ہمارے نہایت مخلص اور محسن دوست جناب سمیع اللہ مہمند جو کہ ضلع مہمند سے تعلق رکھتے ہیں اور انتہائی با صلاحیت جوان ہے۔ وہ نیشنل یوتھ اسمبلی پاکستان کے خیبر پختون خواہ چیپٹر کے یوتھ گورنر کے عہدے پر بھی فائز ہے۔ نیشنل یوتھ اسمبلی پاکستان میں نوجوانوں کا پہلا لیڈنگ یوتھ پلیٹ فارم ہے جو کہ حکومت پاکستان کے متعلقہ ادارے سے با ضابطہ لائسنس حاصل کرنے والا نوجوانون کا پہلا ادارہ ہے جس کو پاکستان کی تا ریخ میں پہلی مرتبہ ہا ئر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستا ن کے تمام الحاق شدہ یونیورسٹیز میں بطور پارلیمانی سٹوڈنٹ سوسائٹی قائم کیا۔
گزشتہ روز سمیع اللہ بھائی نے ایک بہترین منصوبہ پیش کیا جس کو ساتھیوں نے سراہا اور سب نے عہد کیا کہ اِس منصوبے کو پا ئے تکمیل تک پہنچائے گے، کیونکہ یہ منصوبہ ہمارے مستقبل کے معماروں کو ترقی کے راہ پر گامزن کرنے کا تھا۔ آپ سب کو معلوم ہے کہ ضلع مہمند ایک پسماندہ علاقہ ہے اور وہاں سہولیات بالکل نا پید ہے۔ خصوصاًنوجوانوں کو تعلیمی میدان میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے اور اس کا اندازہ آپ اس سے لگا سکتے ہیں کہ کورونا وبا کی وجہ سے چند دن پہلے یونیورسٹیز میں آن لائن کلاسز کا سلسلہ شروع کیا گیا کہ تمام اسٹوڈنٹس اپنے گھر میں انٹرنیٹ کے ذریعے آن لائن کلاسز لے گے۔تو فاٹا میں انٹرنیٹ کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے سینکڑوں طلباء و طالبات کے اہم کلاسزضائع ہورہے ہیں۔ اور حکومت کا انٹرنیٹ بحالی کا کیا ہو اوعدہ ابھی تک ادھوراہے۔
اسی طرح تعمیروترقی اور تعلیمی میدان میں یہ نئے انضمام شدہ علاقے کافی پیچھے ہیں۔ اور سب سے بڑی بات بقول سمیع اللہ بھائی کہ ضلع مہمند میں صرف ایک چھوٹی لائبریری ہے جو کہ لوئر مہمند میں ایک نوجوان نے ہمت کی تھی اور ایک کھچے کمرے میں لائبریری کا قیام عمل میں لایا تھا اب وہ ماشاء اللہ ایک دو کمرے کے بلڈنگ میں موجود ہے۔
لیکن اپر مہمند میں بالکل لائبریری نہیں ہے اور سہولیات کے لحاظ سے بھی یہ بہت پسماندہ علاقہ ہے۔تو سمیع اللہ مہمند نے یہ عزم کیا کہ ایسے پسماندہ علاقے میں اگر ایک عظیم الشان لائبریری کا قیام عمل میں لایا جائے تو یقیناًیہ اس علاقے کے لوگوں اور خصوصاً طلبا وطالبات کیلئے بہترین تحفہ اور ترقی کا زینہ ثابت ہوگا۔ کیونکہ ہر اہل فکر ودانش اور علم وحکمت کے متلا شی یہ حقیقت تسلیم کرتا ہے کہ ”نہیں ہے کوئی رفیق کتاب سے بہتر“ ، اور تا ریخ اس سچ کی گواہی دیتی ہے کہ وہ اقوام اپنے علم وفن کی بنا پر ترقی کی منازل طے کرتی اور فاتح اقوام کی صف میں شمار ہوتی ہے جن کا ہتھیار قلم اور اوڑ ھنا بچھونا کتاب ہوتی ہے۔ لیکن اس کے برعکس جو اقوام علم کی قدر نہیں کرتیں اور کتاب سے اپنا رشتہ توڑ لیتی ہیں وہ نہ معراج انسانی کے کمال کو پاسکتی ہیں اور نہ ہی ترقی اور فکر وفن کی منازل طے کر پاتی ہیں۔
کتاب کی اسی ضرورت واہمیت کے پیش نظر مشہور فرنسیسی مفکر والٹیرکہتا ہے کہ ”تاریخ میں چند غیر مہذب وحشی قوموں کو چھوڑ کر کتا بوں ہی نے لوگو ں پر حکومت کی ہے۔فرق صرف یہ ہے کہ جس قوم کی قیادت اپنی عوام کو کتا بیں پڑھنا اور ان سے محبت کرنا سکھا دیتی ہے وہ دوسروں سے آگے نکل جاتی ہے۔“
کتاب دوستی بھولی بھٹکی قوموں کی زندگی میں روشن قندیل کا کام کرتی ہے۔لیکن گزشتہ چند عشروں بالخصوص جب سے انفارمیشن ٹیکنالوجی کا ارتقاء ہوا اور سوشل میڈیا ودیگر ایپلی کیشنز کا رحجان بڑھا تو انسان نے اس قندیل سے استفادہ کرنا چھوڑ دیا اور اس کے دل سے کتاب کا ذوق وشوق کم ہوتا چلا گیا۔ اس ڈیجیٹل انقلاب نے انسان کے دل سے احساس مروت کا عنصر کچل ڈالا اور وہ جدید آلات کا اسیر ہوکر رہ گیا۔ان آلات نے جہاں انسان سے حسنِ اخلاق واحترام کا سلیقہ چھین لیا وہیں تساہل اور تن آسانی کے بھنور میں انسان کو اپنی تہذیبی وثقافتی میراث سے کوسوں دور کردیا۔ جس کی مثال عصر حاضر میں ذوق علم اور مطالعہ کتاب سے دوری ہے۔ حالیہ سروے کے مطابق پاکستان میں صرف 25فیصد عوام کتب بینی کے شوقین ہیں، جبکہ 75فیصد عوام نے کتب بینی سے دوری کا اعتراف کیا ہے۔
کتاب اور علم دوستی معاشی خوشحالی اور معاشرتی امن کی ضامن ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جس قوم نے علم وتحقیق کادامن چھوڑ دیا،وہ پستی کا شکار ہوگئی۔مسلم اُمہ کا ذوال اس کی واضح مثال ہے۔ ساتویں صدی سے تیر ہویں صدی تک بغداد علم وادب کا گہوارہ رہا۔سقوط بغداد ہوا تو مسلمانوں کے عظیم کتب خانے فرات میں بہادئیے گئے۔یہ اس قدر ضخیم ذخیرہ تھا کہ دریا کا پانی اس کی سیاہی سے سیاہ ہوگیا۔جب اُندلس میں پندرہویں صدی عیسوی کے آخر میں اسلامی حکومت ختم ہوئی تو غرناطہ کی بڑی لائبریری کو بھی ملکہ ازابیلا نے جلوادیا۔یہ وہ دور تھا جب مسلمان کتابیں پڑھتے اور جمع کرتے تھے۔مگر رفتہ رفتہ علم سے دوری مسلمانوں کو رسوائی کی طرف لے گئی۔ آج دنیا کے 28 ممالک ایسے ہیں،جہاں سب سے ذیادہ کتابیں فروخت ہوتی ہیں، مگر ان 28ممالک میں ایک بھی مسلمان ملک نہیں۔افسوس! مسلمان اپنی علمی شان بُھلا بیٹھے اور اہل یورپ نے مسلمانوں کے علمی مراکز، بالحضوص ہسپانوی مراکز سے استفاد کرکے تحقیق کی دنیا میں قدم رکھا۔ہمارے آباؤ اجداد کی محنت آج بھی لندن، کی ”انڈیا آفس لائبریری“ میں موجود ہے۔ ان کتب کی تعداد 6لاکھ کے قریب ہے۔علامہ محمد اقبال ؒ نے اس وجہ سے فرمایا تھا: ”مگر وہ علم کے موتی کتابیں اپنے آبا کی : جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارا ۔“
سمیع اللہ بھائی کے آئیڈیا نے ہمیں بھی اپنی تاریخ یاد دلائی اور خوشی بھی محسوس ہوئی کہ اب بھی ہم میں اپنے آبا کے میراث زندہ کرنے والے نوجوان موجودہیں جو اپنی علمی میراث کی حفاظت جانتی ہے اور ان کو قوم کے مستقبل کے معمار وں میں منتقل کرنے کا جذبہ رکھتی ہے۔
سمیع اللہ بھائی نے تمام ساتھیوں سے لائبر یری کے لیے کتب عطیہ کرنے کا اعلان کیا تو ماشاء اللہ بہت سے ساتھیوں نے اس کی آواز پر لبیک کہا اور مختلف النوع کتابیں لائبریری کیلئے عطیہ کئیے۔میں نے بھی اپنے بس کے مطابق کتابیں ڈونیٹ کی اور آپ ساتھیوں سے بھی اپیل ہے کہ اس کا رخیر اور اسلاف کے علمی میراث کو زندہ کرنے میں سمیع اللہ بھائی کا ساتھ دے اور کتابیں عطیہ کیجئے۔ کتابیں عطیہ کرنے کے لیے آپ مندرجہ ذیل نمبر (0345.9425210)پر رابطہ کرسکتے ہیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں کتاب دوستی اور نوجوانان اسلام کے اصلاح کے لیے ہر ممکن اقدامات کی توفیق عطا فرمائیں۔آمین