مولانا ……. اگر ایک طرف علم اور سیاست کے میدان میں کسی تعارف کے محتاج نہیں تو دوسری طرف شعر وشاعری کے میدان میں بھی ایک بیش قیمت موتی ہیں‘‘ مشہور زمانہ ادبی رسالے کاروان کے ایڈیٹر محمد اسلام آرمانی صاحب اسلامی انقلاب نامی معرکۃ الآرء کتاب کے مصنف مشہور فنی عالم ، صدر علمائے باجوڑ مولانا قاضی مسیح اللہ ؒ کے بارے میں رقم طراز ہے۔
1927 کو باجوڑ ایجنسی کے سب سے گنجان آباد تحصیل واڑہ ماموند کے دامن کوہ میں واقع (برہ)چینہ گئی گاو ں میں پیدا ہوئے ۔ کم سنی میں والد کا سایہ سرسے اٹھ جانے کے باعث دوسرے بڑے بھائی تو علم کے حصول سے محروم رہ گئے لیکن والدہ کو شدید فکر لاحق ہوئی کہ علمی گھرانے سے علمی وراثت اٹھ نہ جائے اسلئے اپنے چھوٹے بیٹے کو ہاتھ سے پکڑ کر مرحوم والد مولانا عبدالغفور ؒ (المعروف بہ مرزا صاحب ، حکیم صاحب ) کے بیش بہا کتب کے لائبریری کے سامنے کھڑا کرکے کہتی ’’ بیٹا ….. یہ تمھارے اباجان کا ورثہ ہے تمھارے بڑے بھائی دنیاوی مصروفیات کے باعث پڑھنے کے قابل نہیں رہے اسلئے اب تمہیں خود کو اس قابل بنانا ہوگا کہ اپنے والد کا میراث سنبھال سکو‘‘
۱۳ سالہ یتیم بچے نے اپنے والدہ کے باتوں کا اتنا اثر لیا کہ علم کے حصول کے لئے گھر سے نکل پڑے۱۰۰ میل کے قریب پیدل فاصلہ طے کرتے ہوئے چارسدہ کے ایک گاوں شیوہ کو اپنا ٹھکانہ بنالیا۔ علمی لحاظ سے شہرت کے حامل علاقہ میں مولانا احسان ا لدین باباجی کے پاس باقاعدہ دینی علوم کی ابتداء کی ۔ مسلسل تین سال اس علاقے میں دینی علوم کے حصول میں صرف کیئے۔
اس کے بعد سرکاری جامعہ دارالعلوم حقانیہ سیدوشریف سوات مزید علمی پیاس بجھانے کیلئے رخت سفر باندھا۔وہاں پہنچ کر علوم عقلیہ کے استاد الکل حضرت مولا نا خان بہادر عرف مارتونگ مولانا سے علوم کے موتی سمیٹنے شروع کئے۔ مضبوط حافظہ رکھنے کے ساتھ بلا کے ذہین بھی تھے اس بناء پر بہت جلد مولانا کے قریبی حلقہ احباب میں شامل ہوگئے ہم درس طلباء کے قول کے مطابق مولانا ہمیشہ سے ہر مشکل کتاب کی تکرار بالکل استاد کی طرز پر کرواتے اور ان کے سامنے آخر تک ہماری حیثیت شاگردوں جیسے تھی۔ آخر تک یہی پڑھتے رہے بالآخر 1949 میں اسی جامعہ سے فراغت حاصل کی۔ استاد محترم مولانا خان بہادر عرف مارتونگ مولانا کی شدید خواہش تھی کہ اپنے اس لائق فائق شاگرد کو اپنے ساتھ مدرس رکھ لیں۔ لیکن کچھ مجبوریوں کے بناء پر ایسا ممکن نہ ہوسکا۔ اساتذہ کے دعاؤں سے منور یہ طالب حق اپنے مادر علمی میں بحیثیت مدرس درس نظامی کے ابتدائی کتب پڑھانے لگے ۔
اس کے بعد مدرسہ حمایت الاسلام غلجی کنڈرخیلو میں صدر مدرس مقرر ہوئے اس دوران رئیس دارالعلوم سرحد کے دعوت پر ان کے جامعہ میں معقولات کی کتابیں آپکی سپرد کی گئی۔ کچھ عرصہ تنگی چارسدہ میں بھی پڑھاتے رہے لیکن احباب ، متعلقین اور خار نواب صاحب کے پُر زور اصرار پر باجوڑ ایجنسی منتقل ہوگئے اور گاؤں نواں کلی میں امامت ،خطابت، قضاوت اور حکمت کے ساتھ درس و تدریس کا مشغلہ بھی جاری رکھا۔ آپ اپنی مسجد میں طلبہ کو پڑھانے لگے ابتداء میں تعداد تیس پھر ساٹھ سے تجاوز کرگئی اس دوران آپ نے قاضی ، امور عامہ ،میر زاہد اور فلسفہ کے کتب میں خوب شہرت حاصل کی۔ یہ سلسلہ اسی طرح جاری تھا مگر احادیث نبوی سے جڑی محبت بالآخر آپ نے آشکارہ کردی اور تن تنہا اللہ کا نام لیکر 1987 کو آپ نے اپنی مسجد میں ہفتہ وار بخاری شریف کے درس کا آغاز کیا جسمیں طلباء اور فاضل علماء شرکت کرتے۔
من جد فقد وجد ہ کے مثل اس ثمر بار آور نے بہت جلد اپنے ثمرات ظاہر کیئے اور 1989 کو آپ نے اسی گاؤں میں جامعہ مدینۃ العلوم کا سنگ بنیاد رکھا۔ اس جامعہ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ پورے باجوڑ میں یہ پہلا دینی ادارہ تھا جس میں باقاعدہ دورہ حدیث شریف کا آغاز ہوا۔ آپکے زیر درس کُتب بخاری شریف ، مسلم ، ابوداؤد ، مشکوٰۃ ، ہدایہ آخرین، بیضاوی وغیرہ ہوا کرتے۔