نسیم سے زاہدی تک (نوید شمائل)

0

 عنفوانِ شب کی ابھی چشمانِ سحر پوری طرح وا نہیں ہوئیں تھیں کہ موبائل پر اجنبی نمبرز رنگ ٹون کی تھاپ پر محوِ رقص نظر آئے۔ تذبذب کے تارِ عنکبوت میں الجھا ہوا اس اجنبی نغمہ و سرور کو غائرانہ نظروں سے گھور رہا تھا کہ اسے اذنِ سماعت ودیعت ہو یا حالیہ درپیش مسائل کیطرح نظرانداز کردوں۔۔۔!!ہیلو!” کسلمندی کا لبادہ اْتار کے آو۔کے کا بٹن دبا کر موبائل کو نظر سے سماعت تک کا سفر کروایا, "کون؟"

جواباً کھنکتے لہجے میں آشنا سی آواز ابھری, "رفیقِ قلب, جانمِ جان محترم نوید شمائل صاحب بندہ خاکسار نسیم الحق زاہدی بات کررہا ہوں "شیرینی لہجہ, دلربا خطابات و القابات سے مہمیز الفاظ, آواز میں رعنائی بہار اور نثر کو شعری قالب میں ڈھال کر روح و قلب کو موہ لینے والے نسیم الحق زاہدی کا جامِ صوت میرے تشنہ اذن کو مخمور کرنے لگا۔اور پھر مکدر چھٹ گیا, ساعتیں قدر کھو بیٹھیں۔ اضمحلال شوق و تجسس میں بدل گیا۔ فلک سے ابرِ نہال برسنے لگا۔ یاسیت, امیدِ پیہم کی ہمنوا بن گئی۔ماضی کے وہ حسیں باب کھلا جب اک روز دارِ زنداں میں مقید تھا کہ دستک سنائی دی۔ شباب کی آتش فشانی تب بامِ عروج پر تھیں۔ لمبے لمبے ڈگ بھرتے ہوئے سر دہلیز کے پار رکھا۔ گھر کے باہر متناسب قد کاٹھ کا حامل نوجوان جس کے رخِ زیبا پہ ریشم سی سیاہ ریش, گالوں کی گلابی مائل سپیدی کو پنہاں کرنے کی اپنی سی سعی کرتی ہوئی۔ چمکتی اور فہم شناس آنکھیں جن میں شوخی کے جام چھلک رہے تھے۔ متناسب ناک اور نیم گول چہرے پر دراز پیشانی۔ موزوں تراشیدہ بال اور ڈھیلے سے لباس میں کھڑا تھا۔ عمومی نوجونواں کے برعکس سڈول جسم جو اضافی توند و لحم سے پاک تھا; مشّتاق لہجے میں برق تبسم سے آویزاں چشمِ شوخ سے استفسار کیا۔آپ نوید شمائل؟” میں حیرت و استعجاب کے بحر میں ڈوبا ایستادہ کھڑا تھا اس لئے محض اثبات میں سر ہلانے پر اکتفا کیا۔”میرا نام نسیم الحق زاہدی!” لبوں کی نسبت آنکھیں زیادہ باتیں کررہی تھیں۔یہ زاہدی کیساتھ پہلی گفت و شنید تھی جو بعد از ہمنوالہ و ہم پیالہ رفاقت میں بدل گئی۔ وبالِ معاش سے آزاد سارا سارا دن زاہدی کی رفاقت میں گزرتا۔ اس کی دلنشیں نثر میں شاعری کا حسین امتزاج عام سی گفتگو کو دیوان یا ادب میں بدلنے استعداد رکھتی تھی۔ گھنٹوں بلاتکان ہم نو آموذ تلامذہِ ادب سیر حاصل بحث کرتے۔ قوس قزح سے معمور وہ ساعتیں پلک جھپکتے گزر گئیں اور کسب و معاش کی فکر میں ایک عشرہ دید و شنید سے محروم گزر گیا۔ زنجیرِ زوجیت اور گردشِ ایام نے جہاں میرے قلم کو زنگ آلود کیا اور کارخانہ تخیل میں سبک روی اور کج روی پیدا کی وہیں پر زاہدی کے قلم کی کاٹ مزید تیز کردی۔زاہدی کا محرومیوں اور استحصال کا سفر صغرسنی سے ہی شروع ہوگیا تھا۔ نوعمری میں ماں کا ابرِ کرم کا سائباں ہٹا تو پدرانہ شفقت بھی غضب کا آئینہ دار بن گئی۔ بہنوں کی ذمہ داری بھی آغازِ شباب میں ناتواں کندھوں پہ آپڑی۔ لاابالی کی عمر میں شوخ چوکڑیاں بھرنے کی بجائے فکرِ معاش کا بارِ گراں سر پر آن پڑا۔ زیست کی کھٹنائیوں سے تنِ تنہا نبرد آزما زاہدی نے کبھی خود پر یاسیت کی دبیز شال اوڑھنے نہ دی۔مشقِ جاں گسل کیساتھ ساتھ قلم و قرطاس سے تعلق مزید مضبوط ہوتا گیا۔ داخلی و خارجی کرب و استحصال جب تجاوزِ استعداد ہوا تو قلم کا نشتر زمانے کی بے ثباتی کی نگارش ہوگیا۔ ذاتیات کو خوارجی پیرہن  میں مزین کرکے کائناتی زہر کو ادبی چاشنی میں بدل کر پیش کرنے لگا۔ عموماً طعنہ و تشنہ کا سلسلہ بیلگام رقیبانِ غیر کیطرف سے ہوتا ہے مگر زاہدی کی طالعہ برگشتی یہ کہ اپنے ہی مخالفت و ہزیمت کے در پے ہوگئے۔ ان کٹھن حالات میں ہونا تو یہ چاہئیے تھا کہ وہ چاہِ یاسیت میں جاگرتا مگر ہوا اس کے برعکس۔ اپنوں اور رقیبوں کے عناد و ستم کی بھٹی میں وہ کندن بن گیا۔  پہلے سے کہیں زیادہ متحرک اور شوخ و چنچل مگر عزمِ صمیم کیساتھ ہر جبروزیادتی ہنستے مسکراتے سہہ کر ترقی کی منازل طے کرتا گیا۔وقت کی دیوی جب مہرباں ہوئی تو جاہ و حشمت کیساتھ مقام و انعام اور علم و عرفان سے بھی نوازنے لگی۔ حجازِ مقدس سے لیکر ارضِ مقدس اس خمیرِ ادب کو آغوش میں لیکر آسماں ہوگئی۔ عصرِ حاضر کے نامور ادباء کی سنگت نے اس غیر معروف ہیرے کو کوہِ نور بنا دیا۔ جس نے اپنی خیرہ کن ضیاء سے جہالت کی تاریکی کو ادبی فن پاروں سے منور کردیا۔وہ زاہدی جب سڑکوں پہ فصلِ آتشاں میں آب و گیاہ کی تلاش میں جوتے چٹخاتا تھا, الہ آباد کی تنگ و تاریک گلیوں میں ضیائے تہذیب ڈھونڈتا تھا, جو فلک پہ قمرِ لیل کی معیت میں اپنے حصے کے سیاروں میں سرگرداں تھا۔ آج وہ اپنی ہمت و عزم کے بدولت اک ایسی دنیائے خیر و آگہی کا فرمانروا ہے جو چند معدودے افراد کو ہی میسر ہے۔ادبی فلک پہ ایسا ضیاء پاش ستارہ جوکہکشاؤں کی رہبری و رہنمائی کا فریضہ ادا کررہا ہے۔یکے بعد دیگرے ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے آج وہ منجھے ہوئے قلمکاروں کی صف میں کھڑا امامت کیلئے مستعد ہے۔ ملک کے مقبول و معروف جرائد میں پانچ ہزار سے زائد کالمز لکھ کر قلم و قرطاس کی کماحقہ خدمت کرنے میں مشغول۔سیرت النبی پر ایوارڈ یافتہ کتب "سپہ سالار امن حضرت محمد صلعم” اور "قائد انسانیت حضرت محمد صلعم” لکھ کرجہانِ ادب کو تفویض کر چکے ہیں۔رائٹرزگلڈز آف اسلام پاکستان کے بلامقابلہ مسلسل صدر ان کی ادبی آفاقیت کی مظہر ہے۔زاہدی نے قلم سے عشق کیا, اسی کو اوڑھونا بچھونا بنایا۔صحافت کے سرخیل اوریا مقبول جان کی معیت میں عالمی ظلم و بربریت کی نقب کشی میں انہماک بغیر طمع و لالچ کے خارزار میں پیادہ ہی دشمنانِ انسانیت کی اعناق قلم کی دھار سے قلم کرنے والا زاہدی آج ایسا غازی بن چکا ہے جسے خود تو یہ لگتا ہے کہ وہ ابھی طفلِ مکتب ہے حالانکہ مجھ جیسے کئی ضعیف العمری میں قدم رکھنے کے باوجود میدانِ ادب میں کوئی بھی تازہ جھونکا پیدا کئیے بغیر مطمئن زیست سے محظوظ ہورہے ہیں اور جنہیں ملال بھی نہیں, نادم بھی نہیں۔ادب کو پروان چڑھانے کے مطمع نظر سے "افکارِ زاہدی” کا پبلشنگ ادارہ قائم کرکے ادب کو جاوداں کرنیوالا نسیم الحق زاہدی ایک ایسا اسوہ جو صدیوں بعد ہی پنپتا ہے۔اب پھر سے وہ رنگینی و لطافت لوٹ آئی ہے۔ زاہدی پر جتنا لکھا جائے,کم ہے۔ بس اب تو خدا سے ایک ہی دعا ہے کہ زاہدی کی رفاقت ہمیشہ کیلئے میسر کردے۔ تاکہ جو تشنگی رہ گئی ہے اس کی رفاقت و تحاریر سے بجھاتے رہیں۔ اللہ اور کرے زورِ قلم پیدا۔ آمین

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.