مسلم لیگ (ن) اور جمعیت علمائے اسلام کا اتحاد نئی تاریخ رقم کر سکتا ہے؟اس سوال کاجواب تلاش کرتے کرتے، میں سو سال پیچھے چلا گیا جب جمعیت علمائے ہند کی بنیاد رکھی گئی۔ یہ 1919ء کا واقعہ ہے۔ مولانا فضل الرحمن کا کہنا ہے کہ جمعیت علمائے اسلام، جمعیت علمائے ہند کا معنوی تسلسل ہے۔ اِس کا چراغ بھی اسی فکر اور جذبہ حریت سے روشن ہے، جو جمعیت علمائے ہند کا تعارف ہے۔ مسلم لیگ (ن) خود کو آل انڈیا مسلم لیگ کاجانشین بتاتی ہے۔ مسلم لیگ 1906ء میں قائم ہوئی تھی۔
قیامِ پاکستان سے پہلے کی سیاست میں، یہ دونوں جماعتیں ایک دوسرے کی حریف تھیں۔ دونوں آزادی اور مسلمانوں کے حقوق کیلئے برسرِپیکار تھیں لیکن مختلف نقطہ ہائے نظر کے ساتھ۔ ابتدا میں مسلم لیگ کا خیال تھا کہ مسلمانوں کے مفادات کیلئے اصل خطرہ انگریز نہیں، ہندو ہیں؛ چنانچہ انگریزوں سے قریب اور ہندوئوں سے دور رہنا چاہیے۔ یہ سرسیداحمد خان کا نقطہ نظر تھا، مسلم لیگ جن کے سیاسی فکر کی بازگشت تھی۔ جمعیت علمائے ہند کا خیال تھاکہ مسلمانوں کو اصل خطرہ انگریز سے ہے‘ اس سے آزادی، مقاصد میں مقدم ہے اور اس کیلئے ہم وطن ہندوئوں کے ساتھ شراکتِ عمل ضروری ہے۔
مسلمانوں کے تہذیبی وجود کی بقا اوران کی مذہبی شناخت کی حفاظت دونوں کا مطمحِ نظر تھا۔ دونوں کو یہ احساس تھا کہ انگریزوں کی رخصتی کے بعد، مسلمانوں کو ہندو اکثریت کا سامنا ہوگا۔ مسلم لیگ تدریجاً اس نتیجے تک پہنچی کہ اس کا واحد حل ہندوستان کی تقسیم ہے۔ مذہبی، تہذیبی، تاریخی اور سیاسی عوامل نے ہندو مسلم تعلقات میں ایسی تلخی گھول دی ہے کہ دونوں کا ایک ساتھ رہنا مشکل ہے۔ دونوں کا بھلا اسی میں ہے کہ ہندوستان کم از کم دوحصوں میں تقسیم ہو جائے۔
جمعیت علمائے ہند کا موقف یہ تھاکہ اگر وفاقی وحدتوں، یعنی ریاستوں اور صوبوں کو زیادہ سے زیادہ خود مختاری دے دی جائے اور مرکز کے اختیارات کو محدود کردیا جائے تواکثریت سے پہنچنے والے ممکنہ ضرر سے بچا جا سکتاہے۔ مسلم اکثریتی صوبے اور ریاستیں اپنی مرضی سے اپنا نظام بنا سکتی ہیں۔ وفاقی حکومت کے پاس وہی اختیارات ہوں جو اکائیاں ان کو دینے پر رضامند ہوں۔ مرکزی ایوانِ نمائندگان میں ہندو اور مسلم اراکین کی تعداد مساوی ہو۔ اسی طرح باہمی تنازعات کے حل کیلئے ایک سپریم کورٹ ہو جس میں مسلم اور غیرمسلم جج صاحبان کی تعداد بھی ایک جیسی ہو۔ اس کے ساتھ وفاقی اکائیوں کے حقِ خودارادیت کو تسلیم کیا جائے۔ گویا علیحدگی کا متبادل بھی انہیں میسر رہے۔
جمعیت علمائے ہند کا یہ موقف، اس کے چودھویں اجلاس میں بھی پیش کیا گیا جو مئی 1945ء میں سہارن پور میں منعقد ہوا اور مولانا حسین احمد مدنی نے اس کو اپنے خطبۂ صدارت میں دہرایا۔ یہ غالباً متحدہ ہندوستان میں جمعیت کا آخری عام اجلاس تھا۔ میں نے اس کوقدرے تفصیل سے اس لیے بیان کیاکہ عام لوگ اس سے کم ہی واقف ہیں۔
مسلمانوں کی غالب اکثریت نے مسلم لیگ کے موقف کو درست سمجھا اور ہندوستان تقسیم ہوگیا۔ میں نے جب مسلم لیگ(ن) اور جمعیت علمائے اسلام کے اتحاد پرغور کرنا شروع کیا تویہ ساری تاریخ میرے سامنے آکھڑی ہوئی۔ یہ غوروفکر ایک سوال میں ڈھل گیا: اگر سو سال پہلے، مسلمانوں کی نمائندہ جماعتوں میں کوئی بامعنی مکالمہ اور ارتباط ہوتا تواس خطے کا نقشہ کیا ہوتا؟ تاریخ کے مختلف ابواب کے بارے میں اس نوعیت کے سوالات پیدا ہوتے ہیں لیکن سیاسی حرکیات کے مطالبات ہماری خواہشات کے تابع نہیں ہوتے۔ تاریخ کے متعدد واقعات اور حادثات کے بارے میں اسی طرح کے سوالات اٹھتے ہیں۔ شاید اس کا کبھی تجزیہ نہ کیا جا سکے کہ کہاں حالات کی باگ ہمارے ہاتھ سے نکلتی اور رخشِ زماں بے لگام ہو جاتا ہے۔ تاہم ان واقعات سے سبق سیکھاجا سکتا ہے۔ یہ سمجھاجا سکتا ہے کہ حسبِ خواہش نتائج کیلئے کن باتوں کا لحاظ رکھنا چاہیے۔ تاریخ نے آج آل انڈیا مسلم لیگ اور جمعیت علمائے ہند کے جانشینوں کو ایک موقع دیا ہے کہ وہ اپنے اکابرین کی سیاسی حکمت عملی کا جائزہ لیں اور دیکھیں کہ اس سے کیا سیکھا جاسکتا ہے؟ کہاں ان سے غلطی ہوئی، جس سے نئی نسل کو بچنا چاہیے۔
پی ڈی ایم میں اگرچہ کئی جماعتیں شامل ہیں مگر اصل اہمیت نون لیگ اور جمعیت کی ہے۔ اس بازی کا تمام ترانحصار ان پر ہے۔ پیپلزپارٹی بلاشبہ اہم ہے لیکن اس نظام سے اس کے مفادات وابستہ ہیں۔ وہ سندھ حکومت نہیں کھوناچاہتی۔ نون لیگ اور جمعیت کے پاؤں میں ایسی کوئی زنجیر نہیں۔ اگر ہوتی توان کا رویہ بھی پیپلزپارٹی سے مختلف نہ ہوتا۔ پی ڈی ایم کی جماعتوں کو اب یہ سوچنا ہے کہ پیپلزپارٹی کی اس مجبوری کو کیسے اپنی حکمتِ عملی میں جگہ دینی ہے اور پیپلزپارٹی کو یہ دیکھنا ہے کہ ایک فیصلہ کن موڑ پر اس کے قدموں کی لڑکھڑاہٹ، کہیں اس کیلئے عمر بھر کا پچھتاوا نہ بن جائے۔ سیاستدانوں کو بحیثیت مجموعی غور کرنا ہوگا کہ سیاستدانوں کی تقسیم بالآخر سب کیلئے نقصان دہ ہوگی۔ تاریخ نے اگر انہیں غلطیوں کی تلافی کا ایک موقع دیا ہے تو اسے ضائع نہیں کرنا چاہیے۔
دوسرے فریق کی پوری کوشش ہے کہ جمعیت علمائے اسلام اور نون لیگ کا رشتہ کمزورہو۔ بالکل تحریکِ پاکستان کی طرح، جب مسلمانوں کے مخالفین کی یہ خواہش تھی کہ جمعیت اور مسلم لیگ میں فاصلہ بڑھے۔ شیخ رشید صاحب کو نئی اسائنمنٹ غالباً یہی ملی ہے۔ پہلے دونوں کو لڑانے کی کوشش ہوگی۔ اس میں اگر کامیابی نہ ہوئی تودونوں کوغدار ثابت کیا جائے گا۔ مولانا صاحب کو تاریخی حوالوں سے کانگرس اور ہندوستان نواز ثابت کرنے کی کوشش ہوگی۔ نواز شریف اصل ہدف ہیں۔ ان کو غدار بنانے کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ چند لوگ اس پر مامورہیں۔ مولانا فضل الرحمن کو اس کیلئے ابھی سے متنبہ ہونا ہوگا۔ اگلی باری ان کی ہے۔ اب علامہ اقبال کے قطعے کی تشہیرِ عام ہوگی جو انہوں نے مولانا حسین احمد مدنی کے بارے میں لکھا تھا۔ پھرمفتی محمود صاحب کے ایک قول کو سیاق و سباق سے ہٹا کر دہرایا جائے گا۔ یہ ثابت کیا جائے گا کہ چونکہ ان کے اکابر پاکستان بنانے کے خلاف تھے، اس لیے یہ انہی کے ایجنڈے پر کام کرتے ہوئے اکھنڈ بھارت کے علم بردار ہیں۔
تاریخ یہ ہے کہ جب بھی غداری کا کھیل کھیلا گیا، اس نے ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔ تاریخ کا سبق مگریہ بھی ہے کہ تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھتا۔ ایک بار پھر 1970ء کاماحول پیدا کیاجا رہاہے۔ کوئی یہ نہیں دیکھ رہاکہ اُس مہم جوئی کا انجام کیا ہوا تھا۔ ریاستیں غدار پیدا نہیں کرتیں، غداروں کو قومی دھارے میں لاتی ہیں۔ ریاست مدینہ کی بات کرنے والے کاش اس ریاست کا پہلا باب ”میثاقِ مدینہ‘‘ یا دورِ اوّل کا آخری باب ”فتح مکہ‘‘ پڑھ لیتے۔ مولانا طارق جمیل سے کہتے کہ ان کو پڑھ کرسنا دیں۔
میں جانتا ہوں کہ ایسا نہیں ہو گا۔ اس لیے اب سب ذمہ داری مسلم لیگ (ن) اور جمعیت علمائے اسلام کے کندھوں پر ہے۔ انہوں نے ایک پُرامن احتجاجی تحریک چلانی ہے جس کا مقصد ملک میں حقیقی جمہوریت کی بحالی ہے۔ یہ منفی نہیں، ایک مثبت مقصد ہے۔ یہ کسی ادارے کے خلاف نہیں، آئین کی بالادستی کے حق میں ہے۔ اِس سیاسی نظام نے ثابت کر دیا کہ اس میں تنازعات کو حل کرنے کی صلاحیت نہیں۔ اس کا خاتمہ اب ناگزیر ہوچکا۔ تبدیلی کا واحد پرامن راستہ نئے انتخابات ہیں۔
انتخابات کیسے منصفانہ ہوں گے، پی ڈی ایم کو اس پرضرور بات کرنی چاہیے اور اپنا موقف قوم کے سامنے رکھنا چاہیے۔ مولانا کے کندھوں پر ایک بھاری ذمہ داری آن پڑی ہے۔ یہ ان کی بصیرت کا امتحان ہے کہ اس تحریک کے نتیجے میں ملک کیسے بہتری کی طرف پیش قدمی کرتا ہے۔