بچوں کی تربیت

0

(کاشف شہزاد) بشکریہ اردو صفحہ

بچے کے ساتھ کبھی بھی بحث نہ کریں کیوں کہ بحث صرف ہم پلہ یا ہم عمر میں ہوتی ہے آپ نہ اپنے آپ کو نیچے کریں اور نہ ہی یہ توقع کریں کہ بچہ آپ کی سطح پر آ جائے۔بچے کو ہمیشہ سوال کرنے دیں اور اس کے سوال کا ہر ممکن حد تک جواب دیں اگر نہ دے سکیں تو بھی ڈانٹیں مت پیار سے اسے منحرف کریں بچے کی تربیت کرنا مرد و عورت اور تعلیمی اداروں کی ذمہ داری ہے ۔ یہ سوچ ہمارے معاشرے میں خطرناک حد تک پنپ چکی ہے ۔․ خوش قسمتی یہ ہے کہ بچوں کو تعلیم دینا اب اتنا مشکل نہیں رہا جتنا آپ سے دس پندرہ سال پہلے تھا ۔ والدین کی تعلیم کے بارے میں آگاہی کئی گنا بڑھ چکی ہے اس لیے ہر ذی شعور کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ کسی طرح سے اپنے بچے کو کسی بھی ادارے سے تعلیم دلوائے تا کہ ان کا بچہ اس معاشرے میں ایک با عزت زندگی گزار سکے جو کہ ایک خوش آئین تبدیلی ہے ،لیکن بد قسمتی یہ ہے کہ تعلیم دینے والے اور دلوانے والے دونوں اس بات سے مکمل طور پر بے خبر ہیں کہ بغیر تربیت کے تعلیم ایسے ہی ہے جیسے آپ نے نئے کپڑے تو پہن لیے لیکن نئے افکار کو نہ اپنا سکے ۔آپ نے جیسے تیسے گاڑی تو خرید لی لیکن اس کو چلانے کے لیے کسی استاد سے سیکھا ہی نہیں ۔

بلا شبہ تعلیمی اداروں کی یہ ذمہ داری میں شامل ہے کہ وہ بچوں کی تعلیم کے ساتھ ساتھ ایسی تربیت بھی کریں کہ وہ اپنی تعلیم کو صحیح معنوں میں موثر بنائیں اور اپنی سوچ میں جدّت لائیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ ذمہ داری اسی طرح والدین پر بھی تو عائد ہوتی ہے کہ وہ زندگی کے بارے میں اپنے تجربات اور مشاہدات سے اپنے بچوں کو مستفید کریں تا کہ وہ زندگی کے ہر میدان میں کامیابی حاصل کریں ۔حضوروالا بچے کو تربیت اس دنیا میں آنے سے پہلے ہی شروع ہو جاتی ہے جس کا عملی نمونہ کئی ترقی یافتہ ممالک میں موجود ہے۔ مثلا جاپان میں تو بچے کی عمر میں وہ نو مہینے بھی شامل ہوتے ہیں جو اس نے اپنی ماں کے شکم میں گزارے ہیں ۔

ایک تحقیق کے مطابق بچہ اپنی فطرت کا اسی فیصد اپنی ماں سے لیتا ہے ․ ماں کی سوچ، ماں کی عادات اور ان نو مہینوں میں ماں کے جذبات کا اتار چڑھاؤ ہی بچے کے مزاج کا تعین کرتے ہیں اور یہ ساری چیزیں اس سلوک پر منحصر ہوتی ہیں جو اس ماں کے ساتھ اس دوران کیا جاتا ہے ۔ہمارے ہاں انڈو پاک میں چونکے عورت کی سوچ پر اس کے مرد اور اس کے سسرال کا پہرہ ہوتا ہے اس لیے بچے کے مزاج پر ایک سے زیادہ لوگوں کے رویے اثر انداز ہوتے ہیں ۔ اگرچہ یہ آسان نہیں ہے کہ آپ ایک مشترکہ خاندان میں رہتے ہوئے اس پر مکمل طور پر قابو پا سکیں لیکن کوشش ضرور کی جا سکتی ہے کہ عورت کو ذہنی طور پر آسودہ رکھیں اور اس سے اچھا برتاؤ کرنے کی کوشش کریں ۔

یہ کوشش اس بنیاد کا پہلا پتھر ثابت ہو سکتی ہے جو آپ اپنے بچے کی تربیت میں رکھیں گے ۔ ہمارے ہاں مشترکہ خاندان کا نظام رائج ہے جس کے فائدے بھی ہیں اور نقصانات بھی ۔ یہاں نہ تو شادی کے بعد فورا لڑکا لڑکی علیحدہ ہو سکتے ہیں اور نہ ہی انکے پاس ایسا اختیار ہوتا ہے لہٰذا جہاں آپکا اختیار نہیں ہے اس کے بارے میں سوچنا چھوڑ دیں اور موجودہ صورتحال کو تسلیم کر کے جو مسائل ہیں ان کے حل کے بارے میں سوچنا شروع کریں ۔بچوں کی تربیت اور میاں بیوی کی زندگی دو اہم نقاط ہیں جو بحث کے لائق ہیں ۔ یہاں ہمارا فوکس چونکے بچوں کی تربیت ہے ا س لیے اسی کی بات کریں گے ۔ سب سے پہلے تو میاں اور بیوی کو یہ بات سمجھنی پڑے گی کہ حالا ت جیسے بھی ہوں ان کا آپس کا برتاؤ بچے کی تربیت پر گہرا اثر ڈالتا ہے لہذا آپ دونوں کو بڑے تحمل اور بردباری کی ضرورت ہے ۔

والدین کی روک ٹوک، چچا اور پھوپھی کا عمل دخل ایک فطرتی عمل ہے اس میں الجھ کر،ان سے بحث کر کے، ان سے تعلّق خراب کر کے یا ان سے دور ہو کر (ایک گھر میں رہتے ہوے) یہ مسئلہ کبھی حل کی طرف نہیں جاتا ۔ آپ والدین کو کچھ کہیں گے تو گستاخی ہو گی اور وہ ناراض بھی ہو جائیں گے، چچا کو روکیں گے تو بھائی ناراض ہو جاے گا کیوں کہ وہ ابھی آپ کی پوزیشن کو سمجھ نہیں سکتا، پھوپھی سے کچھ کہیں گے تو بہن تو ناراض ہو گی لیکن بات دوبارہ والدین کے پاس آ جائے گی اور آخر میں اگر ان سب کے عمل سے تنگ آ کر بچے کو ڈانٹیں گے تو بچے کے اندر نفرت پلنے لگے گی ۔

اب معاملہ یہ ہے کہ آپ نے رشتوں کو بھی برقرار رکھنا ہے اور اپنے بچے کو بھی سکھانا ہے ․ اس کے لیے کچھ اصول کار فرما ہیں جن کی وضاحت میں ساتھ ساتھ کرتا چلوں گا ۔ پہلا اصول: آپ بچے کے ایکشن اور گھر والوں کے ری ایکشن کے نتیجے میں اپنا کوئی بھی ری ایکشن ظاہر نہ کریں عام طور پر ہوتا یہ ہے کہ جب بچہ کوئی غلط کام کرنے لگتا ہے یا کر لیتا ہے تو گھر والے (چچا،پھپھو، دادا، دادی) اس کے ری ایکشن میں غصے سے کچھ بولتے ہیں یا مار دیتے ہیں تو بچے کے ماں باپ اپنے ماں باپ کی طابع داری میں اس ری ایکشن کو اپنا ری ایکشن بنا لیتے ہیں ۔

اس طرح بچے پر دہرا دباؤ پڑتا ہے اور اس کی شخصیت متاثر ہوتی ہے اس لیے بچے کو فورا علیحدگی میں لے کر چلے جائیں اور اس کو پیار سے سمجھائیں کہ بڑے جو بھی کہیں آپ نے بد تمیزی نہیں کرنی ۔ اگر بچہ آپ کی بات پیار سے سمجھ جایے تو بہتر ورنہ سختی کر کے سمجھائیں ۔ماریں مت مگر مار کا ڈر دکھائیں ۔ یہ مشق آپ کو بار بار دہرانی پڑے گی تاکہ بچے کو باور کروایا جا سکے کہ رشتے بھی ہمارے لیے اہم ہیں ۔اسی اصول کی دوسری حالت ماں باپ کی غیر موجودگی میں بچے اور گھر والوں کا تعامل ہے ۔ اس میں بھی بچے کو یہ سمجھانا ضروری ہے کہ بغیر کوئی بات کیے فورا اپنے کمرے میں آ جاے یہ وہ جگہ چھوڑ دے جہاں سب بیٹھے ہیں ․ یاد رہے کہ اس مشق کے دوران اگر آپ اپنے گھر والوں کی عزت نہیں کریں گے تو آپ کا بچہ کبھی ان کی عزت نہیں کرے گا اور اگر آپ ہمیشہ بچوں کو ڈانٹیں گے تو بچہ آپ کی عزت نہیں کرے گا ، احساس کمتری کا شکار ہو جاے گا اور گھر سے باہر پناہ گاہ ڈھونڈے گا ․ دوسرا اصول:بچے کے ساتھ کبھی بھی بحث نہ کریں کیوں کہ بحث صرف ہم پلہ یا ہم عمر میں ہوتی ہے آپ نہ اپنے آپ کو نیچے کریں اور نہ ہی یہ توقع کریں کہ بچہ آپ کی سطح پر آ جائے۔

بچے کو ہمیشہ سوال کرنے دیں اور اس کے سوال کا ہر ممکن حد تک جواب دیں اگر نہ دے سکیں تو بھی ڈانٹیں مت پیار سے اسے منحرف کریں ۔ بچے کو یہ ترغیب دیں کہ وہ آپ سے سوال کرے تا کہ آپ اسے ایک سوچ دے سکیں ۔ ہمارے ہاں عموما یہ ہوتا ہے کہ بچے کو فورا جھڑک دیا جاتا ہے یا چپ کروا دیا جاتا ہے اس طرح کرنے سے بچے کے ذہن میں کئی سوالات جنم لیتے ہیں اور وہ ان کے جوابات باہر سے لینے کی کوشش کرتا ہے جن کے درست ہونے کی کوئی گارنٹی نہیں ہوتی ۔

تیسرا اصول: بچوں کے ساتھ روز رات کویا ہفتہ میں کم از کم تین دفعہ سونے سے پہلے میٹنگ کریں اور ان کی ماں سے اور بچوں سے باری باری پورے دن کی روداد سنیں، اس سے آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ بچے سارا دن کیسے گزارتے ہیں اور ان کا سلوک ۔اپنی ماں اور گھر والوں کے ساتھ کیسا ہوتا ہے ۔ اگر انہوں نے کچھ غلط کیا ہے تو ان کی سرزنش کریں اور ان کو وارننگ دیں کہ آئندہ ایسا نہیں ہونا چاہئیے ورنہ سزا ملے گی ۔ چوتھا اصول: آپ اپنے ماں باپ کی دل سے عزت کریں اور انھیں احترام دیں تاکہ بچے بھی ان سے بد اخلاقی نہ کریں ۔

ہم اپنے بڑوں سے صرف مودبانہ گزارش کر سکتے ہیں کہ بچوں کو روکتے وقت یا ٹوکتے وقت یا ان کو سمجھاتے ہوئے لہجہ نرم رکھیں تاکہ بچے کا ری ایکشن کم سے کم ہو لیکن یہ بات بار بار کہنے والی نہیں ہے اور یہ بات والدین سے صرف بیٹا کہہ سکتا بہو نہیں ۔پانچواں اصول: آپ کا اپنی رفیق حیات کے ساتھ برتاؤ (چاہے وہ کسی قسم کا بھی ہو) بچوں کی تربیت میں بڑ ا اہم کردار ادا کرتا ہے ۔آپ اس کی جتنی عزت کریں گے بچے اپنی ماں کی اس سے زیادہ عزت کریں گے ۔ آپ اس کو گالیاں دیں گے ، مار پیٹ کریں گا تو بچے اس روش کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیں گے اور اختیار ملنے پر عورت سے ایسا ہی سلوک کریں گے جیسا اس نے اپنے ماں اور باپ کو دیکھا ہے ۔

آپ اپنی بیوی کے ساتھ ہر وقت غیر سنجیدہ رہیں گے تو بچوں پر آپ کی بات کا اثر کم ہو گا کیوں کہ بچے آپ کو ایک غیر سنجید ہ انسان سمجھنے لگ جاتے ہیں ۔ ماں اور باپ بچوں کے آئیڈیل ہوتے ہیں لہذا اس امر کی شدید ضرورت ہے کہ ہم ان کے سامنے اپنے سنجیدہ اور غیر سنجیدہ دونوں جذبات کا استعمال نہایت احتیاط سے کریں ۔چھٹا اصول: بچوں کے سامنے کبھی بھی گھر کی باتیں نہ کریں ․ غیبت ہمارے ہاں عام ہے لیکن خدارا اس سے بچ نہیں سکتے تو بچوں کے سامنے تو نہ کریں ۔ گھر کے ملازمین و ہمسایوں اور رشتہ داروں کے بارے میں اپنے منفی جذبات کا اظہار کبھی بچوں کے سامنے نہ کریں ۔

اس سے وہ منفیت بچوں میں منتقل ہوتی ہے ․ بچوں کے سامنے بات کرتے وقت لہجہ اور الفاظ کا انتحاب بڑا سوچ سمجھ کر کیجئے کیوں کہ آپکے الفاظ اور آپکے لہجے ہی کل کو بچوں کی زبان اور مزاج میں موجود ہوں گے ۔ ساتواں اصول: گھر میں کوئی بھی مہمان اے تو بچوں کے سامنے کبھی اپنی آوازاری یا کرختگی کا اظہار نہ کریں ورنہ کل کو وہ بھی مہمانوں کو مصیبت ہی سمجھے گا اور کسی مہمان کی عزت نہیں کرے گا ․ اس کو یہ احساس دلائیں کہ مہمان اللہ کی رحمت ہوتے ہیں ․ یہ احساس آپ اسی وقت دے سکتے ہیں جب یہ آپ کے پاس موجود ہو گا ۔

آٹھواں اصول: بچوں کی ماں کو بتائیں کہ کن چیزوں پر بچوں کی سرزنش ضروری ہے اور کن چیزوں پر گھر اہم ہے ․ جب بھی بچوں کو کوئی ہدایت دیں اس پر سختی سے عمل کروانا ماں اور باپ دونوں کی ذمہ داری ہے ․ جب آپ کسی بھی ہدایت پر عمل نہیں کروایں گے اور یہ کہہ کر نظر انداز کر دیں گے کہ بعد میں ٹھیک ہو جائے گا۔حضور والا وہ کبھی ٹھیک نہیں ہو گا اور ہمیشہ آپ کی باتوں کو نظر انداز کرے گا ۔ بعض دفعہ ماں یا باپ کے منع کرنے کے دوران دادا یا دادی بول پڑتے ہیں تو اس وقت بغیر کچھ بولے بچے کو علیحدہ لے جایں اور اس کام سے باز کریں جو وہ کر رہا ہے یا کرنے جا رہا ہے اور بعد میں دادا دادی کو بتا دیں کہ اس کو اس بات سے روکنا ضروری ہے ورنہ خراب ہو جاے گا ۔

یہاں ایک اور بات کرتا چلوں کہ بیٹے اور بیٹی کی فطرت میں فرق تو ہوتا ہی ہے لیکن ہم اس کی تربیت میں بھی اتنا فرق ڈال دیتے ہیں کہ بعض دفعہ تو ساری زندگی لگ جاتی ہے دونوں کو یہ فرق مٹاتے ہوئے۔ ہم فرط جذبات میں کہیں بیٹوں کو حد سے زیادہ مان دے دیتے ہیں اور کہیں بیٹیوں کو بے جا لاڈ ۔ہمیں اپنے جذبات کا تواتر رکھنا بھی سیکھنا ہو گا ․ ہمیں یہ سیکھنا ہو گا کہ کہاں بیٹے کو سپورٹ دینی ہے اور کہاں بیٹی کو لاڈ دینا ہے۔ بیٹے اور بیٹی کے جذبات میں فرق ہوتا ہے ․ دونوں پر ہمیشہ ایک جیسے اصول لاگو نہیں ہو سکتے اس لیے ہمیں تحمل سے ان کا تجزیہ کر کے اس کے حل کی طرف جانا چاہئیے ․ غصے سے ہم کبھی بھی بچوں کو کوئی بات نہیں سمجھا سکتے ۔

غصہ صرف اس بات پر کرنا چاہئیے جو ہمیں لگے کہ ایسا نہیں ہونا چاہئیے تھا ۔ حضور والا میں نے پوری کوشش کی ہے کہ روز مرہ زندگی میں بچوں کی تربیت سے متعلق مسایل کو اجاگر کیا جاے اور ان کا مناسب حل تجویز کیا جاے ․ بہتری کی گنجائش ہمیشہ موجود رہتی ہے اس لیے اگر کوئی بھی نقطہ ایسا رہ گیا ہو جس پر میں روشنی نہیں ڈال سکا تو میں آپ کے ہر سوال کو خوش آمدید کہوں گا ․والدین کی ازدواجی زندگی اور بچوں کی تربیت کے حوالے سے میں نے ایک کونسلنگ گروپ کا بھی آغاز کر دیا ہے ۔جہاں صرف والدین اپنی اور اپنی بچوں کی زندگی کی بہتری کے لیے اپنے سوالات داخل کر سکتے ہیں ․اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اس مقصد میں کامیاب کرے تاکہ ہم اپنی اچھی عادتوں اور مثبت سوچ کو بچوں میں منتقل کر سکیں کیوں کہ بچے ہماری شحصیت کا آئینہ ہوتے ہیں ۔ اگر بچے پیدا کر کے ان کی تربیت نہیں کر پاے تو زندگی کا کوئی فائدہ نہیں ۔اللہ تعالی ہمیں آسانیاں عطا کرے اور آسانیاں بانٹنے کی توفیق دے ۔ آمین

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.