معلم کی فضیلت اور تقدس اس بناپر ہے کہ اُسے نبوی مشن کے تسلسل کا ذمہ دار ٹھہراگیاہے،نبی کریم ﷺآخری پیغمبر ہیں، آپ کے بعد کوئی پیغمبر نہیں آئے گا،اس لئے آپﷺکے بعد یہ مشن اساتذہ کے کندھوں پر آن پڑاہے کہ وہ امت مسلمہ کی بہترین انداز میں رہنمائی کریں اور انہیں راہِ حق سے بھٹکنے نہ دیں اس عظیم مقام ومرتبہ کی اہمیت اور عظمت اپنی جگہ پر بڑی مسرت بخش اور روح پرورہے مگر اس کی ذمہ داری بھی اتنی ہی نازک اوراہم ہے،اساتذہ کرام اور معلمین اگر اپنی ذمہ داریوں کا تعین اس پہلوسے کریں تو بے شمار چیزیں ان کے سامنے کھل کر آئیں گی،استاذ بچوں کی تربیت،معاشرے کی رہنمائی اور امت مسلمہ کی تعمیر وترقی کا اس طرح ذمہ دار ہے،جس طرح گزشتہ ادوار میں اللہ تعالیٰ کے انبیاء اس ذمہ داری پر فائز ہواکرتے تھے،اس لئے اس ذمہ داری کی باحسن انداز اانجام دہی معلم کو معاشرے میں محترم ومکرم اور معتبر بناتی ہے،اسی طرح اپنے فرائض میں کوتاہی،غفلت،کاہلی،سستی اور حیلہ جوئی اللہ کی ناراضگی کا سبب بنتی ہے اور معاشرہ میں بھی بے وقعت اور بے آبرو بناتی ہے،معلم کو جن برگزیدہ ہستیو ں کا وارث ٹھہراگیا ہے وہ انتہائی بے غرض تھیں،وہ تو پتھر کھاکر اپنے فرائض اداکیاکرتی تھیں،گالیاں سن کر بھی اپنی قوم کی ہدایت کے لئے دعائے خیر کیاکرتی تھیں،طرح طرح کے طعنے سن کر بھی قوم کو راہِ راست پرلانے کی تگ ودومیں ہمہ تن مشغول رہتی تھیں،معلم قوم کا تذکیہ کرنے والا اور تربیت کرنے والا ہوتا ہے،یہ وہ جلیل القدر منصب ہے جس کے لئے انبیاء کرام مبعوث کئے گئے،اس منصب کا تقاضایہ ہے کہ معلم پوری دل سوزی،جان فشانی اور خلوص دل سے اپنے فرائض انجام دیں،دنیا کی حرص وہوس سے ہٹ کر صبر وقناعت کادامن تھام کر اپنے شاگردوں کو بھی اس کی تعلیم دینی چاہئے اور اس کے مطابق ان کی تربیت کرنی چاہئے کہ وہ حلال روزی کمانے کا اہتمام کریں،اپنے منصب سے وفاداری ہر مسلمان کا بنیادی فریضہ ہے،حضور نبی کریم ﷺکا ارشاد گرامی ہے ”جو کوئی بھی مسلمانوں کے کسی معاملے کا ذمہ دار بنا پھر ان کے لئے پوری خیرخواہی اور کوشش نہ کی وہ جنت کی خوشبوبھی نہیں پاسکتا“جو معلمین اور معلمات بچوکی تعلیم وتربیت کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں اسی اضطراب،فکر،لگن اور کوشش سے پوری کررہے ہیں جس اضطراب،دل سوزی،فکر،لگن اور فکر اپنے بچوں کی تعلیم وتربیت کرتے ہیں،وہ اللہ کے ہاں بھی سرخرو اور معاشرے میں بھی محترم ومکرم ٹھہرتے ہیں اور جو اس میں ذرہ بھر کوتاہی کرتے ہیں وہ روزمحشر اللہ کے ہاں جواب دہ ہوں گے،جو اساتذہ کرام اپنے مقام و منصب کو سمجھ کر اچھے طریقے سے اپناکردار اداکرتے ہیں وہ تاریخ کے اوراق میں اپنے آپ کو امر کردیتے ہیں،ان کے شاگرد ان سے ابدی رشتہ جوڑ لیتے ہیں اور ان کی شاگردی پر تادم مرگ فخرکرتے ہیں،ان کی تیار کردہ ٹیم دنیا کے لئے حیات بخش انقلاب کی نوید بنتی ہے اوروہ رسوم ورواج کی زنجیروں اورجہالت کی تاریکیوں کو دور کرکے ملت کے لئے رشد وہدایت کا ذریعہ بنتی ہے،امام ابوحنیفہ ؒ امام مالک ؒ،امام شافعیؒ،امام احمد بن حنبل،ؒ امام غزالی،ؒ امام ابن تیمیہ ؒ،امام شاہ ولی اللہ،ؒشاہ عبدالعزیزمحدث دہلویؒ،مولانامملوک علی نانوتوی،ؒ شیخ الہند مولانامحمود حسنؒ،علامہ شبلی نعمانیؒ،علامہ انورشاہ کشمیریؒ، مولاناسیدحسین احمدمدنی ؒ،شیخ الحدیث مولاناعبدالحق،ؒاورشیخ الحدیث مولاناسرفراز خان صفدرؒجیسے عظیم اساتذہ کے ذکرخیرکے بغیرہماری تاریخ ادھوری رہ جاتی ہے،مسلمان استاذ پر دوہری ذمہ داریاں عائدہوتی ہیں ایک محض استاذ ہونے کی بناپر اور دوسری مسلمان ہونے کی بناپر ہیں،ہراستاذ معمار قوم ہوتا ہے،وہی ہروقت نسل نو کی تربیت اور ذہن سازی کرتا رہتا ہے،قوم کو مختلف علوم وفنون پڑھاتارہتا ہے،اپنی ذاتی کردار سے ان کے سامنے ایک نمونہ پیش کرتارہتا ہے یہاں تک کہ تمدن کے تمام شعبوں کو سنبھالنے والے مردانِ کار ُاستاذ ہی کی تعلیم وتربیت کے مرہونِ منت ہوتے ہیں، چاہے وہ مملکت کا باگ ڈور سنبھالنے والے ہوں یاعدلیہ کو چلانے والے،وکیل ہو ں یا انجینئر،ڈاکٹر ہوں یا پروفیسر،محدث ہوں یامفسر،منصف ہوں یامناظر،فوجی ہوں یاپولیس،بہر حال ہرطالب علم اپنی تعلیم سے فراغت کے بعد زندگی کے جس شعبے میں بھی کام کررہاہو،وہ اپنے استاذ کی تربیت کا عکس ہوتا ہے اس لئے استاذ کا بنیادی فرض انسان سازی ہوتاہے،انسان سازی میں اگرچہ نصابِ تعلیم اور تعلیمی اداروں کا بھی گہرا اثر ہوتا ہے مگر درحقیقت سب سے بڑھ کر اس کا اہم ستون استاذ ہی ہے،وہ پورے نظام تعلیم کا مرکزومحور ہے،نصابِ تعلیم اسی نے پڑھاناہے،چاہے جس طرح پڑھائے
پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضامیں گرگس کاجہاں اورہے شاہیں کا جہاں اور