اباجان مجھے اچھی طرح باندھ دیجئے تاکہ میں زیادہ تڑپ نہ سکوں، اور اپنے کپڑوں کو مجھ سے بچائیے، ایسا نہ ہو کہ ان پر میرے خون کے چھینٹیں پڑیں، تو میرا ثواب گھٹ جائے، اس کے علاوہ میری والدہ خون دیکھیں گی تو انہیں زیادہ غم ہوگا، اور اپنی چھری بھی تیز کر لیجئے اور اسے میری حلق پر ذرا جلدی جلدی پھیرئے گا، تاکہ آسانی سے میرا دم نکل سکے، کیوں کہ موت بڑی سخت چیز ہے اور جب آپ میری والدہ کے پاس جائیں تو انہیں میرا سلام کہیے گا، اور آپ میری قمیص والدہ کے پاس لے جانا چاہیں تو لے جائیں، شاید اس سے انہیں کچھ تسلی ہو’
دل کو چیرنے والے یہ الفاظ اسماعیل علیہ السلام چھری پھرنے سے کچھ دیر پہلے کہتے ہیں۔۔۔۔
دل کا ایسا لطیف کنیکشن رب سے کیسے بن جاتا ہے؟؟؟
دل والدین کی ایسی محبت و الفت میں کیسے گرفتار ہو جاتا ہے؟؟؟
دل کے احوال کیسے انسان کو اتنی بڑی عملی قربانی کے لیے تیار کردیتے ہیں؟؟؟
کیا اس لیے کہ اسماعیل علیہ السلام ایک نبی تھے؟؟؟ یا ایسا پراسس پیچھے کارفرما تھا جو ہم جیسے انسان بھی اپنے اور اپنے بچوں کے لیے استعمال کر سکتے ہیں؟؟؟
اس پراسس کے آغاز خود ابراہیم علیہ السلام سے ہوتا ہے۔۔۔۔
پہلی سیڑھی – یہ خود ان کی فکری جستو سے شروع ہوتا۔۔۔۔سورج، چاند، ستاروں کے مشاہدے۔۔۔اپنے ماحول پر سوالات سوچنےاور ایک نتیجے کے ذریعے اللہ سے انٹلکچویل کنیکشن بنانے پر عروج پاتا ہے۔۔ اللہ ہی سوچ و فکر کا محور و مرکز اور وہی ہر راہ، راستے اور کام کا کمپاس
دوسری سیڑھی – پھر ان کے رب سے قلبی تعلق یا ایماشنل کنیکشن کے کیا کہنے!!! ان کا تعلق اتنا گہرا، شفاف، والہانہ تھا کہ ان کا دل ‘قلب سلیم’ کی صورت اختیار کر جاتا ہے جس سے اللہ کی محبت کا جوشیلا چشمہ بہہ نکلتا ہے۔
تیسری سیڑھی – اور رب سے عملی تعلق یعنی پریکٹکل کنیکشن تو چوٹی کا تھا۔۔۔۔محبوب باپ چھوڑا۔۔۔۔وطن چھوڑا۔۔۔۔۔آگ میں کودے۔۔۔۔گھر والوں کو چھوڑا۔۔۔ ہر وہ قربانی جو انسان ایک تعلق کے لیے سوچ سکتا ہے –توحید و دین کے لیے- وہ، وہ کر گزرے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو اسماعیل جیسی اولاد کے لیے ہم خود ان سیڑھیوں پر چڑھنے کی کتنی کوشش کرتے ہیں؟
یہی سفر اور بچوں کی ٹرانسفارمیشن کا آغاز ہے۔۔۔۔ سیرت خلیل اللہ کی روشنی میں