ختم نبوت مسلمانوں کا بنیادی عقیدہ ہے جس کے بغیر کوئی شخص مسلمان نہیں ہوسکتا،اس عقیدہ کی اہمیت کی خاطر حضرت صدیق اکبر ؓ نے نبی کریم ﷺکے جانشین بننے کے بعد سب سے پہلے اسی عقیدے کے تحفظ کے لئے لشکر روانہ کئے اور سب سے زیادہ قربانیاں صحابہ کرام نے اسی عقیدے کے تحفظ کے لئے دی ہیں،جنگ یمامہ تاریخ اسلام کی مشہور لڑائی ہے جس میں ایک ہزار سے زیادہ صحابہ کرام نے اپنی جانوں کانذرانہ پیش کیا،جن میں آدھے صحابہ قرآن پاک کے حافظ اور قاری تھے،جس سے عقیدہ ئ ختم نبوت کے تحفظ کی اہمیت کا اندازہ بخوبی لگایاجاسکتا ہے،آج جب ہر طرف سے ہمارے آقائے دوعالم ﷺکی عزت وناموس پر حملے ہورہے ہیں،مشرق ومغرب میں وہ لوگ جو اپنے آپ کو مہذب وتعلیم یافتہ کہلانے میں کوئی باک محسوس نہیں کرتے،جنہیں اپنے تہذیب یافتہ ہونے کا زعم ہے،جنہیں اپنے تعلیم یافتہ ہونے پر گھمنڈ ہے،جو دنیا میں حقوق انسانی کے علمبردار ہونے کے دعویدار ہیں،جو ہیومن راٹس کے لئے دبلے پتلے ہوتے جارہے ہیں،مگر یہ نام نہاد تہذیب یافتہ،انسانی حقوق کے جھوٹے دعویدار ہمارے نبی کریم ﷺکی شان میں ہرزہ سرائی کرتے ہوئے کسی قسم کی کوئی شرم محسوس نہیں کرتے،ڈنمارک میں کا ایک بدنام زمانہ اخبار تو مسلسل کئی عرصہ سے کائنات کی سب سے مقدس ترین ہستی کی شان اقدس میں گستاخیاں کرتے ہوئے عالم اسلام کے مسلمانوں کے دلوں کو مجروح کررہاہے مگر عالمی اداروں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی اور ان کو اس گستاخی کے خلاف کسی قسم کی قانون سازی کی توفیق نہیں ملتی،اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مسلمان فرقوں میں بٹ چکے ہیں،فرقہ واریت کے دلدل میں پھنس چکے ہیں،ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار ہیں،دشمنان اسلام نے مسلمانوں کے اس باہمی اختلافات سے سمجھ لیا ہے کہ شاید مسلمانوں کی غیرت ایمانی کا خاتمہ ہوچکا ہے،اس لئے وہ بار بار اس قسم کی ہرزہ سرائی کرتے ہوئے آئے روز مسلمانوں کے دل مجروح کرتے آرہے ہیں،قادیانی لابی ایک دفعہ پھر متحرک ہوچکی ہے،کئی طریقوں سے وہ اپنے آپ کو مسلمان ثابت کرنے کی سازشوں میں مصروف ہیں،ان کے سہولت کار حکومت کے اندر بھی موجود ہیں جس کا اعتراف مذہبی امور کے وفاقی وزیرخود بھی کرچکے ہیں،ایسے حالات میں ملک بھر میں ختم نبوت کا دفاع ہر مسلمان کا فرض بنتا ہے،ختم نبوت پر حملوں کے ساتھ ساتھ اس دفعہ عاشورہ کے موقع پر صحابہ کرام ؓکے خلاف بھی کھل کھلا بدزبانی کی گئی،مسلمانانِ عالم کے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ ایک طرف مسلمانوں کے آقاومولیٰ نبی کریم ﷺ کے خلاف گستاخیاں کی جارہی ہیں،دوسری طرف مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن پاک کوجلائے جانے جیسی مذموم حرکتیں کی جارہی ہیں اور تیسری طرف مسلمانوں کی مقدس شخصیات صحابہ کرام ؓاور اہل بیت عظامؓ کے خلاف حرف گیری کرنے کا سلسلہ بھی چل نکلا ہے یعنی مسلمانوں کے ایمان پر ہرطرف سے حملے ہورہے ہیں اور ان کی ایمانیات کو بڑی منصوبہ بندی کے چھیڑاجارہاہے،ان کے بنیادی عقائد پر پے درپے ضربیں لگائی جارہی ہیں،ان کو ذہنی طورپر ٹارچر کیاجارہاہے تاکہ مسلمان تھک ہار کر ان شیطانی قوتوں کے سامنے ہتھیار ڈال دیں اور جس طرح دیگر الہامی مذاہب کے لوگ الحاد وزندقہ،لادینیت ولامذہبیت،اورعریانی و فحاشی کے شکار ہوکر اپنے اپنے مذہب سے دورہوچکے ہیں اسی طرح مسلمان بھی اسی اباحیت کے دلدل میں پھنس کر دین اسلام سے دورہوجائیں اور پوری دنیا عریانی وفحاشی کا اڈہ بن جائے اور کوئی طاقت ان فحاش وملحد لوگوں کے ارادوں میں کوئی رکاوٹ نہ بن سکے،اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب اس جال میں پھنس چکے ہیں وہان قوتوں کے سامنے ہتھیار ڈال چکے ہیں، صرف ایک اسلام اور مسلمان ان شیطانی قوتوں کی راہ میں رکاوٹ ہے جس کو وہ ان حربوں کے ذریعے ہٹاناچاہتے ہیں مگر انہیں معلوم نہیں کہ مسلمانوں کو شکار کرنا اتناآسان نہیں کہ انہیں ترنوالے کی طرح نگل لیا جائے،مسلمان جتنے بھی گئے گزرے ہوں،جتنے بھی گنہ گار ہوں،جتنے بھی اعمال سے دورہوں مگر پیغمبر اسلام ﷺاور ان کے جانثارصحابہ کرام واہل بیت عظام رضوان اللہ علیہم کے بارے میں کسی قسم کی ادنیٰ سے ادنیٰ گستاخی برداشت نہیں کرسکتے،اوگی میں ختم نبوت ومدح صحابہ کانفرنس کا انعقاد بھی اسی سلسلہ کی کڑی ہے تاکہ ہماری نئی نسل کوختم نبوت پرپختہ ایمان ویقین اور صحابہ کرام ؓواہل بیت عظامؓ کی عزت وناموس کا بخوبی علم ہو اور ان کے دفاع کے لئے وہ ہرقسم کی قربانی دینے کا جذبہ رکھتی ہوں،آج بروزاتوار 18اکتوبر کو ہونے والی ختم نبوت ومدح صحابہ کانفرنس کے مہمان گرامی محافظ ختم نبوت،شاہین جمعیت سابق سینیٹر مولاناحافظ حمداللہ صاحب ہیں جو ایک منجھے ہوئے پارلمنٹیرین، بیباک تجزیہ نگار،حق گو خطیب،جید عالم دین اور نڈر لیڈر ہیں،حافظ صاحب کو ملک کا بچہ بچہ جانتا ہے اور ان کی حق گوئی وبیباکی کامعترف ہے،اسی حق گوئی وبیباکی کے باعث گزشتہ سال ان کی شہریت منسوخ کی گئی اور انہیں غیر ملکی ظاہر کیا گیا،تاکہ ان کی زبان بندی کی جاسکی مگر ان ہتھکنڈوں کے ذریعے بھی حافظ حمداللہ صاحب کی زبان کو تالے نہیں لگائے جاسکے اور وہ آج بھی اسی بانکپن کے ساتھ چوروں لٹیروں،ڈاکوؤں اور آئین شکنوں کو بے نقاب کرتے ہوئے الیکٹرانک میڈیا پر بڑے بڑوں کی بولتی بند کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں،حافظ صاحب کا تعلق صوبہ بلوچستان کے افغان باڈر پر واقع شہر ”چمن“سے ہے،آپ دارالعلوم کراچی کے فارغ التحصیل عالم دین ہونے کے ساتھ بلوچستان یونیورسٹی سے پولیٹیکل سائنس میں ماسٹرکی ڈگری ہولڈربھی ہیں،حافظ حمداللہ صاحب کو قوم نے محافظ ختم نبوت کا لقب دیا ہے کیونکہ انہوں نے 22ستمبر 2017 ء اس وقت ختم نبوت کا دفاع کیا جب سینٹ آف پاکستان میں قانون سازی کے وقت ختم نبوت کے متعلق حلف نامے کو اقرارنامے میں تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی تو حافظ صاحب اس کے خلاف میدان میں آئے سینٹ کے ممبران کو اس معاملہ کی اہمیت کا احساس دلایا اور پھر اس معاملہ میں ترمیم لے کر آئے لیکن پی ٹی آئی،پی پی پی اورمسلم لیگ کے ممبران سینٹ کی اکثریت نے اس کے خلاف ووٹ دیا اور اس طرح حافظ صاحب اپنی کوشش میں ناکام ہوگئے مگر اس آواز اور کوشش نے حافظ حمداللہ صاحب کو ملک بھر میں وہ مقبولیت ومحبوبیت عطا کی کہ اس وقت سے لیکرآج تک حافظ صاحب ملک کے کونے کونے میں سفرپر سفرکرتے چلے جارہے ہیں،ان سے تقریر وخطاب کے لئے کئی ماہ پہلے وقت لیاجاتا ہے،ہرادارے اور ہر علاقے کے لوگوں کی خواہش ہوتی ہے کہ حافظ حمداللہ صاحب ان کی مجلس کی رونق بن جائیں،تمام طبقات اور تمام شعبوں سے متعلق لوگ ان کے خطاب کو بڑی دلچسپی کے ساتھ سنتے ہیں،بلاتفریق پارٹی وجماعت ہرنوجوان ان کو سننے کے لئے بیتاب رہتا ہے،ہرشخص ان کے ساتھ سیلفی لینے کی خواہش رکھتا ہے،ہر شخص ان کے ساتھ بیٹھنے کو اپنی سعادت سمجھتا ہے،ختم نبوت کے لئے سینٹ آف پاکستان میں ان کی یہ کاوش اگرچہ اس وقت صدا بصحرا ثابت ہوئی لیکن اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کی مقبولیت کا یہ عالم ہوا کہ حافظ صاحب کو لوگ ہاتھوں پر لئے پھرتے ہیں، ان کی تقریر اور الیکٹرانک میڈیا پر ان کی گفتگو کو ہرشخص بڑے شوق سے سنتا ہے،آج کی ختم نبوت ومدح صحابہ کانفرنس کے دوسرے مقرر اسیر ختم نبوت بطل حریت مفتی کفایت اللہ صاحب ہیں جو حافظ صاحب کی طرح بیباک تجزیہ نگار،نکتہ ورخطیب اور نڈر رہنما ہیں،کوروناوائرس کے دنوں میں احترام انسانیت کے جرم میں 22دن قیدوبند کی صعوبتیں برادشت کرچکے ہیں،دونوں رہنما الیکٹرانک میڈیا پر جمعیت علماء اسلام کے موقف کو بڑی دلیری اور مدلل طریقے سے پیش کرنے میں اپناثانی نہیں رکھتے،دونوں رہنما آج اوگی میں جلوہ افروزہوں گے اپنی بیباک خطابت سے اہلیانِ اوگی کو محظوظ کرتے ہوئے ختم نبوت، مدح صحابہ، جمعیت علماء اسلام کے پیغام اور قائدجمعیت مولانافضل الرحمن کے بیانیہ کو عوام تک پہنچاتے ہوئے باطل قوتوں کی سازشوں سے پردہ اُٹھائیں گے۔