خلیفہ ثالث امیرالمومنین حضرت عثمان رضی اللہ عنہ (حافظ مومن خان عثمانی)

چٹان
0

حضرت سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ حیاوسخاکے بادشاہ تھے،ان کی تمام دولت نبی کریم ﷺکی خدمت،اسلام کی ترویج اور مسلمانوں کی فلاح وبہبودکے لئے استعمال ہوئی یہ دنیا کی تاریخ کا انوکھاواقعہ ہے کہ مدینہ منورہ کی میونسپلٹی میں سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام پر باقاعدہ جائیداد رجسٹرڈ ہے اور اج بھی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے نام پر بجلی اور پانی کا بل آتا ہے،نبوت کے تیرہویں سال میں جب مسلمان ہجرت کر کے مدینہ منورہ پہنچے تو وہاں پینے کے پانی کی بہت قلت تھی،مدینہ منورہ میں ایک یہودی کا کنواں تھا جو مسلمانوں کو پانی مہنگے داموں فروخت کرتا۔ اس کنویں کا نام“بئرِ رومہ”یعنی رومہ کا کنواں تھااور پریشانی کے عالم میں مسلمانوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا“کون ہے جو یہ کنواں خریدے اور مسلمانوں کے لیے وقف کر دے؟ ایسا کرنے پر اللہ تعالیٰ اسے جنت میں چشمہ عطاء کرے گا۔ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ اس یہودی کے پاس گئے اور کنواں خریدنے کی خواہش کا اظہار کیا، کنواں چونکہ منافع بخش آمدنی کا ذریعہ تھا اس لیے یہودی نے اسے فروخت کرنے سے انکار کر دیا توحضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے یہ تدبیر کی کہ پورا کنواں نہ سہی، آدھا کنواں فروخت کر دو۔ آدھا کنواں فروخت کرنے پر ایک دن کنویں کا پانی تمہارا ہو گا اور دوسرے دن میرا ہو گا۔یہودی ان کی اس پیشکش پر لالچ میں آگیا۔ اس نے سوچا کہ حضرت عثمان اپنے دن میں پانی مہنگے داموں فرخت کریں گے، اس طرح اسے زیادہ منافع کمانے کا موقع مل جائے گا۔ چنانچہ اس نے آدھا کنواں حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو فروخت کر دیا۔سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے وہ کنواں اللہ کی رضا کے لئے وقف کر کے اپنے دن مسلمانوں کو کنویں سے مفت پانی حاصل کرنے کی اجازت دے دی، لوگ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دن مفت پانی حاصل کرتے اور اگلے دن کے لئے بھی ذخیرہ کر لیتے۔ یہودی کے دن کوئی بھی شخص پانی خریدنے نہ جاتا۔یہودی نے دیکھا کہ اس کی تجارت ماند پڑ گئی ہے تو اس نے حضرت عثمان سے باقی ادھا کنواں بھی خریدنے کی پیشکش کر دی جس پر حضرت عثمان راضی ہو گئے اور کم و بیش پینتیس ہزار درہم میں پورا کنواں خرید کر مسلمانوں کے لیے وقف کر دیا۔اس دوران ایک مالدار ادمی نے عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو کنواں دوگنا قیمت پر خریدنے کی پیش کش کی، حضرت عثمان نے فرمایا کہ“مجھے اس سے کہیں زیادہ کی پیش کش ہے”تو وہ شخص بھی اپنی پیشکش بڑھاتاچلاگیااور حضرت عثمان یہی جواب دیتے رہے۔یہاں تک اس آدمی نے کہا کہ“حضرت آخر کون ہے جو اپ کو دس گنا دینے کی پیش کش کر رہا ہے؟”سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ’میرا رب مجھے ایک نیکی پر دس گنا اجر دینے کی پیش کش کرتا ہے۔وقت گزرتا گیا اور یہ کنواں مسلمانوں کو سیراب کرتا رہا یہاں تک کہ عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورِ خلافت میں اس کنویں کے اردگرد کھجوروں کا باغ بن گیا اور اسی دور میں ہی اس باغ کی دیکھ بھال ہوئی۔بعد ازاں الِ سعود کے عہد میں اس باغ میں کھجور کے درختوں کی تعداد تقریباً پندرہ سو پچاس ہو گئی۔حکومتِ وقت نے اس باغ کے گرد چاردیواری بنوائی اور یہ جگہ میونسپلٹی میں حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام پر رجسٹرڈ کر دی۔وزارتِ زراعت یہاں کی کھجوریں بازار میں فروخت کرتی اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام پر بینک میں جمع کرواتی رہی۔چلتے چلتے یہاں تک اس اکاونٹ میں اتنی رقم جمع ہو گئی کہ مدینہ منورہ کے مرکزی علاقہ میں اس باغ کی آمدنی سے ایک کشادہ پلاٹ لیا گیا جہاں فندق عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام سے ایک رہائشی ہوٹل تعمیر کیا جانے لگا۔اس رہائشی ہوٹل سے سالانہ پچاس ملین ریال آمدنی متوقع ہے جس کا آدھا حصہ غریبوں اور مسکینوں کی کفالت اور باقی آدھا حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بینک اکاونٹ میں جمع ہوگا۔ذوالنورین سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے اس عمل اور خلوصِ نیت کو اللہ رب العزت نے اپنی بارگاہ میں ایسے قبول فرمایا اور اس میں اتنی برکت عطا فرمائی کہ قیامت تک ان کے لیے صدقہ جاریہ بنا دیا۔حضرت عثمان کا اکاونٹ یہاں بھی موجود ہے اور وہاں بھی موجود ہے جہاں ہم سب کو بالاخر جانا ہی ہے، یہی وہ لوگ ہیں جن کی جانیں اور مال اللہ تعالیٰ نے اپنی جنتوں کے بدلے خرید لئے،یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ کے ساتھ تجارت کی،جنہوں نے اللہ عزوجل کو قرض دیا، اچھا قرض اور پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں کئی گنا بڑھا کر لوٹایا۔سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے جن حالات میں عہدہ خلافت اٹھایا اگرچہ وہ مشکل ترین حالات تھے لیکن اس کے باوجود آپ کی فراست، سیاسی شعوراور حکمت عملیوں کی بدولت اسلام کو خوب تقویت ملی۔ اسلام پھیلا، اسلامی تعلیمات سے زمانہ روشن ہوا۔آپ نے خلیفہ بننے کے بعد سب سے پہلے لوگوں کو نماز عصر پڑھائی۔ آپ نے فوجیوں کے وظائف میں سو سو درہم کے اضافے کا اعلان کیا۔اس کے ساتھ ساتھ طرابلس، قبرص اور آرمینیہ میں فوجی مراکز قائم کیے۔چونکہ اس وقت فوجی سواریاں اونٹ اور گھوڑے ہوا کرتے تھے اس لیے فوجی سواریوں کے لیے چراہ گاہیں بنائیں۔ مدینہ کے قریب ربذہ کے مقام پر دس میل لمبی دس میں چوڑی چراگاہ قائم کی، مدینہ سے بیس میل دور مقام نقیع پر، اسی طرح مقام ضربہ پر چھ چھ میل لمبی چوڑی چراہ گاہیں بنوائیں، ہر چراہ گاہ کے قریب چشمے بنوائے اور چراہ گاہ کے منتظمین کے لیے مکانات تعمیر کرائے۔ آپ کے زمانہ خلافت میں اونٹوں اور گھوڑوں کی کثرت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ صرف ضربہ کی چراہ گاہ میں چالیس ہزار اونٹ پرورش پاتے تھے۔اسلامی بحرے بیڑے کی بنیاد حضرت معاویہ کے اصرار پر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے رکھی۔ملکی نظم و نسق کو مضبوط اور مستحکم بنیادوں پر استوار کیا، رائے عامہ کا تہہ دل سے احترام فرمایا کرتے تھے،اداروں کو خود مختار بنایا اور محکموں الگ الگ تقسیم فرمایا: سول، فوجی، عدالتی، مالی اور مذہبی محکمے جدا جدا تھے۔ امام طبری نے تاریخ میں لکھا ہے کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی وفات کے وقت شام کے گورنر (Governor) امیر معاویہ تھے،عبداللہ بن قیس انفزاری بحریہ کے انچارج (Admiral) تھے،حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ عدالت عالیہ کے قاضی (Chief Justice)تھے احتسابی عمل کسی بھی کامیاب حکومت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے اس عمل کے تحت کئی عمال اور سرکاری افسروں کو معزول بھی فرمایا۔لوگوں کو خود کفیل بنانے کے لیے انتظامات کیے۔محمد بن ہلال اپنی دادی سے روایت کرتے ہیں کہ جب میرا بیٹا ہلال پیدا ہوا تو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے میرے پاس پچاس درہم اور کپڑے بھیجے اور ساتھ ہی یہ بھی کہلا بھیجا کہ یہ تیرے بیٹے کا وظیفہ اور کپڑا ہے جب یہ ایک سال کا ہو جائیگا تو اس کا وظیفہ بڑھا کر سو درہم کر دیں گے۔ حضرت حسن بصری رحمہ اللہ سے روایت ہے لوگ حضرت عثمانؓ کی عیب گوئی کرتے تھے مگر میں نے دیکھا کہ سیدنا عثمان روزانہ لوگوں میں مال تقسیم فرماتے، عطیات عطا فرماتے،کھانے پینے کی اشیاء تقسیم فرماتے، یہاں تک کہ گھی اور شہد بھی تقسیم کیا جاتا۔اس کے علاوہ امن وخوشحالی کے عوام سے قرب و ربط،مظلوم کی نصرت و حمایت، فوجی چھاونیوں اوراسلامی مکاتب و تعلیم گاہوں کا جال، تعمیر مساجد اور مسجد نبوی کی توسیع، تعلیم القرآن کو عام کرنا، خون وخرابہ سے دارالخلافت کو بچائے رکھناوغیرہ حضرت عثمانؓ کے عظیم کارنامے ہیں۔سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے دور ِخلافت میں فتوحات کی دو قسمیں تھیں:نمبر 1: بعض وہ ممالک جو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں فتح ہو چکے تھے وہاں کے لوگوں نے بغاوت کی تو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے دوبارہ ان کو فتح کیا۔نمبر 2:وہ نئے علاقے جو پہلے فتح نہیں ہوئے تھے پہلی قسم کے تحت آذربائیجان آرمینیہ، رَے اور اسکندریہ۔ تاریخ کی کتابوں ان کی تفصیلات موجود ہیں۔دوسری قسم کے تحت بعض بلاد روم اور رومی قلعے،بلاد مغرب، طرابلس، انطاکیہ، طرطوس،شمشاط، ملطیہ،افریقہ، سوڈان، ماوراء النہر،ایشائے کوچک، ایران، ترکستان، اندلس، اصطخر، قنسرین، قبرص،فارس، سجستان، خراسان، مکران، طبرستان، قہسستان، ابر شہر، طوس، بیورو، حمران، سرخس، بیہق، مرو، طالقان، مروروذ، فاریاب، طخارستان، جوزجان، بلخ، ہرات، باذغیس،قذوین۔ وغیرہ ان میں سے ہر علاقے فتح کی تفصیل کتب تاریخ میں تفصیل کے ساتھ موجود ہے۔گویا براعظم ایشیا، یورپ اور افریقہ کے بڑے بڑے ممالک فتح کئے۔ فارس و روم کی سیاسی قوت کا استیصال کیا اور روئے زمین کا بیشتر حصہ اسلامی سلطنت کے زیر نگیں آیا۔دشمنانِ اسلام ان فتوحات سے لرزہ براندام تھے،انہوں نے عبداللہ بن سباح کی قیادت میں اسلام اور حضرت عثمانؓ کے خلاف سازشوں کا آغازکیا،بلآخرباغیوں نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر کا محاصرہ کر لیا اور یہ محاصرہ چالیس دن تک جاری رہا ان دنوں میں آپ مسجد بھی نہیں جا سکے۔ اس دوران بہت سارے جانثاروں نے باغیوں کا قلعہ قمع کرنے کی اجازت طلب کی۔ سیدنا حسن، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما تلوار لٹکائے آپ سے اجازت مانگنے آئے۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بھی تلوار لٹکائے حاضر ہوئے اور اجازت چاہی۔ آپ نے فرمایا:اپنی تلواریں پھینک دو میں تمہارے ہاتھوں کسی کا خون ہوتے نہیں دیکھ سکتا۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ حاضر ہوئے اور عرض کی کہ امیر المومنین!آپ عوام کے امام ہیں آپ مشکل حالات میں ہیں اس لیے میری رائے یہ ہے کہ آپ تین باتوں میں سے کسی بات کو اختیار فرما لیں۔نمبر1: آپ باہر نکلیں مقابلہ کریں آپ حق پر ہیں ہم آپ کے ساتھ ہیں۔نمبر2: آپ کے لیے پیچھے سے دروازہ کھول دیتے ہیں آپ یہاں سے مکہ مکرمہ تشریف لے جائیں وہاں کوئی شخص آپ کے خون سے اپنے ہاتھ رنگنے کی ہمت نہیں کر سکے گا۔نمبر3: آپ ملک شام امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس چلے جائیں وہاں آپ کو کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔ آپ نے ان باتوں کے جواب میں فرمایا کہ یہ نہیں ہو سکتا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خلیفہ ہو کر امت کو خون ریزی میں جھونک دوں، مکہ مکرمہ بھی نہیں جا سکتا کیونکہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے خود سنا ہے کہ جو قریشی حرم مکہ میں خون بہائے یا خون بہانے کا سبب بنے تو اس پر آدھی دنیا کے باشندوں کا عذاب ہوگا، جہاں تک شام جانے کا تعلق ہے تو یہ اس لیے نہیں ہو سکتا کہ میں دار الہجرت اور حضور کا پڑوس نہیں چھوڑ سکتا۔محاصرے کیدوران آپ کا کھانا وغیرہ بند کر دیا باہر سے کوئی شخص اندر کوئی چیز نہیں بھیج سکتا تھا۔ چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے پانی پہنچانے کی کوشش کی لیکن دشمنوں نے مشکیزے میں تیر مارا اور سارا پانی ضائع ہو گیا۔ اسی طرح ام المومنین سیدہ ام حبیبہ ؓنے بھی کوشش کی،ام المومنین حضرت صفیہ رضی اللہ عنہما نے بھی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہو سکیں۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی حفاظت کے لیے جناب سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے اپنے دو صاحبزادے سیدنا حسن اور سیدنا حسین رضی اللہ عنہما کو مامور فرمایا۔ حضرت طلحہ اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہما کے بچے بھی حسنین کریمین کے ساتھ پہرے پر تھے۔ جب آپ کی شہادت ہوگئی تو حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے اپنے دونوں صاحبزادوں کو خوب ڈانٹا کہ تمہارے ہوتے ہوئے دشمن کیسے کامیاب ہو گیا؟ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ باغیوں نے آپ کے گھر کا دروازہ بھی جلا دیا حالانکہ یہ وہ گھر تھا جہاں حاجت مند لوگ آتے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ان کو نوازتے تھے۔آخر کار 18 ذوالحجہ35ھ /7جون 656ء بروز جمعہ تقریباً نماز عصر کے وقت سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیا گیا، حضرت عبداللہ بن سلام سے روایت ہے کہ حضرت عثمان خون میں لت پت پڑے ہوئے تھے اور آپ کی زبان پر اللہ کے حضور یہ دعا جاری تھی۔ اللھم اجمع امۃ محمد۔ اے اللہ امت محمدیہ کو باہمی اتفاق نصیب فرما۔

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.