کہا جاتا ہے کہ دنیا کے نقشے میں پاکستان پہلا ملک ہے جو اسلام اور صرف اسلام کے نام سے وجود میں آیا، یعنی قیامِ پاکستان کے لیے جو سیاسی سطح پر جد وجہد ہوئی وہ صرف اسلام کے نام سے ہوئی۔ متحدہ ہندوستان میں جو تحریک چلا ئی گئی تمام مسلمانوں کو متحد کیا گیا او رسیاسی تنظیم جس انداز سے ہوئی وہ صرف اسلام کے نام پر ہوئی، عوام یہی سمجھے، خواص یہی سمجھے، علماء یہی سمجھے، جاہل یہی سمجھے، تجارت پیشہ حضرات یہی سمجھے اور مزدورکاریہی سمجھے، غرض قوم کے تمام افراد سے یہی کہا گیا اور اسی انداز سے اتحاد کی کوششیں ہوئیں اور عوام کو یہی باور کر ایا گیا کہ پاکستان کے معنی ہیں: ’’لا إلٰہ إلا اللّٰہ‘‘۔
البتہ خواص الخواص یا او نچے قائدین یا بر طانیہ کے اربابِ اقتدار کچھ اور سمجھے ہوں تو ہوسکتا ہے، بلکہ اس کا یقین ہوتا جارہا ہے کہ ان کی نیت کچھ اور تھی، اوربعد کے حالات سے کچھ اس کی تائید ہوتی ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ اتنے بلند بانگ دعووں کے باوجود آج تک پاکستان میں ان حقائق کا خواب شر مندۂ تعبیرنہ ہو سکا جن کا عوام کو یقین دلا یا گیا تھا۔ کاش! عوام کو اپنی حالت پر چھوڑتے تو اسلام اتنا رُسوا نہ ہوتا۔ تاجر طبقہ نے کارخانے اور انڈسٹریاں چلاکر مالی و اقتصادی ملک کی حالت مضبوط کی اور علماء امت اور صالحین نے دینی ادارے، دینی مراکز، مساجد وغیرہ دینی نظام کی حفاظت کی۔ پاکستان ایک باوقار مملکت کی حیثیت سے دنیا کی سطح پر اُبھرا، لیکن افسوس کہ عرصۂ دراز تک آئینِ اسلامی سے محروم رہا، وہی بر طانیہ کا متعفن نظام جاری رہا اور اب بھی ہے۔ کچھ عرصہ سے برائے نام آئینِ اسلامی وجود میں بھی آیا تو اس کے مطابق قانون سازی کا نظام اب تک شرمندۂ عمل نہ ہو سکا، بلکہ اسلام کی بیخ کنی کے لیے تد بیر یں اختیار کی گئیں، جن کے دہر انے کی ضرورت نہیں۔
ما خانہ رمیدگان ظلمیم
پیغامِ خوش از دیارِ ما نیست
اسلام کانام لے کر اسلام سے دشمنی
عقل حیران ہے کہ اس بد نصیب ملک کا کیا انجام ہوگا۔ قدرت کی طرف سے ایک شد ید سزا مل گئی اور نصف پاکستان ختم کر دیا گیا، بقیہ نصف کا اللہ تعالیٰ حافظ وناصر ہو، لیکن اب تک نہ صرف یہ کہ ہوش نہیں آرہا ہے، بلکہ غفلت وبے حسی انتہا تک پہنچ گئی۔ اسلام کے نام سے تمام اسلام کے ساتھ بدترین عداوت کا جو معاملہ ہورہا ہے اس کے تصور سے بھی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ ایک طر ف اگر پنجاب اسمبلی میں قرآن وسنت کی روشنی میں اقتصادی نظام کی باتیں سنائی دے رہی ہیں تو دوسری طرف سوشلزم کے نعرے اتنے زور سے لگائے جارہے ہیں کہ کانوں کے پردے پھٹنے کوآگئے۔ تعجب ہے کہ پنجاب اسمبلی نظامِ زکاۃ رائج کر کے زکوٰۃوصول کرنے کی قر ار داد منظور کراررہی ہے، گویا باقی سارا اسلامی نظام تو رائج ہوگیا، زکاۃ کے نظام کو درست کر نے کی تد بیر سوچی جارہی ہے۔ کون نہیں جانتا کہ نماز اسلام کی بنیاد اور بنیادی رکن ہے، اس کے لیے تو کوئی تد بیر نہ سو چی جائے، اسلامی عقائد کی حفاظت کی کوئی تد بیر نہ سو چی جائے، روزہ کی حفاظت کی کوئی تد بیر نہ کی جائے اور ملک میں ماہِ رمضان المبارک میں تمام ہوٹل کھلے رہیں، کوئی احتساب نہیں، شراب وزنا کے لائسنس جاری کیے جاتے ہیں، عریانی وفحاشی کو ہر صورت میں ہوادی جارہی ہے، اس صورت حال میں صرف زکاۃ کے نظام سے کیا تمام اسلامی نظام قائم ہو جائے گا؟ ہمیں تو اندیشہ ہے کہ صالح طبقہ کے لوگ اپنے اموال کی زکاۃ سے معاشرے کے نادار افراد کی جو خدمت کر ناچاہتے ہیں اس کا در وازہ بھی بند ہوجائے گا۔ زکاۃ کے مالی نظام پر قبضہ کر کے جو حضرات اپنے صد قات وز کوۃ سے اقارب اور فقراء ونادار حضرات کی ہمدردی کرتے ہیں اور کچھ دینی ادارے چلا رہے ہیں اس کو بھی گو یا ختم کیا جارہا ہے۔ عرصہ سے بارہا یہ کوشش کی گئی جو ناکام ہوئی، خدارااس قوم پر رحم کر واور اگر تم سے اس کی صحیح دینی تر بیت نہیں ہوسکتی تو اس کو اپنی حالت پر چھوڑ و۔ اربابِ خیر کے لیے ایک ہی دینی راستہ فقراء اور اصحابِ حاجات کی خدمت کرنے کے لیے تھا وہ بھی بند کرنا چاہتے ہو۔ سینکڑوں مسائل ملک میں موجود ہیں ، شراب پر پابندی لگانے کے لیے کوئی قرار داد پیش نہ ہو سکی، زنا کے کھلے لائسنس دینے کے لیے کوئی قانون نہ بن سکا ، نائٹ کلبوں میں جو بے حیائی وعر یانی کے روح فر سا منا ظر موجود ہیں ان کے لیے کوئی بل پا رلیمنٹ میں نہ آسکا، ملک میں جو روز افزوں فحاشی وبے حیائی ہورہی ہے اس کے لیے کوئی قرار داد منظور نہ ہو سکی، سینما اور ٹی دی پر جو کچھ دردناک روح فر ساگندگی اچھا لی جارہی ہے اس کے لیے کوئی تد بیر نہیں کی جارہی ہے، ملک میں رشوت ستانی نے قوم کو تباہی وہلاکت کے گڑھے میں پہنچا دیا ہے اس کے لیے کوئی مؤ ثر غور وفکر نہ ہو سکا۔ خدا فراموش قوم کو باخد ابنا نے کے لیے کوئی مؤ ثر قدم اُٹھا نے کی تو فیق تو نصیب نہیں ہوئی، اگر رہ گیا تو بس ایک ز کاۃ کا مسئلہ ؟ !
اسلامی قانون بنانے کے لیے آج تک کوئی قدم نہیں اُٹھایا گیا، حق تعالیٰ کے غضب کو دعوت دینے والے غیر اللہ کے قوانین پر آج تک محاکم میں فیصلے ہورہے ہیں، اس کے لیے کوئی بل یا قرارداد پیش نہ کی گئی کہ اس لعنت کو اس ملک سے دور کیا جائے، اس کے لیے کیا کیا گیا؟! پاکستان اسلام کے لیے بنا یا گیا تھا، تعلیماتی بورڈ سے لے کر مشاورتی کو نسل تک اسلام کا کا م بجز دغا کے کیا کیا گیا؟! مسلمانوں کا ایک کلمہ طیبہ اسلام کا متفقہ کلمہ رہ گیا تھا اس کو بھی ڈائنامیٹ لگا نے کی کوشش جاری ہے۔ منیر رپورٹ (رُسوائے عالم رپورٹ) نے اسلام پر کیسے آرے چلا دیئے؟ کیا اسلام اسی کانام رہ گیا ہے کہ سیرت کا نگرس یا سیرت کا نفر نس کر کے اپنے اسلام کا ثبوت دیا جائے؟ ادارہ تحقیقات قائم کر کے قوم کا لاکھوں روپیہ خرچ کر کے الحادو زندیقیت کا بیج ڈالا جائے؟ اور اسلامی عقائد کو مسخ کر کے رکھ دیا جائے؟ کیا یہ اسلام کی خدمت ہو گی؟! الغرض قیامِ پاکستان کے طویل عرصہ میں وہ کون سی بے حیائی اور کون ساگناہ ہے جس کی پر ورش نہ کی گئی ہو؟ اسلام کے چہرہ کو مسخ کر کے کیا کچھ نہیں کیا جارہا ہے ؟ ایک زکاۃ کا مسئلہ رہ گیا کہ اس کو حل کیا جائے ؟ اللہ تعالیٰ رحم فرمائے اور صحیح سمجھ عطا فرمائے اور اسلام کی حفاظت کی غیبی تد بیر فرمائے، آمین۔
پاکستان میں اسلامی شعائر کا احترام اور اس کی وجہ
اگر قریب سے تمام عالمِ اسلام کا جائز ہ لیا جائے تو معلوم ہوجائے گا کہ الحمد للہ پاکستان میں اب بھی اسلامی شعائر کی تعظیم واحترام بقیہ ملکوں سے بہت زیادہ موجود ہے۔ پاکستانی عوام کے ذریعہ آج بہت کچھ دینی چہل پہل برقرار ہے۔ پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد یہ تمام مسجد یں، دینی ادارے، مدرسے، مکتب اور ان میں حکومت کے اثر سے آزادد ینی خدمات جس قدر انجام پارہی ہیں یہ سب پاکستان کے عام اربابِ خیر کی دینی حمیت اور کوششوں کا نتیجہ ہے، روئے زمین کے کسی ملک کے مسلمان بھی اس معاملہ میں پاکستانی اربابِ خیر کی ہم سری نہیں کر سکتے۔
بر طانوی اقتدار کے دور میں ہمارے اکا بر واسلاف نے جب یہ محسوس کیا کہ حکومت اور طاقت اب غیر اسلامی ہاتھوں میں جارہی ہے اور آئندہ حکومتوں سے کسی خیر اور دینی حمیت کی تو قع نظر نہیں آتی، اب تو عام مسلمانوں کی مذہبی اور اخلاقی رہنمائی کی غرض سے دینی خد مات جو بھی ہوں آزاد دینی معاہد ومدارس اور دار الا فتاء یا مساجد وخانقا ہوں کے ذریعہ انجام دینی ہوں گی اور خود مسلمانوں خصوصاً عوام کو ان کی کفالت کرنی ہو گی۔ اس عاقبت اندیشی کا نتیجہ ہے کہ دینی شعائر کا قیام حکمرانوں کے ہاتھوں سے منتقل ہو کر عام مسلمانوں کے ہاتھ میں آگیا اور تمام دینی نظام کا دارو مدار آزاد اربابِ خیر اور آزاد اربابِ علم وفکر کی مساعی وتو جہات پر ہوگیا۔ چنانچہ حکمران کافر تھے، جب بھی دین اس ملک میں اسی طرح باقی رہا اور خدا کے فضل سے یہی سنت مستقل طور پر قائم ہوگئی، لیکن دوسرے اسلامی ممالک میں حالات اس سے مختلف رہے۔ آج تک مساجد کی تعمیر جا معات ومعاہد کی تاسیس اور تمام دینی نظام کی کفالت حکومت کے ذمہ ہے، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان ملکوں میں جہاں اسلامی حکومت کا دینی مزاج بگڑ گیا تمام دینی نظام بھی اس سے متاثر ہوئے۔ کم وبیش یہی تمام اسلامی ممالک کا حال ہے۔ الحمد للہ کہ تمام پا کستان میں جو کچھ دینی رونق ہے وہ پاکستانی مسلمانوں کی جد وجہد کی مر ہونِ منت ہے اور اس کا افسوس ہے کہ حکومت اسلامی کہلا نے کے باوجود اس میں کوئی حصہ نہیں لیتی اور شاید حق تعالیٰ کے تکو ینی نظام کی مصلحت وحکمت یہی ہو۔
بر طانوی اقتدار اور حکومت سے جہاں روح فر سا اذیتیں مسلمانوں کو متحدہ ہندو ستان میں پہنچیں وہاں ایک عظیم فائدہ بھی مسلمانوں کو پہنچا کہ انہوں نے دینی خدمتوں کی خود کفالت کرنا اور ان کو حکومت کے اثر سے آزاد رکھنا سیکھ لیا۔ بلاشبہ آج بھی پاکستان تمام عالمِ اسلام کی دینی قیادت کی اہلیت رکھتا ہے اور دینی اقدار تمام عالم سے زیادہ اس خطۂ پاک میں نمایاں ہیں۔ تمام عالمِ اسلام خصوصاً عربی ممالک میں حکومت کے اثر سے یورپ کی نقالی کی جو وباپھیل گئی ہے‘ الحمد للہ پاکستان بد رجہاان سے بہتر حالت میں ہے۔ خدا نخواستہ پاکستانی مسلمان بھی اگر اپنی خصوصیات کھو بیٹھیں تو بس اللہ تعالیٰ ہی اسلام کی حفاظت فرمائے گا۔ ضرورت ہے کہ اس عام دینی روح اور اس عمومی دینی مزاج کو بہر صورت وبہرحالت باقی رکھا جائے۔ اسی وسیلہ سے اہالیِ پا کستان کو اللہ تعالیٰ کی رحمت کی کچھ امید ہو سکتی ہے۔