وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستان ان چند ممالک میں شامل ہے جنہوں نے ”کرونا“ پر قابو پالیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا کرم ہے کہ پاکستان میں جان لیوا وائرس کے کیسز کی تعداد میں تیزی سے کمی ہوئی ہے۔پاکستان اور یورپ،چین، امریکہ کے حالات میں بہت فرق ہے،جس ملک میں غربت ہو، جہاں لوگ کچی آبادی میں رہتے ہوں اور 70 سے 80 فیصد مزدوروں کا کوئی ریکارڈ موجود نہ ہو تو وہاں سخت لاک ڈاؤن یا کرفیو نافذ نہیں کیا جا سکتا۔بھارت میں جو لاک ڈاؤن لگایا گیا اس کے اثرات آج بھی موجود ہیں کیونکہ وہاں غربت اور بھوک خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ 13 مارچ کوپاکستان میں لاک ڈاؤن لگایا گیاتو طرح طرح کے چیلنجز درپیش تھے لیکن بروقت اقدمات کرنے سے مشکل وقت سے نکلنے میں کامیابی ملی۔ لاک ڈاؤن سے سب سے زیادہ غریب طبقہ متاثر ہوا تو انہیں بچانے کے لئے احساس پروگرام شروع کیاگیا اور بہت کم وقت میں اتنے بڑے پروگرام میں اتنے زیادہ افراد کو شفافیت سے رقم پہنچانے کی مثال پیدا کی۔وزیراعظم نے کہا کہ ہم جب اسمارٹ لاک ڈاؤن کی جانب آئے تو فیصلہ کیا کہ زرعی شعبے میں بندشیں نہیں لگائی جائیں گی تاکہ خوراک کی فراہمی متاثر نہ ہو، جب معیشت کو کھولنا شروع کیا گیا اس مشکل وقت میں بہت سے فیصلے کئے، جب تعمیراتی شعبے کو کھولا تو لوگوں نے بہت تنقید کی کہ حکومت لوگوں کی جانوں کو خطرے میں ڈال رہی ہے۔یورپ میں یومیہ ہزاروں لوگ مررہے تھے یہ ایک رسک تھا لیکن ہمیں لوگوں کو بھوک سے مرنے سے بھی بچانا تھا کہ کہیں ”کرونا“سے بچاتے بچاتے وہ بھوک سے نہ مرجائیں۔پاکستان کی حکومت نے ہی سب سے پہلے اسمارٹ لاک ڈاؤن سے متعلق بات کی،ان دنوں ریسٹورنٹس، شادی ہالز، خدمات کا شعبہ اور سب سے زیادہ سیاحت مشکلات کا شکار ہیں لہٰذا اچھے حفاظتی اقدامات کے نتائج کی بنیاد پر ایس او پیز کے ساتھ دیگر شعبے بھی کھولے جائیں گے۔ انتظامیہ، ٹائیگر فورس، دکاندار،کاروباری اور عوام افراد ماسک ضرورپہنیں کیونکہ یہ ”کرونا“ وائرس کے پھیلاؤ کو سب سے زیادہ روکتا ہے،احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں کیونکہ اگر دوبارہ لاک ڈاؤن لگانا پڑا تو بہت بڑا معاشی نقصان ہوگا۔
اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ ”کرونا“انسانوں کے ساتھ ساتھ عالمی معیشت کو بھی نگل رہا ہے کیونکہ اس موذی وائرس کے پھیلاؤسے دنیا کی کئی بڑی سٹاک مارکیٹس کریش کرگئی ہیں۔ چینی قمری سال کے آغاز کے موقع پر پھوٹنے والی اس وبا سے جہاں عالمی منڈی تباہی سے دوچار ہوئی ہے وہیں تیل کی قیمتیں 3 ماہ کی کم ترین سطح پرپہنچنے سے چینی کرنسی یوآن کی قدر رواں سال کی کم ترین سطح تک گر گئی ہے۔چین سے سر اٹھانے والی پراسرار موذی مرض کی تباہ کاریوں کے باعث امریکہ، آسٹریلیا،جاپان، جنوبی کوریا، تھائی لینڈ، فلپائن، تائیوان،پاکستان،بھارت،جنوبی کوریا سمیت متعدد ممالک شدید تشویش میں مبتلا ہیں۔خوف کی علامت ”کرونا“نے عالمی ”دہشت“کا روپ دھار رکھا ہے کیونکہ مختلف ممالک میں اس وائرس سے متاثرہ افراد کی اموات کا سلسلہ بدستور جاری ہے،اس موذی وائرس سے متاثرہ مریضوں کی ایشیاء کے علاوہ آسٹریلوی اور شمالی امریکی براعظموں میں بھی نشاندہی ہوئی ہے۔بحرالکاہل اور ایشیا ء کے کئی ممالک نے چین میں افزائش پانے والے کرونا وائرس کی اس نئی مہلک قسم کے خلاف مزید احتیاطی اقدامات متعارف کرانے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ اس وائرس کو ”سپر سپریڈر‘‘ یا انتہائی تیزی سے پھیلنا والا قرار دیاجا رہا ہے۔عالمی افق پر ابھرتے ہوئے سپرپاور چین میں نہ ہی انفراسٹرکچر کی کوئی کمی ہے اور نہ ہیں ہسپتالوں میں بنیادی سہولیات کا فقدان لیکن پھر بھی اس نے ابتدائی دنوں میں مہلک وباء کے خلاف جنگ میں 27 ارب 30 کروڑ یوآن (تقریبا ً4 ارب امریکی ڈالر)کی رقم مختص کی تھی۔”کرونا“وائرس کی بہت سی اقسام ہیں لیکن ان میں سے 6 اور اس حالیہ وائرس کو ملا کر7 ایسی قسمیں ہیں جو انسانوں کو متاثر کرتی ہیں انہی کی وجہ سے بخار سے سانس کی نالی میں شدید مسئلہ ہوتا ہے۔ 2002 ء میں بھی چین میں اسی وائرس کی وجہ سے 774 افراد ہلاک اور مجموعی طور پر 8098 افراد متاثر ہوئے تھے۔چین کے شہر بیجنگ میں 2003ء میں ”چائنیز سنٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پروٹیکشن“کے5 سائنسدانوں کی سنگین غلطی کی وجہ سے”SARS“سارس نامی وائرس دنیا بھر کے 26ممالک میں پھیل گیاتھا جس سے جہاں کم و بیش 8 ہزار افراد اس کی لپیٹ میں آئے وہیں سینکڑوں اس وائرس کے ہاتھوں موت کے منہ میں چلے گئے۔عالمی سائنسدان”SARS“کی مزید پیچیدہ شکل کو ہی اب کرونا وائرس کو قرار دے رہے ہیں اور ان کے خیال میں یہ اسی وائرس کا ایک تسلسل ہے جسے اس صدی کی پہلی دہائی میں مکمل طور پر ختم نہیں کیا جا سکا۔
اللہ تعالیٰ کرے کہ پاکستان میں اس وائرس کا نام و نشان تک نہ ہو مگر حفاظتی اقدامات بہرصورت اٹھانے ناگزیر ہیں۔پاکستان میں ایمرجنسی کور کمیٹی نے ”کرونا“ سے نمٹنے کیلئے جو حکمت عملی تیار کی ہے وہ قابل تحسین ہے۔ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل سٹاف کومہنگا ترین لباس صرف ایک بار پہننے کی ہدایت کی گئی ہے، ہوائی اڈوں پر ہیلتھ اسٹیبلشمنٹ کا تربیت یافتہ
عملہ سکریننگ کے نظام کو یقینی بنا رہا ہے اس سلسلے میں وزارت صحت میں قائم ایمرجنسی آپریشن سیل بھی صورتحال کو مانیٹر کر رہا ہے۔ چین میں جن لوگوں میں اس وائرس کی تشخیص ہوئی ہے ان افراد نے بد ہضمی، سردی لگنے، بخاراور کھانسی کی شکایت کی جن مریضوں پر حملہ شدید ہوا انہوں نے سانس لینے میں دقت بیان کی۔ صحت کے عالمی اداروں کے مطابق وائرس سے متاثر ہونے کے 2 روز سے2ہفتے کے دوران اس کی ظاہری علامات سامنے آتی ہیں اس کے بعد ضروری ہے کہ مریض کو الگ تھلگ رکھا جائے۔ماضی میں بھی مختلف ممالک سے پھوٹنے والی وبا نے پاکستان کے لوگوں کو بھی متاثر کیا تھا۔ عالمی ادارہ صحت نے”کرونا“سے بچاؤ کیلئے جو ہدایات و تدابیر جاری جاری کی ہیں ان تدابیر پر عمل کرنا لازمی ہے تاکہ اس وائرس سے بچا جاسکے، اس موذی وائرس سے بچاؤ کیلئے بار بار اچھے صابن سے ہاتھ دھویا جائے،سردی اور زکام کے مریضوں سے دور رہیں، کھانستے اور چھینکتے وقت منہ اور ناک ڈھانپیں اس سلسلہ میں ٹشو پیپرز کا استعمال کرکے فورا بعد اسے پھینک دیا جائے، پالتو جانوروں سے دور رہیں، کھانا پکانے سے قبل اور بعد میں ہاتھوں کو اچھی طرح دھوئیں، کھانا اچھی طرح پکائیں اور اسے کچا نہ رہنے دیا جائے کسی کی بھی آنکھ، چہرے اور منہ کو چھونے سے گریز کیا جائے۔عالمی ”دہشت“کی علامت ”کرونا“سے بچاؤ کیلئے عوام کو حکومت سے مکمل تعاون کرنا ہو گا۔
”جان لیوا وائرس کرونا سے عالمی معیشت تباہی کے دہانے پر“ (حاجی محمد لطیف کھوکھر)
You might also like