نہ خنجر اُٹھے گا نہ تلوار ان سے قائدجمعیت کا جرات مندانہ موقف۔ (حافظ مومن خان عثمانی)

چٹان
0

ملک کے سیاسی ماحول کا ٹمپریچربڑھتا جارہاہے،اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے اسلام آباد میں ہونے والی”اے پی سی“ نے اس ماحول کو مزید گرمی کی طرف دھکیل دیا،اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے جاندار اعلامیہ نے حکمرانوں اور ان کے پشتیبانوں کی نیندیں حرام کردیں،وہ سمجھ رہے تھے کہ یہ بھی ایک روایتی قسم کی اے پی سی ہوگی جس میں سوائے نشستند،گفتند،خوردنداور برخاستند کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہوگا،جس طرح پہلے اپوزیشن جماعتیں سنجیدگی کے ساتھ کسی معاملے پر اکٹھی نہیں ہوئی تھیں اس دفعہ بھی ایسا ہی ہوگا،مگر انہیں معلوم نہیں تھا قائدجمعیت مولانافضل الرحمن نے اس دفعہ اے پی سی کو صرف کلام وطعام اور ڈھیلے ڈھالے اعلامیے تک محدودنہیں رکھا بلکہ اے پی سی سے پہلے تمام جماعتوں خصوصامسلم لیگ اور پیپلزپارٹی کی قیادت کو متنبہ کیا تھا کہ اگر زبانی کلامی اورروایتی انداز کی اے پی سی ہوگی تو اس سے کوئی فائدہ نہیں اور وقت کے اس ضیاع کے لئے میں تیار نہیں ہوں،ہاں اگر کچھ کرنے کا ارادہ رکھتے ہو،ٹھوس،مضبوط اور جاندارموقف اپناکر عملی میدان میں اُتر کر ملک وملت کی ڈوبتی ہوئی کشتی کو بچانے کے لئے اپنی ذاتی اور پارٹی مفادات کے خول سے نکل کر فیصلہ کن معرکہ لڑسکتے ہو تو تب اے پی سی کا انعقاد کرو،چنانچہ دونوں بڑی جماعتوں کے قائدین سے مضبوط موقف اپنانے کی گارنٹی لے کرقائدجمعیت مولانافضل الرحمن اے پی سی میں شرکت پر آمادگی ہوئے اور اے پی سی میں مولاناصاحب کے دوٹوک موقف نے تمام جماعتوں کو مضبوط اور جاندار اعلامیہ تیار کرنے پر مجبور کیا،اے پی سی کا اعلامیہ اس قدر جاندار اور تیربہ ہدف تھا کہ حکمرانوں کے محلات میں لرزہ برپا ہوگیا اور اگلے ہی دن نیب پشاور کی طرف سے قائدجمعیت کے خلاف آمدن سے زیادہ اثاثوں پر نوٹس جاری کردیاگیا،راتوں رات قائدجمعیت کے نام پر اربوں کھربوں کی جائیدادیں لکھ دی گئیں،ایک نجی ٹی وی کے ایک بدنام زمانہ اینکر نے تو دعویٰ کیا کہ اتناکچھ مولانافضل الرحمن کے پاس ہے کہ وہ توارب پتی ہیں اورمولاناصاحب کے اتنے اثاثے ہیں کہ ایک پروگرام میں ان کا احاطہ نہیں ہوسکتا اس کے لئے چار پانچ پروگراموں کی ضرورت ہے، ملک کے کئی شہروں میں بے شمار بنگلے،شوگر ملز،سینکڑوں کنال پرایگری کلچر لینڈ، ہزاروں کنال کی زمینیں، دبئی اور دیگر کئی ملکوں میں بے شمارکوٹھیاں،فلیٹس،لاتعداددکانیں،چک شہزاد اسلام آباد میں تین ارب مالیت کی زمین،ہمت گاؤں میں تین سوکنال زمین میں سوکنال کاوسیع وعریض بنگلہ اور کھربوں روپے کی جائیدادوں پرمشتمل ایک پلندہ بناکر کچھ پیشہ ورصحافیوں کو پکڑایاگیا اور اس کی بنیاد پر قائدجمعیت کا میڈیا ٹرائل شروع کردیا گیا،تمام ٹی وی چینلز پر ایک طوفانِ بدتمیزی برپا کردیاگیا کہ مولاناصاحب نے کرپشن کے ذریعے بہت کچھ جمع کررکھا ہے تاکہ مولانافضل الرحمن کو ڈرادھمکاکر خاموش کیا جائے،مگر انہیں پتہ نہیں تھا کہ یہ اس قافلہ حریت سے تعلق رکھتے ہیں جنہوں نے انگریز سرکار کے رعب ودبدبے کو کبھی قبول نہیں کیا تھا تو بدنام زمانہ ڈکٹیٹرپرویز مشرف کے تخلیق کردہ نیب اور اس کے پشتیبانوں کارعب کیسے قبول کرسکتے ہیں؟قائدجمعیت کو ڈرانے دھمکانے کے لئے ان کے پرسنل سیکرٹری طارق بلوچ کے والد کو گرفتار بھی کیا گیا، ڈیرہ اسماعیل خان میں ان کی گرفتاری پر احتجاج کرنے والے کئی رہنماؤں کو گرفتار کرتے ہوئے سینکڑوں کارکنوں سمیت مولانافضل الرحمن کے چھوٹے بھائی عبیدالرحمن کے خلاف مقدمات بھی درج کرائے گئے،مگر قائدجمعیت بجائے مرعوب ہونے کے میدان میں ایسے ڈٹ گئے کہ دنیا بھی حیران ہوکر رہ گئی،لوگ سمجھ رہے تھے کہ مولاناصاحب بھی دیگر لوگوں کی طرح آئیں بائیں شائیں کرکے خاموش ہوجائیں گے اور اپوزیشن کی تحریک سے ہوا نکل جائے گی،اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی گرفتاری اور قائدجمعیت پر نیب کے ذریعے الزام تراشی سلیکٹڈ حکمرانوں اور ان کے آقاؤں کا سوچاسمجھا منصوبہ تھا مگر انہیں معلوم نہیں تھا کہ یہ لوگ ڈرنے والے نہیں ڈرانے والے ہیں،مرعوب ہونے والے نہیں مرعوب کرنے والے ہیں کراچی کے ایک اجتماع میں قائدجمعیت نے طنزاً کہا کہ جنرل عاصم سلیم باجوہ کے جتنے اثاثے نکلے ہیں ان کا چوتھائی حصہ مجھے دے دو اور میرے تمام اثاثے تم لے لو،مظفر آباد میں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے قائدجمعیت کا کہنا تھا کہ ”مجھ سے تب پوچھا جائے کہ میں قانون کو ہاتھ میں لے رہاہوں جب ریاستی ادارے قانون میں نہ لے رہے ہوں،وہ آئین کو معطل کرتے ہیں ان کے ہاں تو آئین مفلوج ہوجاتا ہے،ان کی نظرمیں قانون کی کوئی حیثیت ہی نہیں ہے،جوان کے ذہن میں آتا ہے،جوان کی زبانوں سے نکلتاہے اور جوکچھ وہ کرتے ہیں اسی کوقانون قراردیتے ہیں،آپ ہمیں چھوٹی موٹی گرفتاریوں سے ڈراتے ہیں آپ نے ہمیں پہچاناہی نہیں،ہمیں نہ آزمایا کرو،ہم بڑے مہنگے پڑتے ہیں،تم کچھ اور لوگوں کو دیکھا ہوگا جن پر آپ ہاتھ ڈالتے ہیں تو چھپ جاتے ہیں،یہاں ہاتھ ڈالوں گے تو ہم اکڑ جائیں گے،ہم ملک میں غلام بن کررہنے والے نہیں جس گھاٹ سے ہم نے پانی پیا ہے وہ غلامی کو قبول نہیں کرتا،ان کا کہنا تھا کہ بڑے بڑے عہدوں پر فائز لوگوں سے میں اپنے آپ کوزیادہ محترم سمجھتا ہوں،سیدھے ہوجاؤورنہ افغانستان میں طالبان کے ہاتھوں امریکہ کے انجام سے بھی تمہاراحشر برا ہوگا“مولانافضل الرحمن نے بغیرکسی لگی لپٹی کے صاف صاف اعلان کیا کہ ہم اس ملک میں غلامی اور بے توقیری کی زندگی گزارنے کے لئے تیار نہیں ہیں ہم باعزت اور باوقار طریقے سے آئین وقانون کے تحت اس ملک میں رہنا چاہتے ہیں“مولاناصاحب نے حکمرانوں اور مقتدراداروں پر واضح کیا کہ ہم ڈر اور خوف کے سائے میں چھپ چھپاکر زندگی گزارنے والے نہیں،ہمارے اکابر نے آزادی کی تحریک سراُٹھاکر جینے کے لئے چلائی تھی،اوچھے ہتکنڈوں سے ہماراسرنہیں جھکایاجاسکتا،یہ تو سورج کی طرح واضح اور تاریخی حقیقت ہے کہ ہمارے اکابر نے دنیا کے سب سے بڑے ظالم انگریزسرکار کے سامنے کبھی سرنہیں جھکایا آج ان اکابر کے جانشین انگریزکے حاشیہ نشینوں کے سامنے کیسے سرجھکائیں گے؟اس قافلہ کے سالاراول شیخ الہند مولانامحمود حسن رحمہ اللہ جب مالٹامیں قید تھے،اس وقت حضرت رحمہ اللہ کو اتنی سزادی جاتی تھی،کہ جسم پر زخم ہوجاتے تھے اور کئی مرتبہ ایسا ہوتاتھا کہ فرنگی انگارے بچھادیتے اور حضرت کو اوپر لٹادیتے تھے،جیل کے حکام کہتے کہ محمودحسن!صرف اتنا کہہ دو کہ میں فرنگیوں کا مخالف نہیں ہوں،آپ کو چھوڑ دیاجائے گا،مگر حضرت فرماتے نہیں،میں یہ الفاظ نہیں کہہ سکتا، ان کو اس قدر تکلیف دی جاتی تھی کہ جب رات کو سونے کے لئے لیٹتے تو سوبھی نہیں سکتے تھے،ان کے ساتھ قیدوبند کی صعوبتیں جھیلنے والے شاگردان کو دیکھ کر پریشان ہوجاتے، ایک دن انہوں نے روکرکہا،حضرت!آخرمام محمدنے کتاب الحیل لکھی ہے،کیا کوئی ایسا حیلہ ہے کہ آپ ان کی سزاسے بچ جائیں،حضرت نے فرمایا، نہیں،جب کئی دن متواتر یہ سزاملتی رہی تو ایک دن ایک فرنگی کھڑاہوکرکہنے لگا تجھے ہے کیا؟ تو یہ کیوں نہیں کہناچاہتا کہ میں فرنگیوں کا مخالف نہیں ہوں؟اس وقت حضرت شیخ الہندرحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:میں اس لئے نہیں کہناچاہتا کہ میں اللہ کے دفتر سے نام کٹواکر تمہارے دفترمیں نام نہیں لکھواناچاہتا،شیخ الاسلام حضرت مولاناسید حسین احمد مدنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ایک دفعہ حضرت شیخ الہندرحمہ اللہ آئے تو ہم نے دیکھا کہ آپ کو اذیت ناک سزادی گئی ہے۔ ہم حضرت کے ساتھ چار شاگردتھے،ہم نے مل کر عرض کیا حضرت!کچھ مہربانی فرمائیں،شیخ الہندؒ کے چہرے پر غصے کے آثار ظاہرہوئے اور فرمانے لگے۔حسین احمد! تم مجھے کیا سمجھتے ہو؟میں روحانی بیٹا ہوں حضرت بلال رضی اللہ عنہ کا،میں روحانی بیٹا ہوں حضرت خبیب رضی اللہ عنہ کا،میں روحانی بیٹاہوں حضرت سمیہ رضی اللہ عنہاکا،میں روحانی بیٹا ہوں امام مالک کا جنہیں منہ پر سیاہی مل کر مدینہ کے اندر پھراگیا،میں روحانی بیٹاہوں امام ابوحنیفہ کا کہ جن کی لاش جیل سے باہر نکلی،میں روحانی بیٹا ہوں امام احمدبن حنبل کا جن کو اتنے کوڑے مارے گئے کہ اگر ہاتھی کو بھی مارے مارے جاتے تووہ بھی بلبلااُٹھتا،میں روحانی بیٹا ہوں مجددالف ثانی کا جن کو دوسال کے لئے گولیارمیں قید رکھاگیا تھا،میں روحانی بیٹاہوں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کا جن کے ہاتھ کوکلائیوں کے قریب سے توڑ کر بیکار بنادیاگیا۔حسین احمد!کیامیں ان فرنگیوں کے سامنے شکست تسلیم کرلوں،یہ میرے جسم سے جان تو نکال سکتے ہیں مگر دل سے ایمان نہیں نکال سکتے،شیخ الاسلام مولاناسید حسین احمدمدنی ؒ کے بارہ میں توسب جانتے ہیں کہ 1921ء میں خالق دیناہال کراچی کے اندر انگریزجج کے سامنے برسرعدالت بغل سے کفن نکال کرکہاتھا کہ انگریز فوج میں بھرتی ہونے کا فتویٰ دیاتھا،دیتا ہوں اور جب تک جسم میں جان ہے یہ فتویٰ دیتا رہوں گا تم سے جوسزاہوسکتی ہے دے دو،مفتی اعظم خیبرپختونخوامفتی عبدالرحیم پوپلزئی مسجدقاسم علی خان پشاورکے خطیب،حضرت شیخ الہندکے شاگرد اوران کی تحریک بیباک مجاہدتھے،ان کی زندگی کا بڑاحصہ فرنگی قیدخانوں میں گزراہے،1940ء میں آخری دفعہ ایک باغیانہ تقاریر کی پاداش میں مقدمہ چلا، پانچ سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی، فیصلہ سننے کے بعد آپ نے خشمگیں آنکھوں سے جج سے مخاطب ہو کر کہا کہ جج صاحب! میرے لئے صرف پانچ سال قید بامشقت؟ کیا آپ کے قلم میں بس اتنی سی طاقت تھی؟ میں رات پھانسی کی کوٹھڑی میں گزار کر آیا ہوں، میں تو شہادت کی آرزو لے کر آیا تھا، مولاناعبدالرحمن میانوی ؒ سرگودھاکے رہنے والے دارالعلوم دیوبند کے فاضل،شیخ الاسلام مولاناحسین احمدمدنی کے شاگردتھے،جمعیت علماء اسلام کی مرکزی شوریٰ کے رکن اورتحریک آزادی کے نڈر مجاہدگزرے ہیں،آزادی وطن کی خاطرکئی سال پابندسلاسل رہے،ایک دفعہ مولانا عبدالرحمن میانوی ؒ کے مقدمہ کی سماعت ہورہی تھی مولانا پر عجیب کیفیت طاری تھی، عدالت میں جاتے تو نیا لباس پہنتے اور پگڑی کا کلف دار طرہ بلندکرتے،مجسٹریٹ نے ایک دن طیش میں آکر کہا مولوی صاحب! آپ طرہ باند ھ کر کیوں آتے ہیں عدالت میں جھک کر آیا کیجئے۔مولانامیانوی پر جلال کی کیفیت طاری ہوگئی اور غصے سے فرمایا:مجسٹریٹ صاحب!آپ اپناکام جاری رکھیں میرا سر اللہ کے سوا کسی اورکے سامنے نہیں جھک سکتا، مولانافضل الرحمن انہی اکابر کی عزت ووقار کی لاج رکھتے ہوئے موجودہ زمانہ میں مذہبی طبقات کے دفاع،ملکی استحکام وسا لمیت،جمہوریت کے فروغ اور آئین وقانون کی بالادستی کی جنگ لڑ رہے ہیں،انتہائی جرات،وبہادری اور عزم واستقلال کے ساتھ اس میدان میں تمام تر پروپیگنڈوں کے باوجود مردِ میدان کی طرح جم کرکھڑے ہیں،ملک پر مسلط عالمی طاقتوں کے کٹھ پتلی حکمرانوں اور ان کے پشتیبانوں کی آئین شکنی پر انہیں ببانگ دہل للکار تے ہوئے دستوری دائرے میں لانے کے لئے مصروف عمل ہیں،مولانافضل الرحمن کی جرات وبہادری اور عزم واستقلال کو دیکھ کر نیب کے اہلکار یہ اعلامیہ جاری کرنے پر مجبور ہوئے کہ ابھی تک مولاناصاحب کے خلاف نیب کی طرف سے کوئی نوٹس جاری نہیں ہوا ہے۔
کچھ اہل خدم کچھ اہل خشم میخانہ گرانے آئے تھے
دہلیز کو چوم کر لوٹ گئے سوچا یہ پتھر بھاری ہے۔

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.