غبار خون سے آلودہ ہے وطن کی فضائیں ، بد عنوانی کے بھڑکتے ہوئے شعلوں نے سکون زیست کو جلا کر راکھ کردیا۔ بے چین قلب نے دھڑکنا بھی چھوڑ دیا۔ محرومیوں کی طوفانی ہوائیں چل رہی ہیں۔ آسماں بھی لال بوندیں برسا رہا ہے۔ نا انصافی کی قضاوت معمول کے بات ہے۔ معاشی بد حالی اور اقتصادی جنگ میں ہارے ہوئے سپاہی ہیں ہم۔ لاشعوری اور کم علمی میں ہر اول دستے میں ہیں ہم۔
بھوکے بچوں کی چیخوں نے سکون وطن کو مضطرب
کیا ہے۔ کینہ، حسد، غرور اور تکبر نے احساس کے باریک پردوں کو پھاڑ ڈالا۔
جبر، تشدد اور بد امنی نے ہمارے حالات غیر کردیے۔ نااہل حکمرانوں کے نا اہل فیصلوں نے ملک کی استقامت کو برباد کردیا ہے۔ رشوت، سفارش اور اقربا پروری نے ریاست کے نظام کو بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ طبقاتی نظام نے ملک کی ترقی روک دی ہے۔
سچ کا قافلہ ہم سے بہت دور چلا گیا۔ باطل نے سچ کے جھوٹے لباس پہن رکھے ہیں۔ گل کی رخسار پر خون کی شبنم ہے۔ اس چمن کا قاتل مالیار خود ہے۔ اب اس انجمن میں دل بجھ گیا ہے۔
اب نہ بلبل ہے نہ باغ۔ نہ شمع ہے نہ پروانہ۔ اب بہار صبح میں جولائی کی گرم ہوائیں چلتی ہیں۔ تعصب نے زندگی کا حسن مسمار کردیا۔ بارونق محفل کی دیئے بجھے ہوئے ہیں۔ نغمہ بلبل کا ترنم بھی نہیں۔ بلند آبشاروں کی مغرور آواز بھی نہیں۔
گرم ہواؤں میں ہر طرف بارود کی خوشبوں پھیل رہی ہیں۔ نہ انسانیت کا جزبہ ہے نہ اخوت کا فلسفہ۔
نفسا نفسی کا عالم ہے۔ انفرادی سوچ نے محبت کے دروازے بند کردے۔ دنیاوی سوچ نے اخروی اعمال کا خاتمہ کردیا۔ اب کوئی جگنو نہیں جو اس اندھیرے رات میں راہبری کرے۔ اب کوئی بانگ نہیں جو اس بکھرے ہوئے قافلے کو ایک جھنڈے کی سائے تلے اکھٹا کردے۔ اب کوئی خضر نہیں جو ہمارے مسائل حل کرے۔
آئیں اس چمن میں اپنے خون سے بہار دوبارہ واپس لیے ائے۔ یکجہتی کی نغمے سے فضاء گونجھے۔ بلند حوصلوں سے طوفانوں کے رخ موڑیں۔ محبت کے رنگ سے اس نقشے میں رنگ بھر دیں۔ امن کا پیام پھیلائیں۔
ملک کی سلامتی کے لیے دعا کرے۔
خدا کرے کہ میرے ارض پاک پر اترے
وہ فصل گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو
یہاں جو پھول کھلے وہ کھلا رہے برسوں
یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو
یہاں جو سبزہ اُگے وہ ہمیشہ سبز رہے
اور ایسا سبز کہ جس کا کوئی مثال نہ ہو
گھنی گھٹائیں یہاں ایسی بارشیں برسائیں
کہ پتھروں کو بھی روئیدگی محال نہ ہو
خدا کرے نہ کبھی خم سرِ وقارِ وطن
اور اس کے حسنِ کو تشویش ماہ وصال نہ ہو
ہر ایک خود ہو تہذیب و فن کا اوج کمال
کوئی ملول نہ ہو کوئی خستہ حال نہ ہو
خدا کرے کہ میرے اک بھی ہم وطن کے لیے
حیات جرم نہ زندگی وبال نہ ہو۔