تحریک ختم نبوت 1953ء میں ایک عورت اپنے بیٹے کی بارات لے کر دلی دروازۂ کی جانب آ رہی تھی۔ سامنے سے تڑتڑ کی آواز آئی۔ معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ آقائے نامدار ﷺ کی عزت و ناموس کے لئے لوگ سینہ تانے، بٹن کھول کر گولیاں کھا رہے ہیں تو بارات کو معذرت کر کے رخصت کر دیا۔ بیٹے کو بلا کر کہا کہ بیٹا! آج کے دن کے لئے میں نے تمہیں جنا تھا، جاؤ آقا ﷺ کی عزت پر قربان ہو کر دودھ بخشوا جاؤ۔ میں تمہاری شادی اس دنیا میں نہیں بلکہ آخرت میں کروں گی اور تمہاری بارات میں آقائے نامدار ﷺ کو مدعو کروں گی۔ جاؤ پروانہ وار شہید ہو جاؤ تا کہ میں فخر کر سکوں کہ میں بھی شہید کی ماں ہوں، بیٹا ایسا سعادت مند تھا کہ تحریک میں ماں کے حکم پر آقائے نامدار ﷺ کی عزت کے لئے شہید ہو گیا۔ جب لاش لائی گئی تو گولی کا کوئی نشان پشت پر نہ تھا۔تحریک ختم نبوت میں ایک طالب علم کتابیں ہاتھ میں لئے کالج جا رہا تھا۔ سامنے تحریک کے لوگوں پر گولیاں چل رہی تھیں، کتابیں رکھ کر جلوس کی طرف بڑھا، کسی نے پوچھا یہ کیا؟ جواب میں کہا کہ آج تک پڑھتا رہا ہوں، آج عمل کرنے جا رہا ہوں، جاتے ہی ران پر گولی لگی، گر گیا۔ پولیس والے نے آ کر اٹھایا تو شیر کی طرح گرجدار آواز میں کہا کہ ظالم گولی ران پر کیوں ماری ہے؟ عشق مصطفی ﷺ تو دل میں ہے، یہاں دل پر گولی مارو تا کہ قلب و جگر کو سکون ملے۔ اس تحریک میں جو آدمی بھی شریک ہوتا تھا، یہ طے کر کے آتا تھا کہ وہ ناموس مصطفی ﷺ کے لئے جان دے دے گا۔ پولیس نے لاٹھی چارج کیا، لوگ لاٹھیاں کھاتے رہے۔ ایک نوجوان کے پاس حمائل (قرآن)شریف تھی۔ فردوس شاہ ڈی ایس پی نے ٹھوکر ماری، نوجوان گر گیا، حمائل شریف دورجا گری اورپھٹ گئی۔ فردوس شاہ کو لوگوں نے موقع پر قتل کر دیا۔ قرآن مجید کی بے حرمتی کرنے والا اپنے منطقی انجام کوپہنچ گیا۔ اسی تحریک میں کرفیو لگ گیا، اذان کے وقت ایک مسلمان کرفیو کی خلاف ورزی کر کے آگے بڑھا، مسجد میں پہنچ کر اذان دی، ابھی اللہ اکبر کہہ پایا تھا کہ گولی لگی، ڈھیر ہو گیا، دوسرا مسلمان آگے بڑھا، اس نے اشہد ان لا الٰہ اللہ کہا تھا کہ گولی لگی، ڈھیر ہو گیا، تیسرا مسلمان آگے بڑھا، ان کی لاشوں پر کھڑا ہو کر اشہد ان محمد رسول اللہ کہا کہ گولی لگی، ڈھیر ہو گیا،چوتھا آدمی بڑھا، تین کی لاشوں پر کھڑے ہو کر کہا حی علی الصلوٰۃ کہ گولی لگی، ڈھیر ہو گیا، پانچواں مسلمان بڑھا۔،غرضیکہ باری باری نو مسلمان شہید ہوگئے مگر اذان پوری کر کے چھوڑی۔ خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را۔ تحریک ختم نبوت میں ایک مسلمان دیوانہ وار لاہورکی سڑکوں پر ختم نبوت زندہ باد کے نعرے لگا رہا تھا، پولیس نے پکڑ کر تھپڑ مارا، اس پر اس نے پھر ختم نبوت زندہ باد کا نعرہ لگایا۔ پولیس والے نے بندوق کا بٹ مارا، اس نے پھر نعرہ لگایا۔ وہ مارتے رہے، یہ نعرہ لگاتا رہا۔ اسے اٹھا کر گاڑی میں ڈالا، یہ زخموں سے چور چور، پھر بھی ختم نبوت زندہ باد کے نعرے لگاتا رہا۔ اسے گاڑی سے اتارا گیا تو بھی وہ نعرہ لگاتا رہا۔ اسے فوجی عدالت میں لایا گیا، اس نے عدالت میں آتے ہی ختم نبوت زندہ باد کا نعرہ لگایا۔ فوجی نے کہا، ایک سال سزا، اس نے سال کی سزا سن کر پھر ختم نبوت زندہ باد کا نعرہ لگایا۔ اس نے سزا دو سال کر دی، اس نے پھر نعرہ لگایا غرضیکہ فوجی سزا بڑھاتا رہا اوریہ مسلمان نعرہ ختم نبوت بلند کرتا رہا۔ فوجی عدالت جب بیس سال پر پہنچی، دیکھا کہ بیس سال کی سزا سن کر یہ پھر بھی نعرہ سے باز نہیں آ رہا تو فوجی عدالت نے کہا کہ باہر لے جا کر گولی مار دو۔ اس نے گولی کا سن کر دیوانہ وار رقص شروع کر دیا اور ساتھ ختم نبوت زندہ باد، ختم نبوت زندہ باد کے فلک شگاف ترانہ سے ایمان پرور، وجد آفریں کیفیت طاری کر دی۔ یہ حالت دیکھ کر عدالت نے کہا کہ رہا کر دو، یہ دیوانہ ہے۔ اس نے رہائی کا سن کر پھر نعرہ لگایا، ختم نبوت زندہ باد۔اسی تحریک میں دہلی دروازۂ لاہورکے باہر صبح سے عصر تک جلوس نکلتے رہے اور دیوانہ وار سینوں پر گولیاں کھا کر آقائے نامدار ﷺ کی عزت و ناموس پر جان قربان کرتے رہے۔ عصر کے بعد جب جلوس نکلنے بند ہو گئے تو ایک 80سالہ بوڑھا اپنے معصوم پانچ سالہ بچے کواپنے کندھے پر اٹھا کر لایا۔ باپ نے ختم نبوت کا نعرہ لگایا، معصوم بچے نے جو باپ سے سبق پڑھا تھا، اس کے مطابق زندہ باد کہا۔ دو گولیاں آئیں، 80سالہ بوڑھے باپ اورپانچ سالہ معصوم بچے کے سینہ سے شائیں کر کے گزر گئیں، دونوں شہید ہو گئے مگر تاریخ میں اس نئے باب کا اضافہ کر گئے کہ اگر آقائے نامدار ﷺ کی عزت و ناموس پرمشکل وقت آئے تو مسلمان قوم کے 80سالہ بوڑھے خمیدہ کمر سے لے کر پانچ سالہ معصوم بچے تک سب جان دے کر اپنے پیارے آقاؐ کی عزت و ناموس کا تحفظ کرتے ہیں۔آغا شورش کاشمیری کہتے ہیں کہ ایک سپرنٹنڈنٹ پولیس نے خود راقم سے بیان کیا تھا کہ ہر روز کے مظاہروں کو سمیٹنے کے لئے تشدد کی نیو اٹھا کر تحریک کو ختم کیا گیا۔ چنانچہ حکام نے اپنے سفید پوش اہل کاروں کی معرفت پولیس پر پتھراؤ کیا، اس طرح پر فائرنگ کی بنیاد رکھی۔ بعض منچلے قادیانی اپنی جیپوں میں سوار ہو کر مسلمانوں پر گولیاں داغتے اور انہیں شہید کرتے رہے۔ شورش کابیان ہے کہ میں نے لاہور میں چینز لنچ ہوم مال روڈ پر اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ 15سے 22سال کی عمر کے نوجوانوں کا ایک مختصر سا جلوس کلمہ طیبہ کا ورد کرتے ہوئے جا رہا تھا۔ وہ ایک بے ضمیر سپرنٹنڈنٹ پولیس ڈی۔ سی۔ آئی ملک حبیب اللہ کے حکم پر کسی وارننگ کے بغیر فائرنگ کا ہدف بنا۔ آٹھ دس نوجوان شہید ہو گئے۔ ان کی لاشوں کو ملک صاحب نے اپنے ماتحتوں سے ٹرکوں میں اس طرح پھینکوایا جس طرح جانورشکار کئے جاتے ہیں۔ یہ نظارہ انتہائی دردناک تھا۔لاہور چھاؤنی میں ایک قادیانی افسر نے گولیوں کی بوچھاڑ کی لیکن گولی کھانے والوں نے انتہائی استقامت اورکردار کی پختگی کا ثبوت دیا۔ ایک نوجوان ملٹری ہسپتال میں زخموں سے چور چور بے ہوش پڑا تھا۔ جب اسے قدرے ہوش آیا تو اس نے پہلا سوال سرجن سے یہ کیا کہ میرے چہرے پر کسی خوف یا اضمحلال کے نشان تو نہیں ہیں؟ جب اسے کہا گیا کہ نہیں تو اس کا چہرہ وفورِ مسرت سے چمک اٹھا،اس تحریک میں ساڑھے تیرہ ہزار لوگوں نے ناموس رسالت کے لئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے۔ جن لوگوں کو علماء سمیت گرفتار کر کے لاہورکے شاہی قلعہ میں تفتیش کے لئے رکھا گیا، ان کے ساتھ پولیس نے اخلاق باختگی کا سلوک کیا۔ ایک انتہائی ذلیل ڈی۔ ایس۔ پی کو ان پر مامورکیا۔ وہ علماء کو اس قدر فحش و فاش گالیاں دیتا اور عریاں فقرے کستا۔ تحریک ختم نبوت میں جن لوگوں کو مارشل لاء کے تحت سزائیں ہوئیں وہ سب کے سب لاہور سنٹرجیل میں ہی اپنی سزاکاٹ رہے تھے،ان کی خواہش ہوئی کہ امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری سے ملاقات کریں۔چنانچہ ایک دن صبح کے ناشتے پر بیٹھے ہی تھے کہ دیوانی احاطہ کے انچارج نے حضرت امیر شریعت سے عرض کیا کہ اسیرانِ ختم نبوت شوق دید میں حاضرہونا چاہتے ہیں۔حضرت امیر شریعت ننگے پاؤں اور ننگے سر ان لوگوں سے ملنے کے لئے بے محابہ دروازے پر پہنچ گئے قیدیوں نے ہتھکڑیوں اور بیڑویوں کی جھنکار سے امیر شریعت کا استقبال کیا۔امیرشریعت نے اسیرانِ ختم نبوت کو گلے لگایا اور ان کے آہنی زیورات کوبوسہ دیا اور اشک بار آنکھوں اور اور غم ناک لہجے میں فرمایا،آپ لوگ میراسرمایہ نجات ہیں،میں نے دنیا میں آپ کوروٹی،پیٹ یا کسی مادی مفادکے لئے نہیں پکارا۔لوگ اس کے لئے بھی بڑی بڑی قربانیاں پیش کرتے ہیں میں نے تو آپ کو اپنے ناناحضرت خاتم النبیین ﷺکی عزت وناموس کے تحفظ کی دعوت دی ہے اور آپ لوگ صرف اور صرف اس مقدس مقصدکے لئے قید وبند اور طوق وسلاسل کی یہ صعوبتیں برداشت کررہے ہیں۔آپ میں سے ایسا کوئی نہیں،جوسیاسی شہرت یاذاتی وجاہت چاہتا ہو۔آپ جیل میں بھی غیرمعروف ہیں اور جب اس دیوارِ زنداں سے رہاہوں گے،توباہر آپ کا استقبال کرنے والا اور پھولوں کے ہار ڈال کر نعرے لگانے والابھی کوئی نہیں ہوگا۔اس موقع جب ایک قیدی نے دووسرے قیدی کا تعارف کراتے ہوئے کہا،شاہ جی! تحریک میں اس کابھائی گولی کانشانہ بن چکاہے اس کے لئے دعافرمائیں۔تو حضرت امیر شریعت نے تحریک کے دوران حکومت کی طرف سے متشددانہ کاروائیوں کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا۔کاش!مجھے کوئی باہر لے جائے یا ارباب اقتدار تک میری یہ آرزو پہنچادے کہ تحفظ ناموس رسول ﷺ کے سلسلہ میں اگرکسی کوگولی مارناضروری ہو تو وہ گولی میرے سینے میں مارکرٹھنڈی کرلو۔کیونکہ میں اس جرم کا سب سے بڑامجرم ہوں اور کاش!اس سلسلہ میں اب تک جتنی گولیاں چلائی گئی ہیں وہ مجھے ٹکٹکی پرباندھ کر ماردی جاتیں۔ 19جون 1953ء کو گورنرپنجاب نے آرڈی ننس نمبر۲ 1953ء صادرکیا جس کی روسے ان واقعات کی تحقیقات مقصودتھی،جن کے باعث 1953ء میں مسلمانوں اور قادیانیوں کے درمیان ہنگامہ ہوا۔چنانچہ چیف جسٹس مسٹر محمدمنیر (صدر تحقیقات عدالت)اور مسٹر ایم آر کیانی (ممبرتحقیقات عدالت)پرمشتمل ایک ڈویژن بینچ مقررکیا،جس نے یکم جولائی 1953ء اپنی کاروائی کاآغازکیا۔اس مقصدکے لئے حضرت امیرشریعت ؒ اور ان کے رفقاء کو سکھرجیل سے لاہور سنٹرل جیل منتقل کردیاگیا۔تحریک ختم نبوت کے دیگر قیدی جن میں شیخ احسام الدین ؒ،مولانا محمدعلی جالندھری،ؒ مولانا محمدحیات ؒ پہلے سے اسی جیل میں پابندسلاسل تھے۔امیر شریعت ؒ اور مولاناابولحسنات ؒکو بھی یہاں محبوس کردیا گیا۔حضرت امیر شریعت ؒ کی رائے تھی کہ ہمیں اس تحقیقاتی بینچ سے تعاون نہیں کرناچاہئے اور باقی زندگی جیل ہی میں گزارنی چاہئے،اور اگرتعاون کرنی ہے تو مشروط طورپر،مگر اکثریت کے رائے کے مطابق تحقیقاتی بینچ سے تعاون کا فیصلہ کیاگیا۔انہی دونوں مولانا داؤدغزنوی ایک تحریری بیان لے کرلاہورسنٹرل جیل پہنچے،اور کہا کہ مجھے وزیر اعظم مغربی پاکستان جناب فیروزخان نون نے بھیجا ہے کہ آگر آپ حضرات اس بیان پر دستخط کردیں تو حکومت آپ لوگوں کو رہاکرنے کے لئے تیار ہے۔بیان کا متن درج ذیل ہے۔”تحریک ختم نبوت چلانے کا ہمارا اس طرح کا کوئی ارادہ نہیں تھا اور نہ ہی آئندہ ہم ایسی کسی تحریک چلانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ماضی قریب میں جو کچھ ہوا اس میں عوام کو زیادہ دخل تھا۔ہم حکومت کو یقین دلاتے ہیں کہ آئندہ ہم ایسی کوئی تحریک نہیں چلائیں گے جس سے ملک کا امن خطرے میں پڑجائے۔“مولانا موصوف کو دوسرے دن جواب دینے کو کہا گیا۔امیر شریعت نے رات بھر اپنے دوستوں سے مشورہ کرنے کے بعد فیصلہ کیا:اس تحریرپر دستخط کرنے سے بہترہے کہ جیل کے غیر اخلاقی قیدیوں کے ہاتھوں قتل ہوجائیں۔یہ تحریر ہماری سیاسی ومذہبی موت کے مترادف ہے چنانچہ دوسرے دن مولانا داؤدغزنوی تشریف لائے تو حضرت امیر شریعت کی ان سے کافی تلخ کلامی ہوئی۔اسی طرح ایک مذہبی وسیاسی جماعت نے بھی اس تحریک کاساراجرم”مجلس احرار“پر ڈال کر اپنی برأت کا اعلان کیا۔اسی اثناء میں تحریک کے رہنماؤں کی طرف سے لاہور ہائی کورٹ میں ایک رٹ دائرکردی گئی جس کی بناء پر 28فروری1954ء حضرت امیر شریعت سمیت تمام اسیرانِ ختم نبوت کو رہاکردیاگیا اور یوں اس قافلہ عشق ووفاکو ایک سال ساڑھے آٹھ ماہ کی قید،کراچی، سکھرسنٹرل،اور سنٹرل جیل لاہور میں گزارنے کے بعد رہائی ملی۔