حضرت ابوبکر صدیق ؓکا اسم گرامی”عبداللہ“ کنیت ”ابوبکر“ اور لقب ”صدیق“ اور”عتیق“ ہیں آپ کے والد کانام”عثمان“ اور کنیت ”ابوقحافہ“ ہے والدہ کانام”سلمیٰ‘اور کنیت ”ام الخیر“ ہے، آپ کا تعلق قبیلہ قریش کی شاخ بنوتمیم سے ہے، زمانہ جاہلیت میں آپ کانام”عبدالکعبہ“تھا جو نبی کریم ﷺنے تبدیل کرکے”عبداللہ“ رکھ دیا تھا۔”بکر“ جوان اونٹ کو کہتے ہیں چونکہ آپؓ اونٹوں میں بہت دلچسپی رکھتے تھے اور ان کے علاج معالجے سے بھی اچھی طرح واقف تھے اس لئے لوگوں نے آپ کو”ابوبکر“ کہنا شروع کردیا۔حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے بے شمار فضائل ہیں،آپ بالاتفاق انبیاء علیہم السلام کے بعد افضل البشرہیں،آپ ؓ نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا اور اسلام قبول کرتے ہی دعوت اسلام میں مصروف ہوگئے،اسلام لانے کے بعد آپ کی تمام زندگی نبی کریم ﷺکی خدمت میں گزری ہے،آپ نے ہر مشکل میں نبی کریم ﷺکا ساتھ دیاہے اور اپناسارامال رسول اللہ ﷺپرنچھاورکردیا،دنیامیں بھی ساتھ تھے،مزار میں بھی ساتھ ہیں اور قیامت کے دن بھی حوض کوثرپر آپ ؐ کے ساتھ ہوں گے۔آپؓ کے بے شمار فضائل ہیں،یہاں اُن میں سے چند روایات کا تذکرہ کیا جاتا ہے،حضرت عائشہ ؓ کی روایت ہے کہ حضرت عمر فاروق ؓ نے فرمایا:حضرت ابوبکر ؓ نبی کریم ﷺکو ہم سب سے زیادہ محبوب تھے،ہم سے بہتر اور ہمارے سردار تھے،آپ گفتگوکرتے رہے یہاں تک کہ فرمایا:مردوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے حضرت ابوبکر صدیق ؓ تھے۔]ابن حبان ۲۶۸۶/مسند بزار۱۵۲[ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتیں ہیں کہ]شب معراج کے موقع پر[ جب نبی کریم ﷺکو مسجد اقصیٰ کی طرف سیر کرائی گئی تو آپ نے صبح لوگوں کو اس کے بارہ میں بیان فرمایا،تو کچھ ایسے لوگ بھی اس کے منکر ہوگئے جو آپ ﷺپر ایمان لاچکے تھے اور آپ ؐ کی تصدیق کرچکے تھے۔وہ دوڑتے ہوئے حضرت ابوبکر ؓ کے پاس پہنچے اور کہنے لگے:کیا آپ اپنے صاحب کی تصدیق کرتے ہیں؟ جو یہ گمان کرتے ہیں کہ انہیں آج رات بیت المقدس تک کی سیر کرائی گئی۔تو حضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا:کیا آپ ﷺنے یہ فرمایا ہے؟انہوں نے کہا،ہاں!تو آپؓ نے فرمایا:اگر آپﷺنے یہ فرمایا ہے تو یقیناسچ فرمایا ہے۔انہوں نے کہا کیا آپ ان کی تصدیق کرتے ہیں کہ وہ آج رات بیت المقدس تک گئے بھی ہیں اور صبح ہونے سے پہلے واپس بھی آگئے ہیں؟حضرت صدیق اکبر ؓ نے فرمایا:ہاں!میں آپ ﷺکی تصدیق اس خبر کے بارے میں بھی کرتا ہوں جو اس سے زیادہ بعید ازقیاس ہے،میں تو صبح وشام آپ ﷺکی آسمانی خبروں کی تصدیق کرتا ہوں۔پس اس تصدیق کی وجہ سے حضرت ابوبکر ؓ ”الصدیق“کے نام سے موسوم ہوئے ]مستدرک حاکم ۷۰۴۴/مصنف عبدالرزاق ۵/۸۲۳[ حضرت علی ؓ قسم اُٹھاکر کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکر کا لقب ”صدیق“اللہ تعالیٰ نے آسمان سے نازل فرمایا ہے ]مستدرحاکم ۵۰۴۴[حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے جبرائیل امین سے فرمایا:اے جبرائیل!میری قوم ]واقعہ معراج میں [میری تصدیق نہیں کرے گی،جبرائیل نے کہا:ابوبکر آپ کی تصدیق کریں گے اور وہ صدیق ہیں“]طبرانی اوسط ۷/۶۶۱/ابن سعد ۱/۵۱۲[حضرت عمروبن العاص ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺنے مجھے غزوہ ذات السلاسل کاامیر لشکر بناکر روانہ فرمایا جب واپس آیا تو آپ کی خدمت میں عرض گزار ہوا:آپ کو سب سے زیادہ محبت کس سے ہے؟آپ ؐ نے فرمایا:عائشہ ؓسے،میں نے پھر عرض کیا کہ مردوں میں سے؟آپ ؐ فرمایا:اس کے والد (ابوبکرؓ)سے،میں نے پھر عرض کیا ان کے بعد؟آپ ﷺنے فرمایا:عمر بن خطابؓ سے۔اس کے بعد آپ ﷺنے چند دوسرے حضرات کے نام لئے ]بخاری ۲۶۴۳،مسلم ۶۵۸۱[حضرت ابودرداءؓ سے روایت ہے کہ میں نبی کریم ﷺکی بارگاہ میں بیٹھاہواتھا کہ حضرت اببوبکر صدیق ؓ اپنی چادر کاکنارہ پکڑے ہوئے حاضرخدمت ہوئے،یہاں تک کہ ان گھٹناننگا ہوگیا،نبی کریم ﷺنے فرمایا:تمہارے یہ ساتھی لڑجھگڑ کر آرہے ہیں۔انہوں نے سلام عرض کیا اور بتایا کہ میرے اور عمر بن خطابؓ کے درمیان کچھ تکرارہوئی توجلدی میں میرے منہ سے ایک بات نکل گئی جس پر مجھے بعد میں ندامت ہوئی اور میں نے ان سے معافی مانگی لیکن انہوں نے معاف کرنے سے انکار کردیا۔لہذامیں آپ کی بارگاہ میں حاضرہوگیا ہوں۔آپ ﷺنے فرمایا:اے ابوبکر!اللہ تمہیں معاف فرمائے،یہ تین مرتبہ فرمایا،اس کے بعد حضرت عمر ؓپشیمان ہوکر حضرت ابوبکر ؓ کے گھر گئے اور ان کے بارہ میں پوچھا کہ ابوبکر صدیق کہاں ہیں؟گھروالوں نے کہا نہیں ہیں،چنانچہ آپ بھی حضور ﷺکی خدمت میں حاضرہوئے اور سلام عرض کیا،اس وقت نبی کریم ﷺکے چہرہ ئپرنورکا رنگ بدل گیا۔یہ صورت حال دیکھ کر حضرت ابوبکر صدیقؓ ڈرگئے اور گھٹنوں کے بل ہوکر عرض کیا:یارسول اللہ ﷺ!اللہ کی قسم میں ہی زیادتی کرنے والاتھا۔یہ دومرتبہ عرض کیا،پس نبی کریم ﷺنے فرمایا:بے شک جب اللہ تعالیٰ نے مجھے تمہاری طرف مبعوث فرمایا تو تم سب لوگوں نے میری تکذیب کی لیکن ابوبکرؓ نے میری تصدیق کی اور پھر اپنی جان اور اپنے مال سے میری خدمت میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا،پھردومرتبہ یہ ارشاد فرمایا:کیا تم میرے ایسے ساتھی سے میرے لئے درگزر (نہیں)کروگے؟اس کے بعد ابوبکر صدیق ؓکو کبھی اذیت نہیں دی گئی ]بخاری ۱۶۴۳،سنن الکبریٰ ۰۱/۲۳۲[ حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:(قیامت کے دن)سب سے پہلے جس سے زمین پھٹے گی وہ میں ہوں،پھر ابوبکرؓ سے،پھر عمرؓ سے،پھر میں اہل بقیع کے پاس آؤں گا تو ان سے زمین شق (پھٹے)ہوگی،پھر ان سب کے درمیان اُٹھایاجاؤں گا ]مستدرحاکم ۹۲۴۴،فضائل صحابہ امام احمد ۷۰۵[حضرت سہل بن سعد ساعدیؓ کی روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ بنی عمر بن عوف کے ہاں تشریف لے گئے تاکہ ان(کے کسی تناعہ)کی صلح کرادیں،اتنے میں نمازکا وقت ہوگیا،موذن حضرت ابوبکر صدیق ؓکے پاس آئے اور کہا:اگر آپ لوگوں کو نماز پڑھادیں تو میں اقامت کہہ دوں؟انہوں نے فرمایا:ہاں!پس حضرت ابوبکر ؓ نماز پڑھانے لگے،تو اسی دوران رسول اللہ ﷺواپس تشریف لے آئے اور لوگ ابھی نماز میں تھے،آپ ﷺصفوں میں داخل ہوتے ہوئے پہلی صف میں جاکھڑے ہوئے،لوگوں نے تالی کی آوازسے آپ کو متوجہ کرنا چاہا،مگر چونکہ ابوبکر صدیق ؓ حالت نماز میں اِدھر اُدھر متوجہ نہ ہوتے تھے اس لئے اِدھر متوجہ نہ ہوئے،پھر جب لوگوں نے بہت زور سے تالیاں بجائیں تو آپ متوجہ ہوئے اور نبی کریم ﷺکو دیکھا،آپ ﷺنے انہیں اشارہ فرمایا کہ اپنی جگہ پر کھڑے رہو،حضرت ابوبکر ؓ نے اپنے دونوں ہاتھ بلند کئے اور اللہ تعالیٰ کی حمدبیان کی اور اللہ کے رسول نے انہیں نماز پڑھاتے رہنے کا جو حکم فرمایا تھا اس پر اللہ کا شکراداکیا۔حضرت ابوبکر پیچھے ہٹے اور اور صف میں شامل ہوگئے،رسول اللہ ﷺآگے تشریف لائے اور نماز پڑھائی۔جب آپ ﷺنماز سے فارغ ہوئے تو ادھر متوجہ ہوئے اور فرمایا:اے ابوبکر!جب میں تمہیں حکم دیاتھا تو کس چیز نے تمہیں اپنی جگہ پر قائم رہنے سے منع کیا؟حضرت ابوبکر ؓ نے عرض کیا:ابوقحافہ کے بیٹے کی کیامجال کہ رسول اللہ کے آگے کھڑاہوکر نماز پڑھائے“]بخاری ۲۵۶،مسلم ۱۲۴[حضرت عمر ؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺنے ہمیں (غزوہ تبوک کے موقع پر)صدقہ دینے کا حکم دیا،اس کی تعمیل کے لئے میرے پاس مال تھا،میں نے(اپنے آپ سے)کہا،اگر میں ابوبکر صدیق ؓ سے کبھی سبقت لے جاسکتا ہوں تو آج سبقت لے جاؤں گا۔حضرت عمر ؓ فرماتے ہیں کہ میں اپنانصف مال لے کر حاضرخدمت ہوا،نبی کریم ﷺنے فرمایا:اپنے گھر والوں کے لئے کیا چھوڑ آئے ہو؟میں نے عرض کیا اتناہی مال ان کے لئے چھوڑ آیا ہوں،(اتنے میں)حضرت ابوبکر ؓ جو کچھ ان کے پاس تھا وہ سب کچھ لے کر حاضرخدمت ہوئے،آپ ﷺنے فرمایا:اے ابوبکر!اپنے گھر والوں کے لئے کیا چھوڑ آئے ہو؟انہوں نے عرض کیا:میں ان کے لئے اللہ اور اس کا رسول چھوڑ آیا ہوں۔حضرت عمرؓفرماتے ہیں میں نے (دل میں)کہا میں ان سے کسی چیز میں آگے نہ بڑھ سکوں گا ]ترمذی ۵۷۶۳،ابوداؤ۸۷۶۱[حضرت انس ؓ کی روایت ہے کہ]مکہ میں [ مشرکین نے رسول اللہ ﷺکواس قدر جسمانی اذیت پہنچائی کہ آپ پر غشی طاری ہوگئی۔حضرت ابوبکر کھڑے ہوگئے اور بلند آوازسے کہنے لگے تم تباہ وبربادہوجاؤ،کیا تم ایک (معزز) شخص کو اس لئے قتل کرنا چاہتے ہو کہ وہ کہتے ہیں کہ میرارب اللہ ہے؟ان ظالموں نے کہا،یہ کون ہے؟(مشرکین میں سے کچھ)لوگوں نے کہا:ابوقحافہ کابیٹاہے جو (محبت رسول میں)مجنون (بن چکا)ہے]مجمع الزوائد ۶/۷۱،مستدرحاکم ۴۳۴۴[ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ میں نبی کریم ﷺکی بارگاہ میں حاضرتھا اور آپ کے پاس ابوبکر صدیق ؓ اس حال میں بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ نے عبا ء(لباس جو سامنے سے کھلاہواہو اس کو کپڑوں کے اوپر پہناجاتا ہے)پہنی ہوئی تھی جس کو اپنے سینے پر خِلال(لکڑی کا ٹکڑاجس سے سوراخ کیا جاتا ہے)سے جوڑاہواتھا اس وقت نبی کریم ﷺپر جبرائیل نازل ہوئے اور عرض کیا اے محمدؐ!میں کیا دیکھ رہاہوں کہ ابوبکر نے عباء پہن کر اُسے اپنے سینے پر ٹانکا ہواہے؟نبی کریم نے فرمایا:جبرائیل!انہوں نے اپناسارامال مجھ پر خرچ کرڈالا ہے،جبرائیل نے نے عرض کیا:اللہ تعالیٰ آپ کو سلام کہتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ ابوبکر سے کہیں،کیا تو اپنے اس فقر میں مجھ سے راضی ہے یاناراض؟اس پر نبی کریم ﷺنے فرمایا:اے ابوبکر!اللہ تعالیٰ تم پر سلام بھیجتے ہیں اور تمہیں فرماتے ہیں:”کیا تو اپنے اس فقر میں مجھ سے راضی ہے یاناراض؟ابوبکر ؓ نے عرض کیا،میں اپنے رب کریم پر ناراض ہوں گا؟میں تو اپنے رب سے (ہرحال میں)راضی ہوں میں اپنے رب کریم سے راضی ہوں،میں اپنے رب کریم سے راضی ہوں ]حلیۃ الاولیاء ۷/۵۰۱،صفۃ الصفوۃ ۰۵۲[ حضرت موسیٰ بن عقبہ کہتے ہیں کہ ہم ایسے چار افراد کو نہیں جانتے جنہوں نے خود اور ان کے بیٹوں نے حضور نبی کریم ﷺکو دیکھا ہو ]یعنی انہیں شرف صحابیت نصیب ہواہو[سوائے ابوقحافہؓ]ان کے بیٹے[ابوبکرؓ ]ان کے بیٹے[عبدالرحمن بن ابی بکر ؓاور]ان کے بیٹے[ ابوعتیق بن عبدالرحمن ؓ کے“]تاریخ کبیر امام بخاری ۱/۰۳۱،معجم کبیر طبرانی ۱/۴۵[حضرت علی المرتضیٰ ؓ فرماتے ہیں کہ قرآن پاک کے حوالے سے سب سے زیادہ اجر پانے والے ابوبکرؓ ہیں کہ انہوں نے سب سے پہلے قرآن کو دوجلدوں میں جمع کیا]ابن ابی شیبہ ۶/۸۴۱،طبقات ابن سعد ۳/۳۹۱[ حضرت علی المرتضیٰ ؓ فرماتے ہیں نبی کریم ﷺ کے بعد اس امت میں سے بہترابوبکر ؓہیں ]مسنداحمد۱/۰۱۱،سنن الکبریٰ ۷/۰۲[عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے ابوبکر ؓ سے فرمایا:”تم حوض کوثر پر میرے رفیق ہوگے جیساکہ غارمیں میرے رفیق تھے ]ترمذی ۰۷۶۳[ ان کے علاوہ حضرت صدیق اکبر کے بیشمار فضائل کتب حدیث میں موجودہیں،لیکن افسوس ہے کہ مملکت پاکستان میں کچھ عرصہ سے مسلسل امت مسلمہ کے سب سے افضل شخصیت کے خلاف ہرزہ سرائی کی جارہی ہے،نہ صرف حضرت صدیق اکبر ؓ کی مقدس شخصیت کو ہدف تنقید بنایاجارہاہے بلکہ تینوں خلفائے راشدین کانام لے لے کر ان کے خلاف گندی زبانیں استعمال کی جارہی ہیں،نبی کریم ﷺکی تین صاحبزادیوں کا انکار اورازواج مطہرات کے خلاف بھری محفلوں میں انتہائی نازیبا الفاظ استعمال کئے جارہے ہیں،جس سے کروڑوں مسلمانوں کی دل آزاری ہورہی ہے،کہاں گیا نیشنل ایکشن پلان؟کہاں گئی حکومت کی رٹ؟ملک میں انتشار پھیلانے اور امت مسلمہ کی مقدس شخصیات کے خلاف مسلسل گستاخی کرنے والوں کو قانون نافذ کرنے والے ادارے لگام کیوں نہیں دیتے؟اگر ان زبان درازگستاخوں کو قانون کے کٹھہرے میں لاکر کھڑانہ کیاگیا تو کوئی بھی مسلمان قانون ہاتھ میں لینے پر مجبور ہوجائے گا،قبل اس کے کہ کوئی اور غازی فیصل خالد پیداہوجائے،قانون نافذکرنے والے ادارے اس قسم کی غلاظت پھیلانے والوں کے خلاف کاروائی کرکے ملک کو انارکی کی طرف دھکیلنے سے بچائیں۔فرقہ واریت سے پہلے بہت زیادہ نقصان ہوچکاہے ملک مزید فرقہ واریت کامتحمل نہیں ہوسکتا اس لئے قانون نافذکرنے والے ادارے اور عدلیہ اس قسم کے فرقہ پرست لوگوں پر کڑی نگاہ رکھے جو مسلمانوں کے جذبات کے ساتھ کھیل کر ملک کو بدامنی اور انتشار کی طرف لے جاکر دشمن کے ایجنڈے پرعمل پیراہیں۔