ماہِ صفر تاریخ کے آئینہ میں (حافظ مومن خان عثمانی)

چٹان
0

 ماہِ صفر اسلامی سال دوسرا قمری مہینہ ہے،اس میں ”ص“مفتوح ]زبر[اور ”ر“ساکن پڑھی جاتی ہے اور یہ ہمیشہ مذکراستعمال ہوتا ہے اس کے لغوی معنی ”خالی“کے ہیں،علامہ اصفہانی لکھتے ہیں ”ماہِ صفر کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ عرب لوگ اس مہینے میں تفریحی مقامات جنہیں ”صفریہ“کہاجاتا تھا،کا رخ کرتے وہاں خوب کھاتے پیتے دعوتیں اُڑاتے،اور یہ کہاگیا ہے کہ اس مہینے میں ان کے ہاں دودھ کی قلت ہوجاتی اور برتن خالی ہوجاتے،اس لئے اس کوصفر کہتے ہیں،مورخ مسعودی نے لکھا ہے کہ اس نام کی وجہ یہ ہے کہ اس مہینے میں یمن میں بازارلگتے جنہیں ”صفریہ“کہاجاتا،ان کا عقیدہ تھا کہ اس کی مخالفت کرنے اور اس سے روگردانی کرنے والابھوکوں مرجاتا ہے،یہ بھی کہاجاتا ہے کہ اس مہینے میں شہر خالی ہوجاتے اور لوگ لڑائیوں کے لئے نکل پڑتے، علامہ علم الدین سخاویؒ فرماتے ہیں ”ماہِ صفر کانام صفر اس لئے رکھا گیا ہے کہ عرب خصوصیت کے ساتھ اس مہینے میں اُن مختلف جنگی اور تجارتی سفروں کے لئے اپنے گھروں کو خالی چھوڑ کر نکل جایاکرتے تھے جو اس سے پہلے محرم الحرام کے تقدس اور بزرگی کی وجہ سے موقوف رکھے ہوئے تھے،چنانچہ ”صفر المکان“کامحاورہ اب بھی ہر اس مکان پر بولاجاتا ہے جو اپنے مکینوں سے خالی ہو،ارشادنبوی ہے ”اِنَّ اَصْفَرَ الْبُیُوْتِ مِنَ الْخَیْرِالخ“بے شک وہ گھر یقیناخیر وبرکت سے خالی ہیں جو اللہ کی کتاب ]قرآن پاک[سے خالی ہیں،یعنی جن گھروں میں قرآن پاک موجود نہیں نہ بصورت عمل نہ بصورت تلاوت نہ بصورت نسخہ قرآن شریف،ان گھروں میں کسی قسم کی کوئی خیر وبھلائی موجود نہیں ہے،اس کے مجازی معنی میں زرد رنگ،خشک گھاس،صفراوی امراض،نحوست،بدشگونی،عمدہ خوشبووغیرہ شامل ہیں،شریعت اسلامی میں اس مہینے کو صفر صرف اس لئے کہاجاتا ہے،تاکہ یہ بھی محرم الحرام کی طرح معصیت اور گناہ سے خالی رہے۔نحوست،بدشگونی اور مرض ایک لفظ کے مجازی یا مرادی معنی تو ہوسکتے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ قطعاًنہیں کہ ماہِ صفرمہینہ ہی مرض اورنحوست کا ہے،دورجاہلیت میں اس ماہِ صفرکو ”ناجر“بھی کہاجاتا تھا،اس طرح محرم اور صفر کو صفرین بھی کہاجاتاتھا ان میں پہلا مہینہ حرمت والاتھا جسے عرب لوگ اپنی مرضی سے کبھی محترم ٹھہراتے اور کبھی اس میں قتال کرتے اور اس کی جگہ دوسرے صفر کو محترم قراردیتے، لیکن جب اسلام آیا تو اس نے عرب کے اس رسم ”نسئی“ کوباطل قراردیا۔بعض ضعیف العقیدہ لوگ دورِ جاہلیت کی طرح آج بھی ماہِ صفر سے بدشگونی لیتے ہیں اس میں کسی کام مثلا کاروبار،مکان وغیرہ کا ابتداء نہیں کرتے،اس میں شادی کرنے سے بھی گریز کرتے ہیں،لڑکی کو رخصت نہیں کرتے،ان کا عقیدہ ہے کہ اس مہینے میں جوکام شروع کیاجائے یاشادی وغیرہ کی جائے تو اس میں خیر وبرکت نہیں رہتی،بعض لوگ اس مہینے میں سفر کرنے سے بھی گریزکرتے ہیں،اس کے ابتدائی تیرہ دن تو بہت زیادہ منحوس تصور کئے جاتے ہیں،کہاجاتا ہے کہ اس مہینے میں بلاؤں،آفات اور دیگر شروفتن کا نزول ہوتا ہے،یہ بھی کہاجاتا ہے کہ یہ مہینہ شر وبلا کا مہینہ ہے اور پورے سال میں دس لاکھ اسی ہزاربلائیں اور مصیبتیں دنیامیں انسانوں پرنازل ہوتی ہیں،جن میں نولاکھ بیس ہزار خاص کر ماہِ صفر میں نازل ہوتی ہیں ان واہیات کے متعلق من گھڑت روایات کا سہارا بھی لیا جاتا ہے،دورِ جاہلیت میں اس کو منحوس سمجھنے کی وجہ یہ تھی کہ ماہِ محرم میں جنگ وقتال کو حرام سمجھاجاتا تھا جب صفر کا مہینہ آجاتا تو جنگ وجدل اورقتال دوبارہ شروع ہوجاتا اس لئے اس کو منحوس سمجھاجاتا تھا کہ محرم الحرام کے پرامن اورپرسکون ماحول سے اس ماہ میں جنگ وجدل کا ماحول شروع ہوجاتاتھا۔سنن ابوداؤمیں حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:بدشگونی لیناشرک ہے،بدشگونی لیناشرک ہے،بدشگونی لیناشرک ہے تین بار آپ نے ارشاد فرمانے کے بعد فرمایا:ہم میں سے ہر ایک کو کوئی نہ کوئی وہم ہوہی جاتا ہے مگر اللہ تعالیٰ اسے توکل کی برکت سے زائل فرمادیتا ہے۔“بخاری شریف میں حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:]لَاعَدْوٰی [کوئی بیماری متعدی ]دوسروں کو لگنی والی [نہیں،یعنی ایک کی بیماری دوسرے کو نہیں لگتی جسے چھوت چھات بھی کہتے ہیں زمانہ جاہلیت میں لوگوں کا اعتقاد تھا کہ جوشخص کسی بیمارکے ساتھ اُٹھے بیٹھے گا،اس کے ساتھ کھائے پئے گا تو اس کی بیماری اسے بھی لگ جائے گی،اس کی تردید فرمائی گئی کہ کوئی بیماری فی نفسہٖ متعدی نہیں،موجودہ دور کا سائنس جراثیم کے ذریعے بیماری پھیلنے کا قائل ہے لیکن ساتھ یہ بھی تسلیم کرتا ہے کہ یہ جراثیم تبھی اثرکرسکتے ہیں جب جسم میں موجود قوت مدافعت کمزور پڑجائے،یعنی اگر قوت مدافعت درست ہے، اپناکام ٹھیک طریقے سے کررہی ہے تو یہ جراثیم کچھ اثر نہیں کرسکتے،گویا اصل سبب جراثیم کا وجود نہیں بلکہ جسم کے حفاظتی نظام کی کمزوری ہے لہذااس صورت میں بھی کوئی بیماری فی نفسہٖ متعدی نہیں ہے۔]وَلَاطَیْرَۃَ[ نہ بدشگونی کوئی چیز ہے،یعنی کسی چیز کو منحوس سمجھنایاکسی چیز سے بدشگونی لینا،بدفالی لیناجیساکہ دورِ جاہلیت میں پرندوں،جانوروں اور تیروں کے ذریعے دائیں یا بائیں جانے سے اچھی یابری فال وشگون لیاکرتے تھے اور توہم پرستی کی وجہ سے لوگ اپنے مقاصدسے رک جاتے تھے،کہ فال وغیرہ کے ذریعے حصولِ نفع اور دفع ضرر ہوتا ہے۔آپ ﷺنے اس چیز کی تردید فرمائی کہ کسی چیز سے بدشگونی لینے یانحوست پکڑنے کی کوئی حیثیت نہیں ]وَلَاھَامَّۃَ[ہامہ کی کوئی حقیقت نہیں،عربی میں ھامہ اُلوکوکہتے ہیں، دورِ جاہلیت میں لوگوں کا اعتقاد تھا کہ جس گھرمیں اُلوآکر بولے تو وہ گھر ویران ہوجاتا ہے یااس میں کوئی مرتا ہے اس لئے اس کو منحوس سمجھتے تھے جیساکہ آج کل بھی بعض لوگوں کا یہی خیال ہے،اسی جاہلیت کے توہمات میں یہ بات بھی تھی کہ اگرکوئی قتل ہوجائے اور اس کا بدلہ نہ لیاجائے تو مقتول کو کھوپڑی سے ایک جانور نکلتا ہے جسے ھامہ کہتے ہیں،وہ اس کی قبر پر منڈلاتا رہتا ہے اور کہتا ہے ”مجھے قاتل کا خون پلاؤ،مجھے قاتل کاخون پلاؤ،اگر مقتول کا بدلہ لیاجائے تو وہ چلاجاتا ہے ورنہ نہیں،نبی کریم ﷺنے اس قسم کے اعتقادات کی نفی فرماکر انھیں باطل قراردیا ]وَلاَصَفَرَ[اور نہ ہی صفر میں نحوست ہے۔“بعض کے نذدیک صفر ایک بیماری ہے جو پیٹ میں ہوتی ہے،پیٹ میں بڑے بڑے کیڑے پیداہوجاتے ہیں، جاہلیت میں یہ اعتقاد تھا کہ یہ بیماری متعدی ہے،آپ ﷺنے اس کی نفی فرمادی،بعض کے نذدیک صفر سے مراد  رسم ”نسئی“کی نفی ہے،یعنی جاہلیت میں محرم کو لڑائی جھگڑے کے لئے حلال قراردیتے اور اس جگہ صفر کو حرمت کا مہینہ بنادیتے،بعض کے نذدیک اہل جاہلیت ماہِ صفر کو منحوس سمجھتے تھے،نبی کریم ﷺنے اس نظرئیے کو باطل قراردیا۔اس حدیث سے صاف واضح ہوا کہ نحوست،بدفالی اور بدشگونی کی کوئی حیثیت نہیں،نہ شیاطین کو کوئی اختیارات ہیں اور نہ ستاروں میں کوئی اثر ہے،بلکہ زمانہ تو ساراکاساراخیرہی خیرہے،کسی مہینے اور کسی دن میں قطعاًکوئی نحوست نہیں،متبرک اور منحوس تو انسان کے اپنے اعمال ہوتے ہیں اور انہی پر خیروشرکا دارومدار ہے،شیخ سعدی فرماتے ہیں:

باراں کہ درلطافت طبعش خلاف نیست                                         درباغ لالہ روید ودرشور بوم وخس

”یعنی بارش اپنے جملہ خوبیوں سمیت ہی برستی ہے،مگر باغ میں پھول اُگتے ہیں اور بنجرزمین میں کانٹے پیداہوتے ہیں۔“حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ”زمانہ کو برانہ کہوکیونکہ زمانہ تو میں ہی ہوں۔“یعنی وقت بحیثیت وقت سارے کا ساراخیر ہی ہے کوئی گھڑی بھی منحوس نہیں کوئی بھی مہینہ اور کوئی بھی دن ہو۔ بعض لوگوں کا عقیدہ ہے کہ اس مہینے میں لنگڑے،لولے،اندھے اور کانے جنات کثرت کے ساتھ زمین پر اُترتے ہیں،بعض لوگ اس مہینے میں صندوقوں،پیٹیوں اور دیواروں کو ڈنڈے مارتے ہیں تاکہ جنات بھاگ جائیں،بعض علاقوں میں یہ رسم ہے کہ ماہِ صفر کے شروع ہوتے ہیں عورتیں جھاڑووغیرہ لے کر گھروں سے مکڑی کے جالے صاف کرتی ہیں اور کہتی ہیں اے صفر!چلاجا،اے صفر چلاجا،بعض جہلا ماہِ صفر کے آخری بدھ کو تہورا مناتے ہیں تفریحی مقامات کا رخ کرتے ہیں،گھروں میں مٹھائی تقسیم کرتے ہیں اور خوشی کا اظہار کرتے ہیں کہ اس دن نبی کریم ﷺاپنی بیماری سے صحت یاب ہوئے تھے تو آپ غسل صحت فرماکرسیر کے لئے باہر تشریف لے گئے تھے،اور حضرت عائشہ ؓ نے خوشی میں چوری بناکر صدقہ کی تھی،حالانکہ یہ ایک من گھڑت کہانی ہے اورپیٹ پرستی کا ایک بہانہ ہے،فقیہ الہندمولانارشید احمدگنگوہی فرماتے ہیں: آخری چہارشنبہ]بدھ[ کی کوئی اصل نہیں،بلکہ اس دن جناب رسول اللہ ﷺکوشدت مرض واقع ہوئی تھی تو یہودیوں نے خوشی کی تھی وہ اب جاہل ہندووں میں بھی رائج ہوگئی۔“مولانااحمدرضاخان بریلوی لکھتے ہیں:”آخری چہارشنبہ ]بدھ[کی کوئی اصل نہیں،نہ اس دن صحت یابی حضور ﷺکا کوئی ثبوت بلکہ مرض اقدس ﷺجس میں وفات ہوئی اس کی ابتداء اسی دن سے بتائی جاتی ہے۔“حقیقت یہ ہے کہ ماہِ صفر کی فضیلت کے بارہ میں کوئی صحیح حدیث ثابت نہیں،اور نہ ہی اس کی نحوست کے بارہ میں کوئی مستندروایت منقول ہے۔عرب میں اسلام آنے سے پہلے ایک دستور چلاآرہاتھا کہ سال کے بارہ مہینوں میں سے چار مہینے یعنی ذی القعدہ،ذی الحجہ،محرم اور رجب خاص ادب اور احترام کے مہینے شمار ہوتے تھے،ان چار مہینوں کو اشہر حرم کہاجاتا تھا،یعنی ایسے مہینے جو انتہائی قابل احترام اور عظمت والے ہیں،ان میں خون ریزی اور جنگ وجدال قطعاًبند کردیاجاتاتھا،عرب لوگ اس زمانہ میں حج وعمرہ اور تجارتی کاروبار وغیرہ کے لئے امن وامان کے ساتھ آزادی سے سفر کرسکتے تھے،ان میں کوئی شخص اپنے باپ کے قاتل سے بھی چھیڑچھاڑ نہ کرتاتھا،اسلام کے آنے سے کچھ عرصہ پہلے جب عرب کی وحشت وجہالت حدسے بڑھ گئی اور باہمی جدال وقتال میں بعض قبیلوں کی درندگی اور انتقامی جذبہ کسی آسمانی یازمینی قانون کا پابند نہ رہا تو”نسئی“کی رسم نکالی گئی یعنی مہینوں کو آگے پیچھے کرنا،محرم کو صفر اور صفر کو محرم کی جگہ کردیتے اس کی تین بڑ ی وجوہات تھیں (۱)جب کسی طاقتور قبیلے کا ارادہ محرم کے مہینے میں جنگ کرنے کاہوتا تو ایک سردار اعلان کردیتا کہ اس سال ہم نے محرم کو ”اشہر حرم“سے نکال کر اس کی جگہ صفر کو حرام کردیا ہے،پھر اگلے سال کہہ دیتا کہ اس مرتبہ پرانے دستور کے مطابق محرم کا مہینہ حرام اور صفر کا مہینہ حلال رہے گا،اس طرح وہ سال میں چار مہینوں کی گنتی توپوری کرلیتے لیکن ان کی تعین میں اپنی خواہش کے مطابق ردوبدل کرتے رہتے تھے،(۲)حج چونکہ قمری سال کے ذی الحجہ کے مہینے میں اداکیاجاتاتھا جب یہ مہینہ سخت سردی یا گرمی میں آجاتااور اس سے مناسک حج کی ادائیگی میں دشواری ہوتی،جس کے منفی اثرات ان کی تجارت پر بھی پڑتے کیونکہ حج کے موقع پر دنیا کے کونے کونے سے تاجر آتے جو بسااوقات شدت موسم کی وجہ سے ان دنوں میں آنے سے کنی کتراتے تھے،اس مشکل سے بچاؤ کے لئے انہوں نے رسم ”نَسِئی“نکالی،کہ مہینوں کو آگے پیچھے کرکے حج ہمیشہ معتدل موسم میں ہی کیاجائے (۳) عرب کے لوگ حج کے مہینوں میں عمرہ کرنا بہت بڑاگناہ سمجھتے تھے،اس وجہ سے محرم کو صفربنالیتے اور کہتے ”جب زخمی اونٹوں کی پشتیں ٹھیک ہوجائیں،حاجیوں کی قدموں کے نشانات مٹ جائیں اور صفر کا مہینہ گزرجائے تب عمرہ کرنے والے کے لئے عمرہ حال ہوجاتا ہے،ان وجوہات کی بناپر انہوں نے رسم ”نسئی“نکالی جس کے بارہ میں اللہ تعالیٰ نے سورۃ توبہ میں ارشاد فرمایا:”دراصل مہینوں کو آگے؛پیچھے کرنا کفرمیں زیادتی ہے جس کے ذریعے وہ لوگ گمراہ کئے جاتے ہیں جنہوں نے کفرکیا،ایک سال اسے حلال کرلیتے ہیں اور ایک سال حرام کرلیتے ہیں تاکہ اس گنتی کی موافقت کرلیں،جو اللہ نے حرام کئے ہیں انہیں حلال کرلیں،ان کے برے اعمال ان کے لئے خوشنمابنادئے گئے ہیں اور اللہ تعالیٰ کافروں کو ہدایت نہیں دیتا۔“مشرکین سمجھتے تھے کہ اس رسم سے ہماری نفسانی اغراض بھی پوری ہوتی رہیں گی اور اللہ کے حکم کی تعمیل بھی ہوجائے گی مگر اللہ تعالیٰ نے اس پر سخت گرفت فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا:تمہارا یہ حیلہ کفرمیں زیادتی کاباعث ہے اس سے تمہاری گمراہی میں بجائے کمی کے اضافہ ہی ہوتارہے گا،کیونکہ تم کسی سال حرمت والے مہینے کو محترم قراردیتے ہو اور کسی سال اس کی خلاف ورزی کرتے ہو،صرف گنتی پورے کرنے سے حکم الہی کی تعمیل نہیں ہوتی بلکہ جو حکم جس مہینے کے لئے دیاگیا ہے اسی مہینے میں اسے پورا کرنا ضروری ہے۔بہرحال ماہِ صفر بھی دیگر مہینوں کی طرح ایک مہینہ ہے جس میں کسی قسم کی کوئی نحوست اور بدشگونی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

ماہِ صفرمیں بہت سارے حوادث اور واقعات پیش آئے ہیں یہاں چند اہم واقعات وحوادثات کا تذکرہ کیاجاتاہے۔کفار مکہ کے ظلم وستم سے تنگ آکر 27/صفر 13  نبوی (12/ستمبر 622ء)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے ہمراہ ہجرت مدینہ کے لئے مکہ مکرمہ سے روانہ ہوکر غار ثور کی طرف روانہ ہوئے اور3دن غارثورمیں قیام فرمایااور وہاں سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرماگئے٭12/صفر 2 ھ(623ء)اللہ کی طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کی جہاد بالسیف ]قتال فی سبیل اللہ [کی اجازت ملی٭صفر 2 ھ(623ء)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۰۶ مہاجرین کے ہمراہ مقام ابواکی طرف روانہ ہوئے پندرہ دن کے بعد واپسی ہوئی جسے غزوہ ابواکہاجاتا ہے٭صفر 4ھ(625ء)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عضل وقارہ قبیلے کے لوگو ں کے مطالبے پران کو قرآن پاک کی تعلیم دینے کے لئے دس صحابہؓ کی جماعت تبلیغ اسلام کے لئے روانہ فرمائی جن کورجیع کے مقام پر بنولحیان کے دوسومسلح دہشت گردوں نے شہید کیا جن کے امیر حضرت عاصم ؓ تھے،انہی میں حضرت زید بن دثنہ ؓاور حضرت خبیبؓ بھی تھے جن کو گرفتار کرکے مکہ لایاگیا،حضرت زید کو فوراًبڑی بے دردی سے شہید کردیاگیا اور حضرت خبیب ؓ کو کچھ دنوں بعد سولی پر لٹکایاگیا٭اسی مہینہ میں ابوعامر بن مالک کے مطالبے پر دعوت وتبلیغ کے لئے ستر (70) صحابہؓ کی جماعت بھیجی گئی جن کو بیر معونہ کے مقام پر دھوکہ سے شہید کیاگیا جسے سریۃ القراء کہاجاتا ہے٭صفر 8ھ (629ء) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت غالب بن عبداللہ لیثی کو مقام کدید کی جانب بنی الملوح پر حملہ کرنے کے لئے روانہ فرمایا]سریہ کدید[٭صفر8 ھ(629ء)عظیم سپہ سالارِ اسلام حضرت خالد بن ولیدؓ،فاتح مصر حضرت عمروبن العاص ؓ اورکلیدبردارِکعبہ حضرت عثمان بن طلحہؓ مدینہ پہنچ کر مشرف بہ اسلام ہوئے٭صفر 8ھ(629ء) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت غالب بن عبداللہ لیثی کو دوسوافرادپرمشتمل ایک جماعت کے ساتھ بنومضاب کی طرف روانہ فرمایا۔اس کے لئے پہلے آپ ﷺ نے حضرت زبیر بن عوام ؓ کو مقررفرمایاتھا اسی وران غالب بن عبداللہ کدید سے کامیاب وکامران لوٹے تو آپﷺ نے انہی کو امیر مقررفرمایا٭صفر9ھ(630ء) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن عوسجہ کو ایک والانامہ دیکر عمروبن حارثہ کی طرف دعوت اسلام کے لئے روانہ فرمایا ٭صفر9ھ(630ء) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قطبہ عامر کی قیادت میں بیس آدمیوں کی جماعت خشعم کے مقابلہ کے لئے روانہ فرمائی ٭صفر9ھ(630 ء) یمن سے قبیلہ عذرہ کے بارہ آدمیوں کا وفدبارگاہِ نبوی میں حاضرہوکر مشرف بہ اسلام ہوا،انہوں عہد کیا کہ ہم دل وجان سے آپ کے اعوان وانصار رہیں گے،پھر پوچھا اے اللہ کے رسول!ہم تجارت کے لئے شام جاتے ہیں جہاں ہرقل رہتا ہے کیاآپ پر اس کے بارہ میں کوئی وحی نازل ہوئی ہے؟آپ ﷺنے فرمایا عنقریب شام فتح ہوجائے گا اور ہرقل وہاں سے بھاگ جائے گا ٭28/ صفر 11 ھ(25/مئی  632ء) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاد روم کی تیا ری کاحکم ارشاد فرمایااور حضرت اسامہ بن زید کو لشکر اسلام کا امیر بناکرروانہ فرمایا،ابھی یہ لشکر مدینہ سے باہر مقام جرف میں تھا کہ نبی کریم ﷺکا وصال ہوگیا جسے بعدخلافت سنبھالنے کے بعد حضرت صدیق اکبرؓ نے روانہ کیا ٭30/ صفر11 ھ(27/مئی 632ء) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی علالت شروع ہوئی۔ صفر 12ھ (مئی 633)مدائن مسلمانوں نے فتح کیا۔صفر22ھ (دسمبر 642ء)آذربائیجان کومسلمانوں نے فتح کیا،صفر 30ھ (اکتوبر 650ء)سفیر رسول ﷺ حضرت خاطب بن ابی بلتعہ ؓ کا انتقال ہوا،صفر 32ھ(ستمبر 656ء)حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ کا انتقال ہوا۔صفر 35ھ(اگست 655ء)حضرت ابوطلحہ انصاری ؓ کا انتقال ہوا۔صفر 40ھ(جون 660)حضرت ابوسہل انصاری کا انتقال ہوا۔صفر 43ھ(مئی 663)حضرت محمدبن مسلمہ ؓ کا انتقال ہوا۔صفر 48ھ(مارچ 668)حضرت سنان بن مسلمہ ؓ سندھ تشریف لائے۔صفر 50ھ(فروری 670)ام المومنین حضرت صفیہ بنت حیی ؓ کا انتقال ہوا۔صفر52ھ(فروری 672)حضرت عمران بن حصین ؓ کا انتقال ہوا۔صفر 62ھ(اکتوبر 681)حضرت بریدہ اسلمی ؓ کا انتقال ہوا۔صفر 60ھ(نومبر 679)حضرت عبداللہ بن مغفلؓ کا انتقال ہوا۔صفر 66ھ(ستمبر 685)حضرت جابر بن سمرہؓ کا انتقال ہوا۔صفر 67ھ(اگست 686)حضرت عمروبن سعد ؓ کا انتقال ہوا۔صفر  86ھ(فروری 705)حضرت ابوامامہ باہلی کا انتقال ہوا۔صفر 94ھ (نومبر 712)حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کعبۃ اللہ میں شہید کردئے گئے۔صفر99ھ(ستمبر 717)خلیفہ سلیمان بن عبدالملک کی وفات کے بعد حضرت عمر بن عبدالعزیز خلیفہ بنے۔صفر 105ھ(جولائی 723)عرب کے مشہور شاعر فرزدق کا انتقال ہوا۔صفر 122ھ(جنوری 740)حضرت زید بن علی بن حسین ؓ کوفہ میں شہید کردئے گئے۔صفر 157ھ(دسمبر 773)حضرت امام عبدالرحمن اوزاعی کا انتقال ہوا۔صفر 193ھ(نومبر 808)حضرت ابوبکر عیاش ؓ کا انتقال ہوا۔صفر 198ھ(اکتوبر 813)امام یحییٰ بن سعد القطان ؒ کا انتقال ہوا۔صفر 203ھ(ستمبر 818)امام علی الرضابن موسیٰ کاانتقال ہوا۔صفر 212ھ(مئی 827)فتنہئ خلق قرآن کا اغاز ہوا۔صفر 220ھ(فروری 835) فتنہ  خلق قرآن کی وجہ سے امام احمدحنبل ؒ کو کوڑے لگائے گئے۔صفر 238ھ(جولائی 852)امام اسحاق بن راہویہ کی وفات ہوئی۔صفر 260ھ(دسمبر 873)امام ابولقاسم سلیمان بن احمدالطبرانی کی ولادت ہوئی۔صفر 297ھ(اکتوبر 909)محمدبن داؤد الظاہری کا انتقال ہوا۔ صفر 303ھ(اگست 915)امام احمدبن علی النسائی کی وفات ہوئی۔صفر 324ھ(دسمبر 935)امام ابولحسن الاشعری کی وفات ہوئی۔صفر 405ھ(اگست 1014)امام محمدبن عبداللہ الحاکم النشیاپوری کا انتقال ہوا۔صفر 443ھ(جون 1051)بغدادمیں شیعہ سنی فسادات ہوئے۔صفر 589ھ(مارچ 1193)سلطان صلاح الدین ایوبی کا انتقال ہوا۔29صفر 676ھ(جولائی 1277)شارح مسلم علامہ نووی کانتقال ہوا۔27صفر 855ھ(اپریل 1415)شارح بخاری علامہ بدرالدین عینی کا انتقال ہوا۔صفر 745ھ(جولائی 1344)اما ابوحیان محمدبن یوسف الاندلسی کا انتقال ہوا۔صفر 1034ھ(دسمبر 1624)حضرت شیخ احمدسرہندی مجددالف ثانی کا انتقال ہوا۔صفر 1199ھ(دسمبر 1784)خواجہ میردرددہلوی کا انتقال ہوا۔صفر 1278ھ(اگست 1861)اسیر کالاپانی حضرت مولانافضل حق خیرآبادی کاکالاپانی میں انتقال ہوا۔صفر 1313ھ (جولائی 1895) شیخ المشائخ مولانافضل الرحمن گنج مرادآبادی کا نتقال ہوا۔ صفر 1316ھ(جون 1898) علامہ سید جمال الدین افغانی کا انتقال ہوا۔صفر1333ھ(دسمبر 1914)الطاف حسین حالی کا انتقال ہوا۔صفر1337ھ(نومبر 1918)جنگ عظیم اول کاخاتمہ ہوا۔صفر 1339ھ(اکتوبر 1920)غازی انورپاشا شہید ہوئے۔25صفر 1340ھ(اکتوبر 1920) مولانااحمدرضاخان بریلوی کا انتقال ہوا۔3صفر 1352ھ (مئی 1933) شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند حضرت علامہ انورشاہ کشمیری کا انتقال ہوا۔صفر1357ھ(اپریل 1938)شاعر مشرق علامہ ڈاکٹر محمداقبال کا انتقال ہوا۔صفر 1359ھ(23مارچ 1940)لاہور میں قراردادِ پاکستان کی منظوری ہوئی۔12صفر 1360(14مارچ 1941)خانقاہِ سراجیہ کندیاں کے بانی شیخ المشائخ حضرت مولاناابوالسعد احمدخان کا انتقال ہوا۔6صفر1365ھ(11جنوری 1946)تحریک شیخ الہند (تحریک ریشمی رومال)کے عظیم مجاہد،نبیرہ قاسم العلوم والخیرات حضرت مولانامحمدقاسم نانوتوی مولانامحمدمیاں المعروف منصورانصاری 31سالہ جلاوطنی کے بعد افغانستان میں انتقال کرگئے۔ صفر 1369ھ(نومبر 1949) محسنِ پاکستان شیخ الاسلام حضرت علامہ شبیر احمدعثمانی کا بھاولپور میں دورانِ سفرانتقال ہوا۔11صفر1376ھ(1956)رئیس الاحرار حضرت مولاناحبیب الرحمن لدھیانوی کا نتقال ہوا۔صفر 1378ھ(اگست 1958)امام الہند مولاناابولکلام آزاد کا نتقال ہوا۔صفر 1377ھ(جون 1967)اسرائیل کے ہاتھوں عربوں کوشکست ہوئی۔24صفر 1391ھ (21اپریل 1971) مجاہدملت حضرت مولانامحمدعلی جالندھری کا انتقال ہوا۔20صفر 1392ھ(5اپریل 1972)جمعیت علماء ہندکے صدراور دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث حضرت مولاناسید فخرالدین احمدمرادآبادی کا انتقال ہوا۔24صفر 1403ھ(11دسمبر1982)تبلیغی جماعت کے بزرگ، جمعیت علماء اسلام کے ناظم اور مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ کے خطیب مولانامفتی عبدالواحد کا انتقال ہوا۔4صفر 1405ھ(30اکتوبر 1984)خانقاہِ رائے پور کے سجادہ نشین مولاناعبدالعزیز رائے پوری کا انتقال ہوا۔28صفر 1417ھ(14جولائی 1996)مشہور مصنف مولاناقاضی اطہر مبارک پوری (انڈیا)کا انتقال ہوا۔صفر1419ھ(28مئی 1998)یوم تکبیر پاکستان نے ایٹمی دھماکے کرکے دنیا کا پہلا مسلمان ایٹمی ملک بننے کااعزازحاصل کیا۔13صفر 1421ھ(18مئی 2000)دارالعلوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن کے شیخ الحدیث حضرت مولانامحمدیوسف لدھیانوی کو شہید کیاگیا۔6صفر 1436ھ(29نومبر 2014)سابق سینیٹرجمعیت علماء اسلام سندھ سیکرٹری جنرل مولاناڈاکٹرخالد محمودسومرو کو سکھرمیں نماز فجر کے وقت شہید کیاگیا۔28صفر 1436ھ(11دسمبر 2015)جمعیت علماء اسلام کے مرکزی سرپرست بقیۃ السلف مولاناعبداللہ آف بھکر کا انتقال ہوا۔

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.