضرت کی خدمت کاایک بار پھر شرف حاصل کیا،محرم الحرام ۱۰۴۱ھ فیصل آباد کے رمضان واعتکاف کے تین ماہ بعد شیخ الحدیث حضرت مولانازکریا ؒ کی طرف سے حضرت ہزاروی ؒ کو اجازت وخلافت عطاکی گئی اور آپ نے حرمین کا سفر کرکے ۸۱ دن مدینہ منورہ میں حضرت صوفی اقبال ؒ کے گھر پر قیام کرکے حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ کی مجالس سے استفادہ کیا،اس دوان حضرت شیخ الحدیث ؒ کا افریقہ میں رمضان گزارنے کاپروگرام طے ہوا تو حضرت ہزاروی ؒ نے اپنے پیر ومرشدکے ساتھ جانے کا ارادہ فرمایا مگر صوفی اقبال رحمہ اللہ کے مشورہ سے یہ ارادہ ملتوی کرتے ہوئے واپس وطن تشریف لائے اور حضرت شیخ الحدیث کی طرزپر رمضان المبارک میں اعتکاف کا سلسلہ شروع کیا۔پہلے اعتکاف میں پورے رمضان میں بیس اور آخری عشرہ میں پچاس معتکفین سے اعتکاف کاعمل شروع کیا جو بعد میں ہزاروں کی تعداد سے متجاوز ہوا،آخری دفعہ آپ اپنے پیرومرشد حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ کی خدمت میں ان کی وفات سے کچھ عرصہ پہلے پہنچے،۵۱/جمادی الاول ۲۰۴۱ھ ۱۱/مارچ ۲۸۹۱ء کو آپ مکہ مکرمہ پہنچے، جمعہ کی نماز کے بعد مدینہ منورہ کے لئے روانہ ہوئے ۰۱جمادی الآخرتک آپ کاقیام مدینہ منورہ میں رہا اور حضرت شیخ الحدیث کی مجالس میں برابر شر کت فرماتے رہے،۵اپریل کو آپ واپس پاکستان تشریف لائے اور اس کے ایک ماہ بیس دن بعد شیخ الحدیث حضرت مولانامحمدزکریارحمہ اللہ کا مدینہ منورہ میں انتقال ہوا،حضرت ہزاروی ؒ نے حضرت شیخ الحدیث ؒ کی مجالس سے خوب استفادہ حاصل کیا اور زندگی بھر اس مشن کو دنیا میں پھیلاتے رہے آپ نے بیشمار لوگوں کی اصلاح کی اور انہیں گمراہی کے دلدل سے نکال کر صراط مستقیم پر گامزن کیا،آپ حضرت شیخ الحدیث ؒ کی اصلاحی فکر کے امین،تحفظ ناموس رسالت اورتحریک ختم نبوت کے پرعزم سپاہی،نفاذاسلام کے لئے جمعیت علماء اسلام کے نڈرمجاہد،مساجد ومدارس اور خانقاہوں کے محافظ، باطل کے پھیلائے فتنوں کے لئے ننگی تلوار اور مذہبی طبقات کے لئے ایک سائبان کی حیثیت رکھتے تھے،آپ کی رحلت سے تمام دینی ومذہبی کارکن آپنے آپ کو یتیم وبے سہارا محسوس کرتے ہیں،آپ مجاہد ملت مولاناغلام غوث ہزاروی کی طرح جرأت وبہادری، حق گوئی وبیباکی میں اپنی مثال آپ تھے،بلاخوف وجھجھک حق بات کرتے اور حق پر جمے رہتے تھے،آپ بلاشک وشبہ ایک عظیم مجاہد اور بڑے والی اللہ تھے،آپ کی نماز جنازہ میں لاکھوں لوگوں کی شرکت اور نماز جنازہ کے موقع پر نزول رحمت،اللہ کے ہاں آپ کی مقبولیت کی واضح دلیل ہے،اللہ تعالیٰ آپ کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطافرمائے اور تمام پسماندگان کو صبرجمیل کی نعمت سے نوازدے…آمین

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.