برفانی تودہ ۔(تحریر: مہوش کرن ،اسلام آباد)

0

 معاملات کی نزاکت یہاں تک آگئی ہے کہ شرم و حیاءکے معیار گر کر آسمان سے زمین پر بلکہ کیچڑ میں آپڑے ہیں لیکن جب تک قلم کا ساتھ اس ہاتھ میں ہے، میں ان معیارات کے خلاف مضبوط آواز بلند کرتی رہوں گی۔ نوشہرہ میں رہنے والی ایک نو سالہ بچی نور کو زیادتی کا نشانہ بنا کر قتل کر دیا گیا۔ ہمیشہ کی طرح رپورٹ درج ہوئی، مجرم پکڑے گئے اور امید ہے کہ کیفرِ کردار تک پہنچائیں جائیں گے۔ لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ آئے دن ایسے کیسز بڑھ رہے ہیں اور جہاں مظلوم قتل ہوجائے وہاں تو پھر بھی کیس کی رپورٹ کروائی جاتی ہے لیکن جہاں صرف زیادتی ہو تو بے چارے والدین اپنی اور بیٹی کی عزت بچانے کے لیے خاموش رہ جاتے ہیں۔

 وہ اولاد جو دنیا میں آکر شوہر و بیوی کے رشتے کو مکمل کرتی ہے، اس اولاد کے آتے ہی اس بچے یا بچی سے محبت، ہر دن نئی باتیں، شرارتیں، اس کے مستقبل سے جڑے خواب یعنی لامحدود یادوں کا ذخیرہ جمع ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ اور پھر اگر کسی گھر میں ایسا حادثہ ہو جائے تو وہاں مجرم ایک نفس کا قتل نہیں کرتے بلکہ پورے خاندان کو مار ڈالتے ہیں۔ اگر مجرم بچ جائے تو افسوس اور اگر قانون کی پاسداری کے تحت سزا پائے تو بھی جان کے بدلے جان کا قصاص تو ہو جاتا ہے لیکن پورے خاندان اور پیاروں کے پیار کا قتل بے حساب رہ جاتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ آئے دن ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں اور شرعی سزائیں نافذ نہ ہونے کی وجہ سے لوگ نڈر گھومتے ہیں ورنہ بس ایک بار بھی اگر سرِعام رجم کیا جائے یا کوڑے پڑیں تو بھلا کس میں جرات ہوگی حدود اللہ کی پامالی کرنے کی؟ جب اس طرح ہوتا ہے تو عموماً دو طرح کی سوچ رکھنے والے لوگ سامنے آتے ہیں۔ ایک وہ جو پہلے تو ڈی۔پیز لگاتے ہیں، ٹرینڈز چلاتے ہیں، سوشل میڈیا پر ایکٹو ہوکر بہت پوسٹس لگاتے ہیں لیکن پھر وقت کے ساتھ ان کا سارا جوش ٹھنڈا پڑ جاتا ہے اور وہ بھول بھال جاتے ہیں۔ دوسرے وہ لوگ ہوتے ہیں جو ان واقعات کی آڑ میں مغربی کلچر کو پروموٹ کرنے کے لیے جنسی تعلیم کے حق میں نئے سرے سے آواز اٹھانے لگتے ہیں۔

یہاں یہ بات بالکل واضح ہونی چاہیے کہ بچوں کو اجنبی ٹچ، پرائیوٹ پارٹس کی حفاظت، غیر فطری حرکتیں وغیرہ شناخت کرنا سکھانا وقت کی نہایت اہم ضرورت ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ جنسی تعلیم کے نام پر ان کو سیف سیکس سکھا دیا جائے۔ اب آتے ہیں سب سے اہم بات کی طرف کہ آخر معاشرے میں ایسے لوگوں کی پیداوار کیونکر ہو رہی ہے۔ اس سلسلے میں سب سے زیادہ اہم کردار ادا کر رہا ہے میڈیا، چاہے ٹی-وی چینلز ہوں، یوٹیوب، ٹک ٹاک، فیس بک یا کوئی اور ذریعہ لیکن یہ ہر ایک کی دسترس میں ہے۔

پی ٹی اے نے ایسی تمام ویب سائٹس وغیرہ براڈ بینڈ پر تو بند کرنے کی پابندی لگائی ہے لیکن موبائل ڈیٹا کے ذریعے کوئی بھی یہ باآسانی دیکھ سکتا ہے۔ چونکہ پورن انڈسٹریز کو لوگوں کے ویب سائٹ وزٹ سے بے تحاشہ منافع ملتا ہے اس لیے انہوں نے موبائل کمپنیز سے معاملات طے کرلیے۔ موبائل کمپنیوں نے اپنے نرخ بالکل گرا دیے، ساتھ ہی لون کی آسانی، رات بھر کے فری پیکیجز اور یوں دونوں طرف خوب منافع کمایا جا رہا ہے۔ پچھلے سال کی ایک رپورٹ کے مطابق صرف ایک پورن ویب سائٹ کو 32 بلین لوگوں نے وزٹ کیا گویا پوری دنیا کی کل آبادی سے بھی 3 گنا زیادہ۔ اس طرح سارا گندا مواد، برے ڈرامے، فحش ویڈیوز، بے ہودہ فلمیں، پورن انڈسٹری سب کچھ لوگوں کی آسان اور سستی پہنچ میں آچکا ہے۔ اِس تمام کاروباری چَڑھاو ¿ اور اخلاقی ا ±تار کی قیمت چکاتی ہیں زینب، نور اور پتا نہیں کون کون سی بیٹیاں۔

میڈیا اور ٹیکنالوجی تعلیم و ترویج کے لیے بذاتِ خود ایک بہترین میڈیم ہے لیکن جب اس پر ہر وقت اسلام مخالف پروگرام دکھائے جائیں گے تو ظاہر ہے کہ معاشرہ اسی ڈھب پر پروان چڑھے گا۔ ٹی وی چینلز بدلتے ہوئے ہر چینل پر ایک سے بڑھ کر ایک انداز میں خود کو آشکار کرتی اور ہر طرح سے اپنی نمائش کرتی عورت دکھائی دیتی ہے۔ مورننگ شوز میں مشہور سے مشہور سلیبرٹی فخر سے اپنی طلاق کے قصے سنا کر عورتوں کو آزادی کی ترغیب دیتی اور حق کے لیے آواز اٹھانے کی تربیت کرتی نظر آتی ہے اور کچھ نہیں تو وہ خود گھروں کو توڑنے والی گھر جوڑنے یعنی شادیوں کا سیزن شروع کر دیتی ہیں جہاں ناچنے اور غریبوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے سوا اور کچھ بھی نہیں ہوتا یا پھر ناچ گانے کے مقابلے ہو رہے ہوتے ہیں۔ دوسری طرف وہ گیم شوز ہیں جن میں عوام الناس کی عورتیں خود اپنے گھر کے مردوں کے سامنے بے ہودہ حرکتیں کر رہی ہوتی ہیں وہ بھی صرف چند ٹکوں کی دنیاوی چیزوں کے لیے۔ ساتھ ہی وہ ریالٹی گیم شوز ہیں جن میں ایک ہی مکان میں لڑکے لڑکیوں کو اکٹھا رہتے ہوئے دکھاتے ہیں یا پھر ایوارڈ شوز میں بے ہودہ ڈریسنگ اور غیر اخلاقی حرکتیں ہوتی ہیں اور کچھ نہیں تو اشتہارات تک میں عورتیں مختصر ترین اور جھلکتے کپڑوں میں نظر آتی ہیں۔

ڈراموں کی بات کریں تو صرف ان کے نام ہی کسی باشعور انسان کو چونکا دینے کے لیے کافی ہیں۔ کوئی بھی ڈرامہ ایسا نہیں جس میں عورت مرد کے عشق، معاشقے، جذبات، دوستیاں، مستیاں، گھومنا پھرنا، امارت، عیاشی، اونچے لوگ، غیر اخلاقی حرکتیں، بے حودہ مذاق کے علاو ¿ہ کسی دوسری چیز پر فوکس ہو۔

 ٹاپ ریٹنگ کے فریبی تماشوں، ٹی وی خبروں تک میں ڈراموں کی تشہیر، سیمنا گھروں کی حکومتی سرپرستی کے ذریعے پورے ملک میں بیہودہ، رشتوں کی دھجیاں اڑاتے، اسلامی اقدار کو پاو ¿ں تلے روندتے ڈرامے دنیا بھر میں ایک مسلم ملک کی کل آبادی کی پسند دکھائے جا رہے ہیں،،، اس سے بڑھ کر دجالیت اور دھوکہ کیا ہوگا؟

کون کہہ سکتا ہے کہ یہ وہ ملک ہے جہاں آٹے کا شدید بحران آیا ہوا ہے، گیس اور پانی کا فقدان ہے، گوشت تو ایک طرف سبزیوں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگی ہیں۔ بھلا اتنے مصائب میں کون لوگ ہیں یہ جو ان عیاشیوں پر فضول خرچی کرتے ہیں۔ یقیناً ان کی دسترس میں آٹا، گوشت، سبزی، بجلی، گیس غرض تمام سہولیاتِ زندگی ہیں تب ہی وہ بے حس ہوچکے ہیں اور دین سے بھی دوری لازم دکھائی دیتی ہے۔

ان ڈراموں کے ذریعے آنے والی نسلوں کی تیاری اس گھٹیا انداز میں ہورہی ہے کہ عورت اتنی گری ہوئی ہو کہ دولت کے لیے اپنے شوہر کو چھوڑ کر غیر مرد کے پاس چلی جائے اور مرد اتنا بے غیرت ہو کہ دوسرے کی بیوی پر غلط نگاہ رکھے اور نسلیں تو دور کھڑی ہیں، ابھی ہی لوگوں کے ایسے ایسے حالات و واقعات معلوم ہوتے ہیں جو کہ ڈراموں میں ہو رہے ہیں یا ہو چکے ہوتے ہیں۔ ان ڈراموں میں دکھائے جانے والے تمام واقعات یہاں تک کہ جملے بھی لوگ من و عن اپنی زندگیوں میں رائج کر رہے ہیں اور ان ہی ڈراموں کی وجہ سے شادی کے علاوہ تعلقات، نکاح کے بغیر دوستیاں، طلاقیں، ساس بہو شوہر بیوی ہر قسم کے گھریلو جھگڑے، گھریلو ظلم و زیادتی اتنے عام ہو چکے ہیں کہ معاشرے میں خاندانی نظام درہم برہم ہو کر رہ گیا ہے۔

اس بات پر اکثر لوگ کہتے ہیں کہ ظاہر ہے یہ سب معاشرے میں ہورہا ہے تو دکھایا بھی جائے گا حالانکہ سوچنے والی بات یہ ہے کہ یہ سب ہونا شروع ہی برائی کی ترویج سے ہوا ہے۔ کیونکہ برائی کو پھیلانا بھی اپنے آپ میں ایک برائی ہی ہے۔ جب میڈیا اتنا طاقتور ہے کہ وہ اس طرح لوگوں کی ذہن سازی کر رہا ہے اور جانے مزید کیا کیا کر سکتا ہے تو سوچیں اگر یہی میڈیا اچھائی کی ترویج کرنے لگے اور دین کو پھیلانے کا کام کرنے لگے تو یقیناً خاطر خواہ نتائج سامنے آئیں گے۔ لیکن ایسے کسی مثبت لائحہ عمل کا فی الحال کوئی امکان نہیں ہے۔

پہاڑ کی چوٹی سے جب برف کا ٹکڑا گرنا شروع ہوتا ہے تو وہ ننھا سا کنکر ہوتا ہے مگر جب تک زمین پر آکر گرتا ہے تب تک بہت بڑا سا تودا بن چکا ہوتا ہے جس کے نیچے دب کر کوئی بھی نہیں بچتا۔ یہی حال اس وقت اس معاشرے کی عورتوں اور مردوں کا ہے۔ عورتیں جب پیسے کی ریل پیل اور شاہانہ لائف اسٹائل دیکھتی ہیں تو انہیں اپنا گھر اور بچے مصیبت لگنے لگتے ہیں اور وہ اپنی ذمے داریوں سے بھاگنے یا شوہر پر پریشر ڈالنے کے لیے کمر کس لیتی ہیں اور اب زیادہ تر بھاگ ہی جاتی ہیں۔ جبکہ مرد جو شادی شدہ ہیں وہ جب بہترین اور حسین ترین اسٹارز کو سجے سنورے ہر طرف چاہے بِل بورڈز، ٹی وی چینلز یا فلموں میں دیکھتے ہیں تو انہیں اپنی بیویاں ایک آنکھ نہیں بھاتیں اور وہ انہیں کسی بھی طرح کی بے عزتی یا تشدد وغیرہ کا نشانہ بناتے ہیں۔ ساتھ ہی چھپی دوستیاں اور حرام رشتے اپنا لیتے ہیں۔ ساس بہو کے جھگڑے الگ رنگ دکھاتے ہیں یعنی خاندانی گھریلو نظام کی دھجیاں بکھر رہی ہیں جبکہ جو مرد غیر شادی شدہ ہیں ان کے پاس کوئی حلال ذریعہ نہیں تو وہ ننھی کمسن بچیوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بناتے ہیں۔

بعض لوگ کہتے ہیں وہ بچیاں تو بالغ بھی نہیں ہوئی ہوتیں یا کون سے ایسے حلیے میں گھوم رہی تھیں تو کہنے والے یہ نہیں سوچتے کہ مجرم ان بچیوں کی وجہ سے ان کے پاس نہیں جاتے بلکہ اپنی شہوت مٹانے کے لیے آسان شکار اپناتے ہیں۔ انٹرنیٹ پر بچوں کے ساتھ سیکس کی ویڈیوز موجود ہیں اور مغربی دنیا میں ایسا قانون منظور ہونے کا بھی اندیشہ ہے جس سے یہ گھٹیا چیز بھی لیگلآئز ہو جائے گی۔ اب تو یہ حال ہے کہ فحاشی دیکھ دیکھ کر مرد جانوروں کے ساتھ بھی اپنی ہوس پوری کر رہے ہیں۔

میڈیا نے ان کی سوچ کو بس اسی سمت موڑ دیا ہے۔ انتہائی برا عمل کر رہے ہیں ایسے ڈرامے بنا کر بے حیائی کو عوام الناس میں عام کر رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ماڈلز، اسٹارز ان کی پہنچ سے دور ہیں لہذا یہ کمسن بچیاں اس درندگی کی بھینٹ چڑھتی رہتی ہیں۔ مسلمانوں کی بے حسی اور پورا معاشرہ اس وقت اسلام سے دور ہونے کا منہ بولتا ثبوت دے رہا ہے۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں کوئی مرد آنکھ اٹھا کر دیکھتا نہیں تھا اور اگر دیکھ بھی لیتا تو اس کی نظریں کچھ نہ پاتیں کیونکہ ہر عورت باپردہ تھی۔ آج کے لوگ وہ احادیث اور ان کے مفہوم بھول چکے ہیں کہ اگر تم میں حیاءنہ رہے تو جو چاہے کرو اور یہ کہ حیاءکے جانے سے ایمان بھی چلا جاتا ہے۔ یقیناً اس وقت مسلمانوں کا ایمان ختم کرنے کی سرتوڑ کوشش کی جارہی ہے۔

جہاں عورت کو اس کے مقدس مقام سے ہٹا کر صرف آرائش، نمائش و تسکین کا ذریعہ بنا لیا گیا ہو وہاں گھریلو نا انصافیاں، ناچاقیاں، مار پیٹ، چھپے یا کھلے حرام رشتے، زنا، زیادتی، بے پردگی، والدین سے بد اخلاقی، تعلیم و دین سے دوری غرض ہر طرح حدود اللہ کی پامالی ہی نتیجے کے طور پر سامنے آئے گی اور آرہی ہے۔

اللہ نے اپنے کلام میں صاف صاف کہہ دیا ہے کہ جو شخص دنیا میں برائی کو پھیلانا پسند کرے گا، اس کے لیے دنیا میں بھی عذاب ہے اور آخرت میں بھی یعنی اس کا معاملہ اللہ کے ساتھ ہے اور ہمارا بھی۔ ان کو روکنا ہمارے بس میں نہیں اور نہ ہی ان کی تربیت کا ٹھیکہ ہم اٹھا سکتے ہیں۔

ہم تو بس اتنا کر سکتے ہیں کہ اپنی اولاد کی تربیت کے لیے جان توڑ محنت کریں اور اللہ سے دعا کرتے رہیں۔ والدین ہر ممکنہ خطرے سے بچوں کو آگاہی دیں۔ بیٹیوں اور بیٹوں کو پردے اور حدود کا پتا ہو، رشتوں کا احترام و حفاظت ازبر ہو، محرم نامحرم اور اجنبی کا فرق بالکل واضح ہو، جسم کی حفاظت کی ضرورت اور طریقے بتا دیے جائیں۔ ساتھ ہی تربیت کے لیے یہ یاد رکھیں کہ زبان کے استعمال سے زیادہ ہم اپنے کان استعمال کریں اور اپنے بچوں کو سنیں، ان کے مسائل کو سمجھیں، موجودہ حالات کے تناظر میں بے چارے بچے بھی بہت پریشانی کا سامنا کر رہے ہیں۔ انہیں بہت ہمت دینے اور ان کو دینی طور پر مستحکم کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ والدین خود دین پر مکمل عمل پیرا ہوں پھر اولاد کو ترغیب دیں۔ ہم سب دین پر واپس آجائیں کیونکہ اسی میں دنیا کی دھکتی آگ سے بچا ؤممکن ہے

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.