قیام پاکستان کے بعد قادیانیوں کی ریشہ دوانیاں ملک وملت کے خلاف کھل کر سامنے آگئیں،حکومتی اداروں میں ان کا عمل ودخل بڑے پیمانے پر شروع ہوگیا،وزیرخارجہ سرظفراللہ خان قادیانی نے ملکی سفارت خانوں کو قادیانیت کے تبلیغی مراکز میں تبدیل کرکے بیرون دنیا کو یہ تاثر دینا شروع کیا کہ گویا پاکستان ایک قادیانی اسٹیٹ ہے،ملک کے اندر قادیانیت کے خلاف لٹریچر پر پابندیاں عائد کردی گئیں،بانی پاکستان کے رفیق،محسن ِ پاکستان حضرت علامہ عثمانی کی تصنیف ”الشہاب الثاقب“پر حکومت پاکستان نے پابندی لگادی۔اس کتاب میں مرزاغلام احمدقادیانی اور اس کی ذریت کی حقیقت منکشف کی گئی تھی الشہاب الثاقب کے علاوہ اس موضوع کی بعض دیگر کتب پر بھی پابندی لگائی گئی قادیانی اخبار الفضل نے اپنی 3/جنوری 1952ء کی اشاعت میں دعویٰ کیا تھا کہ احمدیت کے مخالف عنقریب مرزاصاحب یاان کے کسی جانشین کے سامنے مجرموں کی طرح پیش ہوں گے۔11/جنوری 1952ء کے الفضل کے ذریعہ یہ ہدایت کی گئی کہ قادیانی فوجی محکموں کی طرح گورنمنٹ کے دوسرے محکموں میں بھرتی ہونے کی کوشش کریں تاکہ تبلیغی پروگرام کو تقویت ملے 17/جنوری کو الفضل نے مرزوئیوں کو مزیدہدایت کی کہ اور کہا”ایسے حالات پیداکردو کہ 1952ء ختم ہونے سے پہلے دشمن احمدیت کی آغوش میں گرنے پرمجبورہوجائیں۔انہی دنوں مرزامحمود نے کوئٹہ میں اعلان کیا کہ ہم 1952ء میں تمام بلوچستان کو احمدی صوبہ بنادیں گے۔چونکہ پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ سرظفراللہ خان چونکہ قادیانی تھے،جنھوں نے مختلف ممالک میں قادیانی اور قادیانی نواز سفارتی عملہ تعینات کیا۔مجاہد ختم نبوت مولانالال حسین اخترؒنے2جون 1952ء کو کراچی میں آل مسلم پارٹیزمیٹنگ طلب کی۔ اس مجلس مشاورت نے دودن مسلسل بحث کے بعد درج ذیل مطالبات پیش کئے(۱) قادیانیوں کو غیرمسلم اقلیت قراردیاجائے (۲) سرظفراللہ خان کو عہدے سے ہٹادیا جائے(۳)مرزائیوں کو کلیدی عہدوں سے ہٹادیاجائے۔اس مقصدکے لئے آل پاکستان مسلم پارٹیزکنونشن بلانے کا فیصلہ کیاگیاعلامہ سید سلیمان ندوی ؒنے اجلاس کی صدارت فرمائی اور کنونشن منعقدکرنے کے لئے ایک بورڈمقررکیا گیا اس کے ارکان حسب ذیل تھے۔علامہ سید سلیمان ندوی،ؒمفتی اعظم پاکستان مفتی محمدشفیع،ؒمولانالال حسین اختر،ؒمولانا عبدالحامد بدایوانی،ؒعلامہ یوسف کلکتوی،ؒعلامہ مفتی داؤدؒ،مولانا سلطان احمدؒ،مولانا شاہ احمدنورانی،ؒالحاج ہاشم گزدرؒ،مفتی جعفرحسین مجتہدؒ،مولانا احتشام الحق تھانویؒ کنوینرچنے گئے۔13جولائی 1952ء الحاج محمدہاشم گزدر کے مکان پر بورڈ کا اجلاس ہوا۔مندرجہ ذیل جماعتوں کو آل پارٹیزکنونشن میں شمولیت کے لئے دعوت نامے جاری کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔(۱)جمعیت علماء اسلام (۲)جمعیت علماء پاکستان (۳)جماعت اسلامی (۴)تنظیم اہل سنت والجماعت (۵)جمعیت اہل سنت (۶)جمعیت اہل حدیث(۷)موتمر اہل حدیث پنجاب(۸)ادارہ تحفظ حقوق شیعہ پنجاب(۹)مجلس تحفظ ختم نبوت (۰۱)مجلس احراراسلام (۱۱)جمعیۃ العربیہ (۲۱)جمعیت الفلاح۔اسی طرح امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخای کے حکم پر13/جولائی 1952ء کو برکت علی اسلامیہ ہال لاہور میں آل مسلم پارٹیزکا اجلاس ہو۔اس اجلاس کے دعوت نامے پر مولانا غلام محمدترنم ؒ،مولانامفتی محمدحسن امرتسریؒ،مولانااحمدعلی لاہوریؒ،مولانامحمدعلی جالندھری،ؒمولانامحمدداؤدغزنویؒ،مولانانورالحسن بخاریؒ اور سید مظفرعلی شمسی ؒکے دستخط تھے۔ تمام مکاتب فکر پر مشتمل ایک مجلس عمل مولاناابوالحسنات کی زیرصدارت تشکیل دی گئی۔مجلس عمل نے 23/جنوری 1953ء کو وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین سے مل کر اپنے مطالبات پیش کئے اور 22فروری 1953ء کی ڈیڈلائن دے دی۔21فروری کو ایک وفد نے پھر وزیراعظم سے ملاقات کرکے یاددہانی کرادی، 22فروری کو جب وفد وزیراعظم سے ملاتو وزیراعظم کی طرف سے صاف جواب دے دیاگیا کہ نہ مطالبات مانے جاسکتے ہیں اور نہ دستورسازاسمبلی میں پیش ہوسکتے ہیں۔چنانچہ 26فروری 1953ء کو آرام باغ کراچی میں مجلس عمل کا جلسہ ہوا۔امیرشریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ جلسہ کے آخری مقررتھے آپ نے رات دوبجے حاضرینِ جلسہ سے اپنے خطاب کے اختتام پر فرمایااے ناظم الدین،میری بات غورسے سنو!میں تجھے مسلمان کی حیثیت سے نبی کریم ﷺکا واسطہ دیتاہوں یہ مطالبے (مجلس عمل کے مطالبات)مان لو۔میں تیری مرغیوں کوساری عمر دانہ ڈالوں گا اور تیری جوتیاں اپنی داڑھی سے صاف کروں گا۔شاہ جی کے ان لفاظ پر مجمع میں کہرام مچ گیااور لوگ ہچکیاں لے کررونے لگے اور پھررات دوبجے دعاکے ساتھ جلسہ ختم ہوا۔ 27فروری 1953ء کو علی الصباح امیرشریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ،مولاناابولحسنات قادریؒ،ماسٹرتاج الدین انصاریؒ،مولانا لال حسین اختر،ؒ مظفر علی شمسیؒ اور دیگر قائدین کو گرفتارکرلیاگیا۔اس کی خبرملک میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور ملک بھرمیں گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہوا۔بازاربندہوگئے شہروں میں ہڑتال کردی گئی،ریل کی پٹریاں اُکھاڑدی گئیں 6/مارچ 1953ء کو لاہور شہر فوج کے حوالے کردیا گیا اور پھر جنرل اعظم نے شمع رسالت کے پروانوں پر ظلم وستم کے وہ پہاڑ توڑے جس نے چنگیزوہلاکوخان کو بھی شرماکررکھ دیا۔اس تحریک کے روحِ رواں امیرشریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری ؒ،امام الاولیاء حضرت مولانا احمدعلی لاہوریؒ،قاضی احسان احمدشجاع آبادیؒ،مجاہدملت مولانامحمدعلی جالندھریؒ،شیخ الحدیث حضرت مولانا نصیرالدین غورغشتویؒ،مجاہدملت حضرت مولاناغلام غوث ہزارویؒ،مفکراسلام مولانامفتی محمودؒاورمولاناابولحسنات قادری ؒتھے۔حضرت ہزارویؒ کے علاوہ تمام قیادت گرفتارہوگئی۔امیرشریعت کے تمام جسمانی اعضابڑھاپے کی وجہ سے ان سے بغاوت کرچکے تھے آنکھوں کی بینائی کمزور ہوچکی تھی،دانت ایک ایک کرکے جواب دے چکے تھے،دردگردہ اور تبخیرمعدہ کے باعث کئی کئی گھنٹوپریشان رہتے تھے،اس حالت میں کراچی جیل میں پابندسلاسل کردئے۔سپرنٹنڈنٹ جیل جناب عنایت اللہ خان حیدرآبادی نے حضرت امیر شریعت اور ان کے رفقاء سے کہا ”آپ حضرات جن کوٹھڑیوں میں لائے گئے ہیں یہ وہی خوش بخت کوٹھڑیاں ہیں کہ جہاں 1921ء میں مولانا محمدعلی جوہر،ؒمولانا سید حسین احمدمدنی،ؒمولانا شوکت علی،ؒ ڈاکٹر سیف الدین کچلو،ؒ بغاوت کے جرم میں رہ چکے ہیں“۔یہ سنناتھا کہ انگریزی اقتدار اور جوروستم کی ساری تاریخ نقش بہ دیوار بن کر اُبھر آئی،جیل خانہ کی ایک ایک اینٹ پسِ دیوار زنداں کی کہانی بیان کرنے لگی۔امیر شریعت نے جیل خانہ کی درودیوار سے خطاب کرتے ہوئے کہا:اے اونچی دیوارو!آہنی دروازوں!تم گواہ رہنا کہ اگر مولانا حسین احمدمدنی،مولانامحمدعلی جوہر اور ان کے رفقاء وطن عزیز کی آزادی کے لئے 1921ء میں تمہارے مصائب جھیل سکتے ہیں تو1953ء میں عطاء اللہ شاہ بخاری اور اس کے ساتھی بھی خاتم الانبیاء علیہ الصلوۃ والسلام کی آبروکے لئے تمہارے مصائب وآلام سے خائف نہیں ہوں گے۔امیر شریعت کے ان الفاظ سے سپرنٹنڈنٹ جیل اور دوسرے افسران بہت متاثر ہوئے۔امیرشریعت دیوبندی،ابولحسنات قادری بریلوی،فیض الحسن بریلوی،تاج الدین انصاری دیوبندی،اور مظفر علی شمسی شیعہ۔عقیدہ ختم نبوت کی طفیل یہ سب اسیرانِ ختم نبوت پانچ وقت کی نماز مولانا ابولحسنات کی امامت میں پڑھتے رہے،نہ توکسی مذہب ضائع ہوا اور نہ ہی کسی عقیدے میں فرق آیا،بلکہ ان کی باہم رفاقت نے اکثر شبہات کا ازالہ کردیا۔امیر شریعت کے اخلاق اور تواضع نے مولاناابولحسنات کو ان کا اس قدرگرویدہ کیاکہ وہ بے اختیار کہنے لگے ”شاہ جی!آپ تو اس دورکے ولی ہیں،مجھے تو آپ سے متعلق بہت کچھ کہا سناگیا آپ سے قربت نے میری ساری غلط فہمیاں دورکردیں،الحمدللہ۔اس دوران ایک روزسپرنٹنڈنٹ جیل وزیر اعظم پاکستان خواجہ ناظم الدین کا پیغام کاپیغام لے کر آئے۔”آپ کی گرفتاری کے بعد ملک بھرمیں تشددکی جو تحریک چل نکلی ہے اور اس کے نتیجے میں سرکاری اور غیرسرکاری املاک کو جو نقصان پہنچ رہاہے آپ اس سے لاتعلقی کا اظہار کریں تاکہ ملک میں امن قائم ہو۔اس کے جوا ب میں حضرت امیر شریعت نے فرمایا:خواجہ صاحب کو میری طرف سے کہہ دو،روح پر قبضہ کرلینے کے بعد آپ جسم کوتڑپنے کی اجازت بھی نہیں دیتے“۔گرفتاریوں کے قریباًپندرہ دن بعد لاہور سے سی آئی ڈی کے دوذمہ دارافسر کراچی جیل میں راہنمایانِ ختم نبوت سے ملنے آئے اور کہا:اگرآپ حضرات یہ کہہ دیں کہ تحریک ختم نبوت دولتانہ کے ایماپر چلائی پر گئی ہے تو حکومت آپ کو رہاکرنے کے لئے تیار ہے۔حضرت امیر شریعت تڑپ کر بول اٹھے:”یہ جھوٹ ہے،دولتانہ ایک دنیادار انسان ہے،اور تحریک ختم نبوت پاک جذبات کی محرک،اس کی ذمہ داری کسی فاسق فاجر پرنہیں ڈالی جاسکتی۔جاؤ اپنی حکومت سے کہہ دو یہ تحریک میں نے چلائی ہے،اور اس کا ذمہ دار بھی میں ہوں“۔اسی دوران ایوان اقتدار کی محلاتی سازشیں خواجہ ناظم الدین کے خلاف کامیاب ہوئیں 17اپریل 1953ء کو خواجہ ناظم الدین کی حکومت برخاست کردی گئی اور ان کی جگہ مسٹرمحمدعلی بوگرہ کو جو امریکہ میں پاکستان کے سفیر تھے بلاکر پاکستان کا وزیراعظم مقررکردیاگیا۔27اپریل 1953ء کو حضرت امیر شریعت اور ان کے رفقاء مولانا ابولحسنات، صاحبزادہ فیض الحسن،مظفرعلی شمسی،عبدالرحیم جوہر کو کراچی سے سکھرجیل منتقل کردیا گیا۔ان دنوں سکھرجیل کی درجہ حرارت انتہاکوپہنچ چکی تھی،جیل میں اپنی کی قلت،سائے کی کمی،اور خواراک کی بے ضابطگی،ایسی بے اعتدالیوں کودیکھ کر حضرت امیر شریعت سکھرجیل خانہ کو سقر (جہنم)کہاکرتے تھے۔حکومت نے پنجاب میں امن وامان کو بحال کرنے کے لئے قائدین ختم نبوت سے مذاکرات ضروری سمجھے اور گورنرجنرل پاکستان نے اپنے نامزدوزیراعظم محمدعلی بوگرہ کو سکھرجیل میں بھیجااس نے جیل میں امیرشریعت سے ملاقات کرکے کہا: ”آپ حضرات اگراپنی تحریک کے سلسلہ میں حکومت کے روبرومعذرت کردیں تو آپ کو رہاکردیاجائے گا میں اسی کام کے لئے آپ سے ملنے آیاہوں“امیرشریعت نے محمدعلی بوگرہ کو مختصر جواب دیتے ہوئے فرمایا: آپ حضرات کو ہماری اس قدرفکرکیوں ہے؟ ؎
سبو اپنا اپنا ہے جام اپنا اپنا
کئے جاؤ مے خارو! کا م اپنا اپنا
وزیراعظم پاکستان امیر شریعت ؒ کا یہ شعر سن کر تھوڑی دیر ٹھہرے اور واپس چلے گئے (جاری ہے)
1953ء کی تحریک ختم نبوت اور قربانیاں (قسط اول)حافظ مومن خان عثمانی
You might also like