صحابۂ کرام ث کے یہ چند قِصَّے نمونے کے طور پر لکھے گئے ہیں؛ ورنہ اُن کے حالات بڑی ضخیم کتابوں میں بھی پورے نہیں ہوسکتے، اردو میں بھی متعدِّد کتابیں اور رِسالے اِس مضمون کے ملتے ہیں۔ کئی مہینے ہوئے یہ رسالہ شروع کیا تھا، پھر مدرسے کے مشاغِل اور وَقتی عوارِض کی وجہ سے تَعوِیق میں پڑگیا، اِس وقت اِن اَوراق پر خاتمہ کرتاہوں، کہ جتنے لکھے جاچکے ہیں وہ قابلِ اِنتفاع ہوجائیں۔
اَخیر میں ایک ضروری اَمر پر تنبیہ بھی اَشد ضروری ہے، وہ یہ کہ اِس آزادی کے زمانے میں جہاں ہم مسلمانوں میں دِین کے اَور بہت سے اُمور میں کوتاہی اور آزادی کا رنگ ہے، وہاں حضراتِ صحابۂ کرام رَضِيَ اللہُ عَنْہُمْ أَجْمَعِیْنَ کی حق شناسی اور اُن کے ادب واِحتِرام میں بھی حد سے زیادہ کوتاہی ہے؛ بلکہ اِس سے بڑھ کر بعض دِین سے بے پرواہ لوگ تو اُن کی شان میں گُستاخی تک کرنے لگتے ہیں؛ حالاںکہ صحابۂ کرام ث دِین کی بنیاد ہیں، دِین کے اوَّل پھیلانے والے ہیں، اُن کے حُقوق سے ہم لوگ مرتے دَم تک بھی عہدہ برآ نہیں ہوسکتے۔ حق تَعَالیٰ شَانُہٗ اپنے فضل سے اُن پاک نفسوں پر لاکھوں رحمتیں نازل فرمائیں، کہ اُنھوں نے حضورِ اقدس ﷺ سے دین حاصل کیا اور ہم لوگوں تک پہنچایا؛ اِس لیے اِس خاتمے میں قاضی عَیاضؒ کی ’’شِفا‘‘ کی ایک فَصل کا مُختصر ترجَمہ -جو اِس کے مناسب ہے- دَرج کرتا ہوں، اور اُسی پر اِس رِسالے کو ختم کرتا ہوں۔
وہ فرماتے ہیں کہ :حضورِ اقدس ﷺہی کے اِعزاز واِکرام میں داخل ہے حضورﷺکے صحابہ کا اِعزاز واِکرام کرنا، اوراُن کے حق کو پہچاننا، اور اُن کااِتِّباع کرنا، اور اُن کی تعریف کرنا، اور اُن کے لیے اِستِغفار اور دُعائے مغفرت کرنا، اور اُن کے آپس کے اِختِلاف میں لَب کُشائی نہ کرنا، اور مُؤرِّخین اور شیعہ اور بدعتی اورجاہل راویوں کی اُن خبروں سے اِعراض کرنا جو اُن حضرات کی شان میں نُقص پیدا کرنے والی ہوں، اور اِس نوع کی کوئی روایت اگر سننے میں آئے تو اُس کی کوئی اچھی تاویل کرلے، اور کوئی اچھا مَحمِل تَجوِیز کرلے کہ وہ
اِس کے مستحق ہیں،اور اُن حضرات کو بُرائی سے یاد نہ کرے؛ بلکہ اُن کی خوبیاں اور اُن کے فضائل بیان کیا کرے، اور عیب کی باتوں سے سُکوت کرے، جیسا کہ حضورﷺ کا ارشاد ہے کہ: ’’جب میرے صحابہ ث کا ذکر (یعنی بُرا ذکر) ہوتو سکوت کیاکرو‘‘۔
صحابہ رَضِيَ اللہُ عَنْہُمْ أَجْمَعِیْنَ کے فضائل قرآن شریف اور احادیث میں بکثرت وارد ہیں، حق تَعَالیٰ شَانُہٗ کا ارشاد ہے: ﴿مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ، وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ أَشِدَّآئُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآئُ بَیْنَہُمْ، تَرٰہُمْ رُکَّعاً سُجَّداً یَّبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰہِ وَرِضْوَاناً، سِیْمَاہُمْ فِيْ وُجُوْہِہِمْ مِّنْ أَثَرِ السُّجُوْدِ، ذٰلِکَ مَثَلُہُمْ فِيْ التَّوْرَاۃِ، وَمَثَلُہُمْ فِيْ الإِنْجِیْلِ کَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَہٗ فَاٰزَرَہٗ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَویٰ عَلیٰ سُوْقِہٖ یُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِیَغِیْظَ بِہِمُ الْکُفَّارَ، وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوْا الصّٰلِحٰتِ مِنْہُمْ مَّغْفِرَۃً وَّأَجْراً عَظِیْماً﴾[الفتح:۴]
(ترجَمہ:) محمد، اللہ کے رَسول ہیں، اور جو لوگ آپ کے ساتھ ہیں وہ کافروں کے مُقابلے میںسخت ہیں اور آپس میں مہربان، اور اے مُخاطَب! تُو اُن کو دیکھے گا کہ کبھی رکوع کرنے والے ہیں، کبھی سجدہ کرنے والے ہیں، اور اللہ کے فَضل اور رَضامندی کی جُستجو میں لگے ہوئے ہیں، اُن کی عَبدِیت کے آثار بوجہِ تاثیر اُن کے سجدے کے اُن کے چہروں پر نُمایاں ہیں، یہ اُن کے اَوصاف تورات میں ہیں۔ اور اِنجیل میں اُن کی یہ مثال ذکر کی ہے کہ جیسے کھیتی، کہ اُس نے اوَّل اپنی سُوئی نکالی، پھر اُس نے اپنی سُوئی کو قَوِی کیا (یعنی وہ کھیتی موٹی ہوئی)، پھر وہ کھیتی اَور موٹی ہوئی، پھر اپنے تَنے پر سیدھی کھڑی ہوئی کہ کسانوں کو بھلی معلوم ہونے لگی، (اِسی طرح صحابہ ث میں اوَّل ضُعف تھا، پھر روزانہ قوَّت بڑھتی گئی، اور اللہ تعالیٰ نے صحابہ ث کو اِس لیے یہنَشْو ونُما دیا)تاکہ اُن سے کافروں کو حسد میں جَلاوے، اور آخرت میں اللہ تعالیٰ نے اُن صاحبوں سے جو کہ ایمان لائے اور نیک کام کر رہے ہیں مغفرت اور اَجرِ عَظِیم کا وعدہ کررکھا ہے۔ یہ ترجَمہ اِس صورت میں ہے کہ تورات پر آیت ہو، اور آیت کے فرق سے ترجَمے میں بھی
فرق ہوجائے گاجو تفاسیر سے معلوم ہوسکتا ہے۔
اِسی سورۃ میں دوسری جگہ ارشاد ہے: ﴿لَقَدْ رَضِيَ اللّٰہُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ إِذْ یُبَایِعُوْنَکَ تَحْتَ الشَّجَرَۃِ، فَعَلِمَ مَافِيْ قُلُوْبِہِمْ، فَأَنْزَلَ السَّکِیْنَۃَ عَلَیْہِمْ وَأَثَابَہُمْ فَتْحاً قَرِیْباً. وَّمَغَانِمَ کَثِیْرَۃًیَّأْخُذُوْنَہَاوَکَانَ اللّٰہُ عَزِیْزاًحَکِیْماً﴾(ترجَمہ:) تحقیق اللہ تعالیٰ نے اُن مسلمانوںسے (جو کہ آپ کے ہم سفر ہیں)خوش ہوا، جب کہ یہ لوگ آپ ﷺسے درخت کے نیچے بیعت کررہے تھے، اور اُن کے دِلوں میں جو کچھ (اِخلاص اور عَزم)تھا اللہ تعالیٰ کو وہ بھی معلوم تھا، اور اللہ تعالیٰ نے اُن کے دل میں اِطمینان پیدا کردیا تھا، اور اُن کو ایک لگتے ہاتھ فتح بھی دے دی، (مراد اِس سے ’’فتحِ خیبر‘‘ ہے جو اُس کے قریب ہی ہوئی)، اور بہت سی غَنیمتیں بھی دیں، اور اللہ تعالیٰ بڑا زَبردست حِکمت والا ہے۔ یہ ہی وہ بیعت ہے جس کو ’’بَیْعَتُ الشَّجَرَۃِ‘‘ کہا جاتا ہے۔ اخیر باب کے قِصَّہ ۴؍ میں اِس کاذکر گزرچکا ہے۔
صحابہ ثکے بارے میں ایک جگہ ارشادِ خدا وندی ہے: ﴿رِجَالٌ صَدَقُوْا مَاعَاہَدُوْا اللّٰہَ عَلَیْہِ، فَمِنْہُمْ مَّنْ قَضیٰ نَحْبَہٗ وَمِنْہُمْ مَّنْ یَّنْتَظِرُ، وَمَابَدَّلُوْا تَبْدِیْلًا﴾ (ترجَمہ:) اِن مؤمنین میں ایسے لوگ ہیں کہ اُنھوں نے جس بات کا اللہ سے عہد کیا تھا اُس میں سچے اُترے، پھر اُن میں سے بعض تو ایسے ہیں جو اپنی نذَر پوری کرچکے(یعنی شہید ہوچکے)،اور بعض اُن میں اِس کے مُشتاق ومُنتَظِر ہیں، (ابھی شہید نہیں ہوئے)، اور اپنے ارادے میں کوئی تَغیُّروتبدُّل نہیں کیا۔
ایک جگہ ارشادِ خداوندی ہے: ﴿وَالسَّابِقُوْنَ الْأَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُہَاجِرِیْنَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُمْ بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَرَضُوْاعَنْہُ، وَأَعَدَّ لَہُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ تَحْتَہَا الْأَنْہٰرُخٰلِدِیْنَ فِیْہَا أَبَداً، ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ﴾
(ترجَمہ:) اور جو مُہاجِرین واَنصار (ایمان لانے میں سب اُمَّت سے)مُقدّم ہیں، اور جتنے لوگ اِخلاص کے ساتھ اُن کے پَیروہیں اللہ تعالیٰ اُن سب سے راضی ہوا، اور وہ سب اللہ سے راضی ہوئے، اور اللہ تعالیٰ نے اُن کے لیے ایسے باغ تیار کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوںگی، جن میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے، اور یہ بڑی کامیابی ہے۔ اِن آیات میں اللہ جَلَّ شَانُہٗ نے صحابہ ثکی تعریف اور اُن سے خوشنودی کا اِظہار فرمایا ہے۔
اِسی طرح احادیث میں بھی بہت کثرت سے فضائل وارد ہوئے ہیں: حضورِ اقدس ﷺ کا ارشاد ہے کہ: میرے بعد ابوبکر وعمر کا اِقتِدا کیا کرو۔
ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ: میرے صحابہ ث سِتاروں کی طرح ہیں، جس کا اِتِّباع کروگے ہدایت پاؤگے۔
مُحدِّثین کو اِس حدیث میں کلام ہے، اور اِسی وجہ سے قاضی عَیاضؒ پر اِس کے ذکر کرنے میں اعتراض ہے؛ مگر مُلّا علی قاریؒ نے لکھاہے کہ: ممکن ہے کہ تعدُّدِ طُرُق کی وجہ سے اُن کے نزدیک قابلِ اعتبار ہو، یا فضائل میں ہونے کی وجہ سے ذکر کیا ہو؛ (کیوںکہ فضائل میں معمولی ضُعف کی روایتیں ذکر کردی جاتی ہیں)۔
حضرت انس ص کہتے ہیں: حضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ: میرے صحابہ ث کی مثال کھانے میں نمک کی سی ہے، کہ کھانا بغیر نمک کے اچھا نہیں ہوسکتا۔
حضور ﷺکا یہ بھی ارشاد ہے کہ: اللہ سے میرے صحابہ ثکے بارے میں ڈرو، اُن کو مَلامَت کا نشانہ نہ بناؤ، جو شخص اُن سے مَحبت رکھتا ہے میری محبت کی وجہ سے اُن سے محبت رکھتا ہے، اور جو اُن سے بُغض رکھتا ہے وہ میرے بُغض کی وجہ سے بُغض رکھتا ہے، جو شخص اُن کو اَذِیَّت دے اُس نے مجھ کو اَذِیَّت دی، اور جس نے مجھ کو اَذِیَّت دی اُس نے اللہ کو اَذِیَّت دی، اور جوشخص اللہ کو اَذِیّت دیتا ہے قریب ہے کہ پکڑ میں آجائے۔
حضور ﷺ کا یہ بھی ارشاد ہے کہ: میرے صحابہ ث کو گالیاں نہ دیا کرو، اگر تم میں سے کوئی شخص اُحُد کے پہاڑ کی برابر سونا خرچ کرے، تو وہ ثواب کے اعتبار سے صحابہ ث کے ایک مُد یا آدھے مُد کی برابر بھی نہیں ہوسکتا۔
اورحضور ﷺکا ارشاد ہے کہ: جو شخص صحابہ ث کو گالیاںدے اُس پر اللہ کی لَعنت، اور فرشتوں کی لعنت، اور تمام آدمیوں کی لعنت؛ نہ
اُس کافرض مَقبول ہے نہ نفل۔
حضور ﷺکا ارشاد ہے کہ: اللہ تعالیٰ نے انبیاء عَلَیْہِمُ السَّلَامُ کے علاوہ تمام مخلوق میںسے میرے صحابہ ثکو چھانٹا ہے، اور اُن میں سے چار کومُمتاز کیا ہے: ابوبکر، عمر، عثمان، علی؛ اِن کومیرے سب صحابہ ث سے افضل قرار دیا۔
اَیوب سَختیانیؒ کہتے ہیں کہ: جس شخص نے ابوبکر ص سے محبت کی اُس نے دِین کوسیدھا کیا، اور جس نے عمر صسے محبت کی اُس نے دِین کے وَاضح راستے کو پالیا، اور جس نے عثمان صسے محبت کی وہ اللہ کے نور کے ساتھ مُنوَّر ہوا، اور جس نے علیص سے محبت کی اُس نے دِین کی مضبوط رَسِّی کو پکڑ لیا، جوصحابہ ث کی تعریف کرتا ہے وہ نِفاق سے بَری ہے، اور جو صحابہ ث کی بے ادبی کرتا ہے وہ بدعتی، مُنافِق، سنت کامُخالِف ہے، مجھے اندیشہ ہے کہ اُس کاکوئی عمل قَبول نہ ہو یہاں تک کہ اُن سب کومحبوب رکھے اور اُن کی طرف سے دل صاف ہو۔
ایک حدیث میں حضورﷺ کا ارشاد ہے کہ: اے لوگو! مَیں ابوبکر سے خوش ہوں تم لوگ اُن کا مرتبہ پہچانو، مَیں عمرسے، علی سے، عثمان سے، طلحہ سے، زبیر سے، سعدسے، سعیدسے، عبدالرحمن بن عوف سے، ابوعُبیدہ سے خوش ہوں، تم لوگ اِن کا مرتبہ پہچانو۔ اے لوگو! اللہ جَلَّ شَانُہٗنے بدر کی لڑائی میں شریک ہونے والوں کی اور حُدیبِیہ کی لڑائی میں شریک ہونے والوں کی مغفرت فرمادی، تم میرے صحابہ کے بارے میں میری رِعایت کیا کرو، اور اُن لوگوں کے بارے میں جن کی بیٹیاں میرے نکاح میں ہیں، یا میری بیٹیاں اُن کے نکاح میں ہیں، ایسا نہ ہو کہ یہ لوگ قِیامت میں تم سے کسی قِسم کے ظلم کامُطالَبہ کریں،کہ وہ مُعاف نہیں کیاجائے گا۔
ایک جگہ ارشاد ہے کہ: میرے صحابہ اور میرے دامادوں میں میری رِعایت کیا کرو، جو شخص اُن کے بارے میں میری رِعایت کرے گا اللہ تَعَالیٰ شَانُہٗ دنیا اور آخرت میں اُس کی حِفاظت فرمائیںگے، اور جو اُن کے بارے میں میری رِعایت نہ کرے گا اللہ تعالیٰ اُس سے بَری ہیں، اور جس سے اللہ تعالیٰ بَری ہیں، کیا بعید ہے کہ کسی گِرفت میں آجائے!۔
حضورﷺسے یہ بھی نقل کیا گیا ہے کہ: جوشخص صحابہ کے بارے میں میری رِعایت کرے گا مَیں قِیامت کے دن اُس کامُحافِظ ہوںگا۔
ایک جگہ ارشاد ہے کہ: جومیرے صحابہ کے بارے میں میری
رِعایت رکھے گا وہ میرے پاس حوضِ کوثر پر پہنچ سکے گا، اور جو اُن کے بارے میں میری رعایت نہ کرے گا وہ میرے پاس حوضِ کوثر تک نہیں پہنچ سکے گا، اور مجھے صرف دُور ہی سے دیکھے گا۔
سَہَل بن عبداللہؒ کہتے ہیں کہ: جوشخص حضورﷺ کے صحابہ ص کی تعظیم نہ کرے، وہ حضور ﷺہی پر ایمان نہیں لایا۔
اللہ جَلَّ شَانُہٗ اپنے لُطف وفضل سے اپنی گِرفت سے اور اپنے محبوب کے عِتاب سے مجھ کو اور میرے دوستوں کو، میرے مُحسِنوں کو اور مِلنے والوں کو، اور مَشائخ کو، تلامذہ کو اور سب مؤمنین کومحفوظ رکھے، اور اُن حضراتِ صحابۂ کرام رَضِيَ اللہُ عَنْہُمْ أَجْمَعِیْنَ کی محبت سے ہمارے دلوں کو بھر دے۔
اٰمِیْنَ بِرَحْمَتِكَ یَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ! وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ، وَالصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ الْأَتَمَّانِ وَالْأَکْمَلَانِ عَلیٰ سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ، وَعَلیٰ اٰلِہٖ وَأَصْحَابِہِ الطَّیِّبِیْنَ الطَّاہِرِیْنَ، وَعَلیٰ أَتْبَاعِہٖ وَأَتْبَاعِہِمْ وَحَمَلَۃِ الدِّیْنِ الْمَتِیْنِ.
زکریا عفی عنہ کاندھلوی
مُقِیم مدرسہ مَظاہِر علوم سہارن پور ۱۲؍ شوال ۱۳۵۷ھ دوشنبہ