دورجدید کے فتنوں میں سے ایک بڑا فتنہ یہ ہے کہ مغرب سے متاثر ذہنی غلامی کا شکار ایک مخصوص طبقہ دین اسلام کے یقینی طور پر ثابت شدہ احکام وشعائر کو مسلمانوں کی مادی ترقی میں بہت بڑی رکاوٹ سمجھ کر ان میں ردوبدل کے درپے رہتا ہے اور جہاں اس سے بھی کام نہیں بنتا دیکھتا تو سر ے سے ا نکار کر بیٹھتاہے، یوں اُمت مسلمہ کے خیر خواہی اور اصلاح کے پردوں میں الحاد کا بہت بڑا دروازہ کھل جاتا ہے اور ناسمجھ عوام اسلام کے بارے میں شکوک وشبہات کا شکار ہوکر گمراہ ہوجاتے ہیں اور بعض اوقات ایمان ہی سے ہاتھ دھوبیٹھتے ہیں۔ایسے حالات میں عوام پر لازم ہے کہ وہ دینی مسائل میں اس جدید تعلیم یا فتہ مغرب زدہ طبقہ،جو سرے سے دین کے مبادیات سے ہی جاہل ہے، کی بے سروپا باتوں پر کان دھرنے کی بجائے مستند علماء کرام سے مضبوط تعلق قائم کریں اور احکام اسلام کے بارے میں ان سے رہنمائی حاصل کریں کہ یہ انہی کا منصب ہے۔
قربانی کے حوالے سے بھی اس مغرب زدہ طبقے کے کچھ گمراہ کن نظریات ہیں،جس پر دین اسلام کے احکام سے ناواقف جدید تعلیم یا فتہ لوگ اور عوام الناس کو دھوکہ کرتے رہتے ہیں۔یہ لوگ کہتے ہیں کہ جانور کی قربانی صرف حاجی حج کے موقع پر مکہ معظمہ میں کرسکتا ہے، اس کے علاوہ اس کی دوسری کوئی شرعی حیثیت نہیں،ہر سال عیدالاضحٰی کے موقع پر فریضہ حج کی ادائیگی کے بغیر جو دنیاکے مختلف حصوں میں کرتے ہیں اس کا کوئی جواز نہیں، بلکہ بدعت ہے۔ اسی طرح اِن میں بعض کا کہنا ہے کہ مسلمان ایام عید میں اس کی بجائے اگر یہی روپے نادار افراد پر صرف کریں یارفاہ عامہ کے کاموں میں لگائیں تو کتنا نفع ہوگا؟ اور آج کل تو کورونا وباء کی صورتحال چل رہی ہے تو بعض لوگ اس وباء کے حالات کو بنیاد بناکر قربانی کے بجائے مالی صدقہ کی بات کرتے ہیں۔
اِن روشن خیالوں کے تاریک خیالات ونظر یات کو اب ہم شریعت کی روشنی میں پر کھتے ہے۔ پہلی بات کہ قربانی ایک مستقل واجب عبادت بلکہ شعائر اسلام میں سے ہے، رسول اللہ ﷺ نے مدینہ منورہ کے دس سالہ قیام میں ہر سال قربانی فرمائی۔ حضرات صحابہ کرام ؓ نے تابعین وتبع تابعین اور آئمہ مجتہدین واسلاف رحمہم اللہ،الغرض پوری اُمت کا متوارث ومسلسل عمل بھی قربانی کرنے کاہے۔آج تک ان میں سے کسی نے نہ اسے حج اور مکہ معظمہ کے ساتھ خاص سمجھاہے اور نہ صدقہ وخیرات کو اس کے قائم مقام سمجھاہے۔ قربانی کے بارے میں جتنی آیات واحادیث ہیں وہ سب جانوروں کا خون بہانے ست متعلق ہیں، نہ کہ صدقہ وخیرات سے متعلق۔ نیز ان میں حج اورمکہ معظمہ کی کوئی تخصیص نہیں۔ بطور نمونہ چند آیات واحایث ملاحظہ ہوں: سورۃ حج آیت نمبر 34 میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔”ہم نے ہر اُمت میں قربانی کرنا اس غرض سے مقرر کیا تھا کہ وہ ان مخصوس چوپاؤں پر اللہ کا نام لیں جو اس نے ان کو عطاء فرمائے۔“امام ابن کثیروامام رازی ؒنے اس آیت کی تفسیر میں تصریح فرمائی ہے کہ خون بہاکر جانوروں کی قربانی کادستور شروع دن سے ہی تمام ادیان ومذاہب میں چلاآرہاہے۔دوسری جگہ سورۃ حج آیت نمبر 67میں اللہ فرماتے ہیں۔ ”ہم نے ہر اُمت کے لیئے ذبح کرنے کا طریقہ مقرر کیا ہے کہ وہ اس طریقہ پر ذبح کرتے تھے۔“اسی طرح سورۃ کوثر آیت نمبر2میں اللہ فرماتے ہیں۔”سو آپ اپنے پروردگار کی نماز پڑھئے اور (اسی کے نام کی)قربانی کیجئے۔“ حدیث میں رسول اللہﷺ فرماتے ہیں۔ ”جو شخص استطاعت رکھنے کے باوجود قربانی نہیں کرتا وہ ہماری عید گاہ کے قریب بھی نہ پھٹکے“۔ اسی طرح حضرت ابن عمر ؓسے روایت ہے کہ ”رسول اللہ ﷺ نے دس سال مدینہ منورہ میں قیام فرمایا اور اس عرصہ قیام میں آپ مسلسل قربانی فرماتے رہے“۔ اِن آیات واحادیث سے مندرجہ ذیل اُمور ثابت ہوتے ہیں کہ صاحب نصاب پر قربانی واجب ہے اور استطاعت کے باوجود قربانی نہ کرنے والے یہ رسول اللہ ﷺ نے سخت ناراضگی کا اظہار فرمایا حتیٰ کہ اس کا عید گاہ کے قریب آنا بھی پسندنہ فرمایا۔ دوسری بات یہ ثابت ہوئی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مدینہ منورہ میں 10سال میں ہر سال قربانی فرمائی،حالانکہ حج آپ ﷺ نے صرف آخری سال فرمایا۔ تو معلوم ہوا کہ قربانی،حج کے ساتھ خاص نہیں ہے اور نہ مکہ معظمہ کے ساتھ، ورنہ آپ ﷺ مدینہ منورہ میں 9سال قربانی کیوں فرماتے؟۔
اگلی بات کہ قربانی سے مقصد محض ناداروں کی مدد نہیں جو صدقہ وخیرات سے پوری ہوجائے،بلکہ قربانی میں مقصود جانور کا خون بہانا ہے۔ یہ عبادت اسی خاص طریقہ سے ادا ہوگی محض صدقہ خیرات کرنے سے نہ تویہ عبادت ادا ہوگی،نہ اس کے مطلوبہ فوائد وثمرات حاصل ہوں گے۔ ورنہ رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام ؓ کے دور میں غربت وافلاس دور حاضر کی نسبت ذیادہ تھا۔ اگر جانور ذبح کرنا مستقل عبادت نہ ہوتی تو وہ حضرات جانور ذبح کرنے کی بجائے ناداروں کے لیئے چندہ جمع کرتے یا اتنی رقم رفاہ عامہ کے کاموں میں صرف فرماتے۔ قربانی کی بجائے صدقہ وخیرات کا مشورہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی نادان یہ مشورہ دے کہ آج سے نماز، روزہ کی بجائے اتنا صدقہ وخیرات کردیا جائے، ظاہر ہے کہ اس سے نماز، روزہ، کی عبادت تو ہر گز ادا نہ ہوگی بلکہ اسی طرح صدقہ وخیرات سے قربانی کی مستقل عبادت بھی ادا نہ ہوگی۔
قربانی عبادت مقصود ہے اور سیدنا حضرت ابراہیم ؑ کے اس عظیم الشان عمل کی یاد گار جس میں انہوں نے حکم الہی کی تعمیل میں اپنے لخت جگر کو ذبح کرنے کے لیئے لٹادیا تھا اور ہونہار فرزند اسماعیل ؑ نے بھی بلا چوں وچرا حکم الہٰی کے سامنے سر تسلیم خم کرکے ذبح ہونے کے لیئے اپنی گردن پیش کردی تھی، مگر اللہ تعالیٰ نے اپنا فضل فرماکر ان کی جگہ دنبے کو فدیہ بنادیا تھا،تو آج اس طریقے پر ذبح کرکے ہی عمل ہوسکتا ہے۔ محض صدقہ وخیرات سے اس عمل کی یاد تازہ نہیں ہوسکتی۔ حافظ ابن کثیر وامام رازی رحمہمااللہ نے حضرت ابن عباس ؓ سے نقل کیا ہے کہ مشرکین عرب غیر اللہ کے نام پر جانور ذبح کیا کرتے تھے، اس لیئے رسول اللہ ﷺ کو حکم دیا گیا کہ آپ اپنے رب کے نام پر جانورذبح کریں۔اس بناء پر جانور ذبح کرتے ہی اس حکم الہٰی کواپورا کیا جاسکتا ہے، صدقہ وخیرات اس کا بدل ہر گز نہیں ہوسکتا۔
گزشتہ روز اتحاد تنظیمات مدارس پاکستان کے مرکزی قائدین مفتی تقی عثمانی صاحب، مفتی منیب الرحمن صاحب،مولانا قاضی حسین تقوی صاحب، مولانا عبدالمالک صاحب ، مولانا حنیف جالندھری صاحب، مولانا یاسین ظفر صاحبزادہ صاحب اور عبدالمصطفٰی ہزاروی صاحب نے ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ قربانی ایک عبادت مقصود ہے،اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے،”پس اپنے رب کے لیئے نماز پڑھئیے اور قربانی کیجئے (الکوثر نمبر2)۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، ”ایام قربانی میں انسان کا کوئی عمل عبادت کی نیت سے جانور کا خون بہانے سے ذیادہ محبوب نہیں ہے (سنن ترمذی:1493)“۔پس یہ نقطہ نظر کہ حالات کے سبب لوگ قربانی نہ کریں اور مالی صدقہ دیں، یہ خالص مادی فکر ہے اور قرآن وسنت کے تعلیمات کے خلاف ہے۔لہٰذا جن کو اللہ تعالیٰ نے توفیق دی ہے،وہ قربانی کی سنت ِانبیا ء ؑ کو خوش دلی سے ادا کریں،البتہ احتیاطی تدابیر کو ملحوظ رکھیں،نیز اجتماعی قربانی کو احتیار کریں اور اجتماعی قربانی کیلئے دینی مدارس اور جامعات کو ترجیح دیں اور دینی مدارس کے ذمہ دار علماء کرام اجتماعی قربانی کا نظم بنائیں۔ اللہ تعالیٰ ملحدین کے سازشوں سے دین حق کی حفاظت فرمائے اور مسلمانوں کو مستند علماء کرام سے ہی دین حق کی رہنمائی حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائیں۔آمین۔
قربانی کا متبادل مالی صدقہ نہیں۔ مولانامجاہد خان ترنگزئی
You might also like