اس بات میں شک نہیں کہ عصر حاضر میں معاشرے کی دین سے دور ی کا بنیادی سبب نظام تعلیم کی ثنویت ہے۔ بیسوی صدی میں انگریز نے ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت مسلمانوں کے نظام تعلیم کو دو مختلف طبقوں میں تقسیم کردیا تھا اور ہماری بد قسمتی کہ وہ طبقائی تقسیم تاحال جوں کی توں موجود ہے اور اپنی کامیابی کے گل کھلا رہی ہے۔ہمارامعاشرہ مسٹر اور ملاں دو مختلف طبقوں میں بٹ کر رہ گیا ہے۔ہمارے اکابرین میں مولانا مناظر احسن گیلانی وہ عظیم شخصیت ہیں جنہوں نے نظام تعلیم کی وحدت کیلئے کام کیا اور کئی کتب بھی تصنیف فرمائیں۔وہ اپنی کتاب ”برصغیر میں مسلمانوں کا نظام تعلیم وتربیت“ میں برصغیر پر انگریزوں کے مسلط ہونے سے قبل رائج نظام تعلیم (درس نظامی) پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:”حکومت متسلطہ سے قبل مسلمانان ہند میں تعلیم کا جو نظام قائم تھا، عام طور پر درس نظامی کے نام سے جسے شہرت حاصل ہے ا سکے متعلق لوگوں کا یہ خیال صحیح نہیں کہ وہ مسلمانوں کی صرف دینی تعلیم کا نظام تھا،درحقیقت اس نصاب میں اس عہد کی دفتری زبان فارسی کی نظم ونثر وانشاء وغیرہ کے بیسیوں aکتابوں کے ساتھ ساتھ حساب، خطاطی وغیرہ کی مشق کرانے کے بعد اعلیٰ تعلیم عربی کتابوں کے ذریعے دی جاتی تھی۔
ابتداء سے آخر تک اس زمانہ کے تعلیمی نصاب کے ختم کرنے کی مدت پندرہ سولہ سال سے کم نہ تھی اور اس پوری مدت تعلیم میں درس نظامی سے فارغ ہونے والے علماء صحیح معنوں میں خالص دینیات کی تین کتابیں پڑھا کرتے تھے یعنی چند مختصر فقہی متون کے سوا قرآن کے متعلق ”جلالین“ حدیث کے متعلق ”مشکوٰۃ“ اور فقہ کے متعلق گو بظاہر نام تو دو کتابوں کا لیا جاتا تھا یعنی ”شرح الو قایہ“ اور ہدایہ“، لیکن ہدایہ کے ان ابواب کو نہیں پڑھا یا جاتا تھا جو ”شرح الوقایہ“ میں پڑھا دیئے جاتے تھے۔اس لیے میں کہتا ہوں کہ حکماً وعملا یہ ایک ہی کتاب کی تعلیم تھی تو پندرہ سولہ سال کی مدت میں گویا خالص اسلامی دینیات کی چار کتابوں کا پڑھنا دینی علوم سے مناسب پیدا کرنے کیلئے کافی سمجھا جاتا تھا۔“
آج کل جو یہ تاثر پیدا ہوگیا ہے کہ دینی اور دنیوی علوم جدا جدا ہیں یہ اسلامی تاثر نہیں بلکہ یہ مغرب کا تحفہ اور مغربی سیکو لرازم کی باقیات واثرات میں سے ہے۔ انٹرنیشنل اسلامک یونیو رسٹی اسلام آباد کے سابق وفاقی وزیر مذہبی اُمور ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحب لکھتے ہیں: مجھے یہ بات کہتے ہیں کوئی تامل نہیں اور میں بغیر کسی تردد کے یہ بات عرض کرتا ہوں کہ جب تک یہ دونظام الگ الگ رہیں گے دنیائے اسلام میں سیکو لرازم کو فروغ ملتا رہے گا۔ سیکیولرازم یہ ہے کہ جو چیز مذہبی ہے وہ مذہب کے دائرے میں رہے اور جو غیر مذہبی ہے وہ غیر مذہبی دائرے میں رہے اور ان دونو ں کے درمیان کوئی اتفاق پیدا نہ ہو۔ یہ دونوں ایک نہر یا ایک دریاکے دو کنارے ہیں جو کبھی آپس میں نہیں ملتے اور ایک دوسرے کے مشورے پر چلتے رہتے ہیں۔ زندگی کو دو متوازی نظاموں اور دو متوازی حصوں میں تقسیم کرنا اسی کو سیکولرازم کہتے ہیں اور یہی لامذہبیت اور لا دینیت ہے۔
جب ہم نظام تعلیم کی بات کرتے ہیں تو نصاب، کتابوں،تعلیمی ماحول اور بہت سی دیگر باتوں سے پہلے جو بات زیر بحث آتی ہے وہ یہ ہے کہ اِس تعلیمی نظام کے مقاصد کیا ہے؟ ہمارے مدارس میں ایک بات مشہور ہے اور وہ یہ کہ ہم نے صرف علماء اور قراء پیدا کرنے ہیں جو مسجد یں سنبھالیں اور مدرسے چلائیں۔ یہ ایک ناقص اور کمزور سوچ ہے۔مسلمانوں کے نظام تعلیم میں کبھی کھبی ثنویت نہیں رہی،اس میں ہمیشہ وحدت رہی ہے۔دینی نظام تعلیم کا یہ محدود ہدف دراصل گزشتہ صدی میں اس وقت کے حالات کے تناظر میں طے کیا گیا تھا۔ 1857ء سے پہلے انہی مدارس سے فارغ ہونے والے لوگ تحصیلدار، کلکٹر،سی ایس پی آفیسرز،جج، ڈاکٹرز حتیٰ کہ ملک کا نظام چلانے کیلئے ساری بیو روکریسی انہی مدارس سے آتی تھی۔انگریزوں کے تسلط اور قبضے کے بعد برصغیر میں مسلمانوں کی حکومت ختم ہوئی تو اس کے ساتھ ہی اس تعلیمی نظام کی بساط بھی لپیٹ دی گئی۔ مسلمانوں نے جب 1857ء میں مزاحمت کی تو چھ چھ سو علماء کو ایک ایک دن میں درختوں سے لٹکا دیا گیا۔اس صورتحال میں کچھ علماء نے سوچا کہ اب حکومت تو ہمارے پاس رہی نہیں اور انگریز نے سارا نظام بدل دیا ہے تو اب اُمت کا مستقبل کیا ہوگا؟ انہوں نے سوچا کہ ہمارا اجتماعی نظام تو باقی نہیں رہا کم ازکم یہ جو مساجد کا نظام ہے اور انفرادی ومعاشرتی زندگی کے جو مسائل ہیں،ان دائروں میں ہی دین کو بچالیا جائے۔چنانچہ اس مقصد کیلئے انہوں نے دارلعلوم دیوبند کی بنیاد ڈالی۔اور ایک ایسی دینی تعلیم کا آغاز کیا کہ آج تک وہ قابل تعریف ہے۔9/11کے بعد جب مدرسہ بحث کا موضوع بنا تو لوگوں میں یہ جاننے کی خواہش پیدا ہوئی کہ مدرسہ کیا ہے۔ بہت سے قلم کاروں نے مدارس پر لکھا مگر اِن میں ذیادہ تر وہ تھے، جن کی معلومات ثانوی ذرائع سے ماخوذ تھیں۔مگر ڈاکٹر ابراہیم موسیٰ نے اس پر قلم اُٹھایا اور اپنی آپ بیتی لکھی۔
ڈاکٹرابراہیم موسیٰ کا تعلق جنوبی افریقہ سے ہے۔ دارلعلوم دیوبند اور ندوۃالعلماء لکھنو میں چھ سال پڑھا ہے۔ اِن دِنوں امریکہ کی یو نیورسٹی آف نوٹرے ڈیم میں ایک شعبے کے ڈائر یکٹرہے۔ 4 سال پہلے ان کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کا عنوان تھا ”مدرسہ کیا ہے؟“(what is Madrassa)۔2017میں بھارت سے ایک جید عالم وارث مظہری نے اس کا ترجمہ کیا جوکہ اب پاکستان سے بھی شائع ہوا ہے۔ڈاکٹر صاحب مدرسے کے ساتھ مغرب کے تعلیمی اداروں میں بھی زیر تعلیم رہے ہیں۔انہوں نے لکھا ہے کہ اِن دونوں نظام ہائے تعلیم سے گزرنے کے بعد،اگر آج ان کو موقع ملے کہ وہ اپنی پسند کے تعلیمی ادارے کا انتخاب کریں تو وہ مدرسے کوترجیح دیں گے۔
سوچنے کی بات ہے کہ 1947ء کے بعد نہ ہم پر انگریز حکمران ہے اور نہ یہ دار الحرب ہے بلکہ یہ ہمارا اپنا ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے۔ اوراب بھی 1857ء کے بعد والی پالیسی نافذ ہے۔ لہذا اب بات یہ ہے کہ ایک مسلم معاشرے میں ہمیں صرف عالم دین ہی پیدا نہیں کرنے جو صرف مدرسے ومسجد کی بنیاد ڈالیں۔ یقینا یہ بھی سنبھالنے چاہئیں لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس معاشرے کا کیا قصور ہے کہ اس کو ایسا جج، بیو رو کریٹ، کلکٹر، وکیل،ڈاکٹر، انجیر،بزنس مین اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے نہ ملے جودین جانتا ہوں۔ مسلمانوں کی ریاست ہے تو ہمارے آفسیرز،جج، ڈاکٹر ز، سیاست دان وغیرہ ایسا کیوں ہوں جس کو انگریز وں کا قانون اور نظام تو یاد ہو لیکن وہ شرعی قانون اور نظام سے واقف نہ ہو؟ کیا یہ سارا نظام ایسا چلتا رہے گا؟ ہم اس کی بہتر ی کیلئے کچھ نہیں کریں گے؟ اگر آپ اس معاشرے میں دین اسلام چاہتے ہیں اور دین کی خدمت کیلئے آپ نے ادارے بنائے ہیں تو پھر آپ کا دائرہ کا ر محدود نہیں ہونا چاہیئے۔ حا لات کے بدلنے کیوجہ سے جو بنیادی تبدیلی آتی ہے، اس لحاظ سے ہم کو مقاصد تعلیم میں وسعت کرنی چاہیئے۔ جامعہ دارالعلوم کراچی کے عصری تعلیم کے ادارے ”حرا فاونڈیشن سکول“ کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے شیخ الاسلام مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ نے فرمایا کہ ”ہمیں ایک ایسے نظام تعلیم کی ضرورت ہے جس میں دینی اور دنیوی تعلیم اکھٹی دی جائے جہاں دین کی بنیادی معلومات سب کو پڑھا ئی جائیں۔اس کے بعد ہر ہر شعبہ میں اختصاص کے مواقع دیئے جائیں۔یہ نظام تعلیم ہمارے اسلاف کی تاریخ سے مربوط چلاآرہا ہے“۔