10 اکتوبر 2020 ء ہفتہ کے دن نماز عشاء کے بعد نکاح کی ایک تقریب میں موجود تھا کہ ایک دوست نے یہ المناک خبرسنائی کہ ”شیخ الحدیث مولاناڈاکٹر عادل خان“پر قاتلانہ ہوگیا ہے،ان کا ڈرائیور شہید ہوگیا اوروہ خود شدید زخمی ہیں،چند لمحے بعد فیس بک کے ذریعے یہ خبر صاعقہئ آسمانی کی طرح دل ودماغ میں پیوست ہوگئی کہ رئیس المحدثین حضرت مولاناشیخ سلیم اللہ خان کے فرزند کبیر شیخ الحدیث مولاناڈاکٹر عادل خان اب دنیا میں نہیں رہے،یہ خبر انتہائی دردناک اور المناک تھی کہ جس شخصیت کی ابھی مذہبی طبقات کو بہت زیادہ ضرورت تھی اسی کو کراچی کے سفاک قاتلوں نے ان سے چھین کر اپنے ظلم وستم کا نشانہ ڈالا،شیخ الحدیث مولاناڈاکٹر عادل خان شہید رحمۃ اللہ علیہ ملک کے عظیم محدث وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے صدر شیخ الحدیث حضرت مولاناسلیم اللہ خان بانی جامعہ فاروقیہ کراچی کے سب سے بڑے فرزند،جامعہ فاروقیہ حب چوکی کے مہتمم،جامعہ فاروقیہ شاہ فیصل کالونی کے سرپرست اعلی،تحریک ناموس صحابہ واہل بیت کے قائد اور وفاق المدارس کے اہم ذمہ داروں میں شمار ہوتے تھے،1973ء میں اپنے والدگرامی کے قائم کردہ جامعہ فاروقیہ میں اپنے عظیم والد سے دورہ حدیث پڑھ کر سند فراغت حاصل کی،1976ء میں کراچی یونیورسٹی سے بی اے ہیومن سائنس،1978ء میں ایم اے عربک اور 1992ء میں اسلامک کلچرمیں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی،1980 ء میں جامعہ فاروقیہ سے تین زبانوں میں چھپنے والے رسالے الفاروق کے ایڈیٹربنے اور تاشہادت اس علمی خدمت کے ساتھ منسلک رہے،80 کی دہائی میں کراچی کے اندر تحریک سواد اعظم چلی جس کے سربراہ شیخ الحدیث مولاناسلیم اللہ خان رحمہ اللہ تھے،آپ اس تحریک میں اپنے والدگرامی کے شانہ بشانہ کلیدی کردار اداکرتے ہوئے تحریک میں اپناحصہ ڈالتے رہے،1986 ء سے 2010 تک جامعہ فاروقیہ کے سیکرٹری جنرل رہے،پھر امریکہ چلے گئے اور وہاں ایک عظیم الشان اسلامک سینٹر قائم کرکے دین اسلام کی خدمت کرتے رہے،2010 ء سے 2018 ء تک ملائشیا کوالالمپور کی مشہور یونیورسٹی میں کلیۃ معارف الوحی اور انسانی علوم میں بطور پروفیسر علمی خدمات انجام دیتے رہے،آپ قدیم وجدید علوم میں مہارت کے ساتھ ساتھ ایک محقق ومصنف بھی تھے،انہی خدمات کے صلہ میں ملائشیاہائر ایجوکیشن کی جانب سے ریسرچ،تصنیف وتحقیق کی بنا پر فائف اسٹار رینکنگ ایوارڈ سے آپ کونوازاگیا،یہ ایوارڈ آپ کو ملائشیا کے صدر نے اپنے ہاتھوں سے عنایت کیا،آپ وفاق المدراس العربیہ پاکستان کے مرکزی کمیٹی سینئر رکن،وفاق المدارس کی مالیات،نصاب اور دستور ی کمیٹی جیسی بہت سی اہم کمیٹیوں کے چیئرمین رہ چکے ہیں،شیخ الحدیث مولاناڈاکٹرعادل خان شہید کو انگلش،عربی،اردو،پشتو سمیت دس زبانوں پر عبور حاصل تھا،آپ بہترین معلم،فصیح وبلیغ خطیب اور عظیم ادیب تھے،علوم القرآن،علوم الحدیث،تعارف اسلام،اسلامی دنیا،اسلامی معاشیات،اخلاقیات،قفہی مسائل،آیات احکام القرآن اور احکام فی الحدیث،مقاصدشریعہ،تاریخ اسلام،تاریخ پاکستان اور اردوعربی ادب جیسے موضوعات میں دلچسپی اور مہارت رکھتے تھے،2017 ء میں اپنے والد گرامی شیخ الحدیث مولاناسلیم اللہ خان رحمہ اللہ کی وفات کے بعد پاکستان واپس آئے اور اپنے والد کے قائم کردہ جامعہ فاروقیہ کی دونوں شاخوں کا نظم ونسق سنبھالااور شیخ الحدیث کے عہدے پر فائز ہوئے،بعد ازاں جامعہ فاروقیہ شاہ فیصل کالونی اپنے بھائی مولاناعبیداللہ خالد کے حوالے کرکے اپنی تمام تر توجہ جامعہ فاروقیہ حب چوکی پر مرکوز کی جس کو مولاناشہید جدید خالص عربی پر مبنی تعلیمی ادارہ اور عظیم الشان یونیورسٹی بناناچاہتے تھے۔پسماندگان میں چار بیٹے مولانامفتی محمدانس عادل،مولاناعمیر،مولانازبیر،مولاناحسن،ایک بیٹی،ایک بیوہ،دوبھائی مولاناعبیداللہ خالد اور مولاناعبدالرحمن سوگرار چھوڑے ہیں،دوبیٹے مولاناحسن،مولانازبیر اور ایک بیٹی ملائشیا میں مقیم ہیں،پاکستان سے امریکہ اور ملائشیا تک کے علمی سفرمیں مولانامرحوم کے لاکھوں شاگرد ہیں جو دنیا بھر میں دین اسلام کی خدمت میں مصروف عمل ہیں،گزشتہ محرم الحرام میں صحابہ کرام اور اہل بیت عظام کے خلاف بعض بدبختوں کی طرف سے ہرزہ سرائی کے بعد آپ نے صحابہ کرام کی عزت وناموس کے تحفظ کے لئے کراچی،ملتان سمیت دیگر کئی شہروں میں لاکھوں افرادپر مشتمل اجتماعات منعقد کرکے اپنی قیادت کا لوہا منوایا اور تمام مسالک کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرکے وحدت امت کی ایک مثال قائم کی،مولاناشہید وحدت امت اوربین المسالک ہم آہنگی کے علمبردار تھے،نفرت انگیزی اور فرقہ واریت کی حوصلہ شکنی آپ کا مشن تھا،وفاق المدار س کے حوالے سے آپ کی بیش بہا خدمات ہیں،گزشتہ ہفتے جب راقم الحروف اسلام آباد میں قائدجمعیت مولانافضل الرحمن کی رہائشگاہ پر حاضرہوا تو وفاق المدارس العربیہ کے اکابر کسی اہم معاملہ میں وہاں موجود تھے،ان میں شیخ الحدیث ڈاکٹر مولاناعادل خان شہید بھی تھے،کیا معلوم تھا کہ ان سے یہ آخری ملاقات ہے،قائدجمعیت کے ساتھ بھی ان کی یہ آخری ملاقات تھی،موصوف ایک نڈر،بیباک اور جرات مند رہنما تھے،قائدجمعیت مولانافضل الرحمن کے ساتھ ان کے شروع سے قریبی تعلقات تھے،ہفتہ کے دن مولاناشہید دارالعلوم کراچی تشریف لے گئے تھے،شیخ الاسلام مولانامحمدتقی عثمانی صاحب سے ملاقات کی مغرب کی نماز دونوں بزرگوں نے اکٹھی پڑھی8 بجے وہاں سے نکلے،شمع شاپنگ سینٹر کے قریب مٹھائی کی دکان کے سامنے ان گاڑی رکی بیٹاشاید مٹھائی لینے دکان پر چلاگیا، اس دوران دوبدبخت بھڑیوں نے علمی دنیا کے اس عظیم انسان پر اپنے ناپاک ہاتھوں سے گولیاں برساکر شہید کردیا،سی سی ٹی وی کیمروں نے سب کچھ محفوظ کیا ہے اگر حکومت چاہے تو چندلمحوں میں قاتل شکنجے میں آسکتے ہیں لیکن کہ آج تک کسی عالم دین کے قاتل گرفتار نہ ہوسکے،ہمارے علاقوں میں پولیس اندھے قتل کیس میں چند دنوں میں قاتلوں تک پہنچ جاتی ہے مگر سی سی ٹی وی کیمروں میں ڈیٹامحفوظ ہونے کے باوجوداس قدراہم علماء کے قاتل گرفتار نہیں ہوسکتے اور اگر گرفتار ہوبھی جاتے ہیں تو انہیں سرکاری مہمان کے اعزازسے نوازکریاتو بیرونی ملک فرار کردیاجاتا ہے اور یاسرکاری مہمان خانوں میں ان کا اعزازواکرام ہوتا ہے،ریاست مدینہ کے حکمرانوں کو چاہئے کہ مولاناڈاکٹرعادل خان شہید کے قاتلوں کو سرعام پھانسی پر لٹکادیں تاکہ عوام کو معلوم ہو کہ ریاست مدینہ کا تصور دینے والے اپنے ارادوں میں سچے ہیں۔مولاناڈاکٹر عادل خان کی موت پر ہر شخص اشک بار ہے،علماء،طلباء،قائدین،سیاسی رہنما،تاجر وکلاء،غرضیکہ تمام شعبہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ آپ کی اس اچانک اور مظلومانہ شہادت پر رنجیدہ، دل درفتہ اور حیران ہیں کہ جب اس قسم کے عظیم لوگوں پر اس قسم کا ظلم ہوتاہے تو پاکستان میں کون محفوظ رہ سکے گا،جب ریاست اس قسم کی علمی اور مذہبی شخصیات کو سیکیورٹی فراہم نہیں کرسکتی تو عام آدمی کی حفاظت کس طرح کرے گی،شیخ الحدیث مولاناڈاکٹر عادل خان کی شہادت ایک قومی المیہ ہے،بحیثیت قوم ہم اس قدر بے حس ہوچکے کہ ہم اپنے استاذوں اور اپنے محسنوں کی حفاظت نہیں کرسکتے تو عام لوگوں کی کیاحفاظت کریں گے؟ کیا حکمران اپنی ان باتوں پر قائم ہیں کہ جس مقتول کے قاتل نہ پکڑے جائیں تو حکومت وقت اس کی قاتل ہوتی ہے؟