فرانس کے دارالحکومت پیرس کے علاقہ میں ایک تعلیمی ادارے کے اندر بچوں کو تعلیم دینے والے سیموئل نامی ایک سرپھرے ٹیچر نے کلاس میں مسلمانوں کی سب سے محبوب ہستی آقائے دوجہاں،سرکاردوعالم،فخردوعالم،رحمۃ للعالمین،حضرت محمدمصطفیﷺ کے گستاخانہ خاکے بنائے،کلاس میں پڑھنے والے مسلمان بچوں نے اس بات کی شکایت کی جس پر والدین نے سکول انتظامیہ کے پاس اپنااحتجاج ریکارڈ کروایا،لیکن پیرس جیسے متمدن ومہذب شہر میں رہنے والی سکول انتظامیہ ٹس سے مس نہ ہوئی،مسلم طلبا ء میں شدید غم وغصے کی کیفیت پیداہوگئی،جمعہ 16 اکتوبر 2020کو اس کارٹونسٹ ٹیچر نے ایک بار پھر سے گستاخانہ خاکے بنائے اور نہ صرف خود بنائے بلکہ طلبہ کو بھی گستاخانہ خاکے بنانے کا کہا،جس پر مسلم طلبہ کے جذبات کو سخت ٹھیس پہنچی مگر ایک نوجوان طالب علم کے جذبات کوگویا آگ لگ گئی،اس کے جذبات اس قدرشدید مجروح ہوئے،کہ وہ اندر ہی اندر سے ٹوٹتا چلاگیا،اسے اپنی زندگی بے کار اور فضول نظر آنے لگی،پیرس جیسے ترقیافتہ،خوبصورت اورعیش وعشرت سے بھرے شہر میں اس کادم گھٹنے لگا،اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیراچھا گیا،ایک اضطراب اور بے چینی نے اسے تلملاکرحیران وسرگردان کرکے رکھ دیا،کیونکہ اس کی آنکھوں کے سامنے اس کی سب سے محبوب ہستی کو ایک بدباطن نے اپنی خباثت کا نشانہ بنایا تھا، بالآخر اس نے کائنات کی محبوب ترین ہستی کے متعلق ہرزہ سرائی کرنے والے ٹیچر کو روئے زمین سے مٹانے کا فیصلہ کرلیا،اس نے عقل کی بندھنوں سے نکل کر عشق کی لامحدودوادی میں پہنچنے عزم کرلیا،اس نے خنجر لے کر پیرس کی بازاروں میں اس گستاخ کارٹونسٹ ٹیچرکا تعاقب شروع کردیا،شام 5 بجے کے قریب اس نے موقع پاکر ٹیچرسیموئل کی گردن دبوچ لی اور شیرکی طرح دھاڑ کر ایک دم اس کا سرقلم کرکے رکھ دیا،سیموئل کی گردن کو اس کے ناپاک جسم سے جداکرکے زمین پرپھینک دیا،سیموئل کو جہنم واصل کرکے اس نوجوان کی روح کو سکون مل گیا،وہ جس منزل کی تلاش میں سرگرداں تھا،وہ منزل اسے مل چکی تھی وہ جس اضطراب کا شکار تھا وہ سکون میں بدل چکاتھا،وہ جس پریشانی میں مبتلا تھا اس کی جگہ دائمی خوشیاں اس کا مقدر بن چکی تھیں،پھر اس نوجوان نے نہایت ہی اطمینان سے سیموئل کی کٹی ہوئی گردن کی تصویر ٹویٹر پر اپ لوڈ کرکے فرانسیسی صدر میکرون کو مخاطب کرتے ہوئے…”ہرگستاخ رسول کی سزا…..سرتن سے جدا….“کا پیغام بھی لکھا،سیموئل کی قتل کا سن کر فرانسیسی پولیس سائرن کی گونج میں جائے وقوعہ پہنچ گئیں،نوجوان مسکرا رہاتھا،اس کے ہاتھ میں خنجر اور چھوٹی سی پسٹل موجود تھی،17سالہ اس خوبرو نوجوان سے پولیس اس قدر خوفزدہ تھی کہ ایک قدم آگے بڑھنے کی جرات نہیں کرسکتی تھی،اِدھر اس نوجوان نے خوشی کے مارے سینہ تان کرنعرہ تکبیر بلند کیااُدھر سے پولیس نے گولی چلائی اور اس عاشق رسول نوجوان کوخون میں تڑپاکر رکھ دیا،حضرت سمیہ ؓ اور حضرت خبیبؓ نے جس سفر کا آغاز مکہ کی سرزمین سے کیا تھا وہ نوجوان فرانس کی سرزمین پر اس سفر کا راہی بن کر حیات جاوداں حاصل کرگیا۔اس کمسن نوجوان کا نام عبداللہ الزوروف تھا،فرانسیسی میڈیا کے مطابق عبداللہ2003 ء میں چیچنیا میں پیداہوا،چیچنیا میں خانہ جنگی اور قتل وغارت کی وجہ سے عبداللہ کے والدین چیچنیا چھوڑنے پر مجبور ہوئے،حالات نے عبداللہ کے خاندان کو فرانس کی سرزمین پر پناگزین کی حیثیت سے جگہ دلوائی،فرانس جا کر عبداللہ نے پڑھنا شروع کردیا،وہ خود کو علم کے زیور سے آراستہ کرکے ایک خوشگوار زندگی گزارنا چاہتاتھا، ملک سے ہزاروں میل دورہجرت کرنے والے اس کے والدین اپنے بیٹے عبداللہ سے بے شمار امیدیں وابستہ کئے ہوئے تھے،انہوں عبداللہ کے بارہ میں بے شمار حسین خواب سجارکھے تھے،وہ اسے تعلیم یافتہ اور بہترمستقبل کے لئے سکول میں داخل کرچکے تھے،لیکن سیموئل جیسے شیطان فطرت بدباطن نے ان کی دنیا کی تمام امیدوں پر پانی پھیر دیا مگر عبداللہ الزوروف اپنے والدین کے لئے وہ کچھ کرگئے جو بہت کم لوگوں کی قسمت میں ہوتا ہے،عبداللہ کے والدین یقینا خوش قسمت تھے جن کے کمسن بیٹے نے اپنی اُبھرتی ہوئی جوانی آقائے دوعالم ﷺکی عزت وناموس پر قربان کرکے حیات جاودانی کی عظیم نعمت پالی،مغربی معاشرہ اظہار رائے کی آزادی کے نام پرآئے روز مسلمانوں کی دل آزاری کررہاہے،کائنات کی سب سے مقدس ہستی کو اپنے گندی حرکتوں کانشانہ بنارہاہے،مسلمانوں کی دل آزاری مغربی سورماؤں کا محبوب مشغلہ بن چکا ہے،آقائے دوعالم ﷺکی شان اقدس اور قرآن مقدس کے بارہ میں گستاخی ان کے ہاں ایک معمول بن چکاہے،حالانکہ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ مسلمان اس چیز پر سب سے زیادہ جذباتی ہوتا ہے،انہیں یہ یقین ہے کہ مسلمان اپنے نبی کی گستاخی کسی قیمت پربھی برداشت نہیں کرتا،مگر اس کے باوجود مغربی معاشرہ کے سیاہ دل لوگ اپنی گندی حرکتوں سے باز نہیں آتے،ان کے ہاں یہ بیماری اس قدر سرایت کرچکی ہے کہ حکمرانوں سے لے کر مذہبی پیشواؤں تک سب کے سب اس جرم میں ایک دوسرے سے بڑھ کر مسلمانانِ عالم کے جذبات کو مجروح کرنے کے درپے ہیں،مسلمان چاہے دنیا کے کسی خطے میں رہنے ولا ہو وہ اپنے نبی کریم ﷺکی شان میں کسی قسم کی کوئی گستاخی برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں،یہ صرف پاکستان یا افغانستان کے مسلمانوں کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ پوری دنیا کے مسلمانوں کابنیادی عقیدہ ہے اور جو شخص مسلمانوں کے اس بنیادی عقیدے پر حرف گیری کرے گا اس کو اسی انجام سے دوچار ہونا پڑے گا جس انجام سے فرانس کا کارٹونسٹ ٹیچر سیموئل کو دوچار ہونا پڑا،عبداللہ الزوروف کسی مدرسہ اور مسجد کا طالب علم نہیں تھا اور نہ ہی اس نے کسی جگہ ختم نبوت کا کورس پڑھاتھا،بلکہ وہ ایک سیدھا سادہ مسلمان نوجوان تھا جو چیچیناجیسے جنگ زدہ علاقہ میں پیداہواتھا اور پیرس جیسے آزادخیال شہر کا رہائشی تھا جہاں کسی قسم کا کوئی مذہبی ماحول نہیں کہ وہ کسی مذہبی ماحول سے متاثر کر سیموئل کے قتل پر آمادہ ہوچکاہو بلکہ ایمان کی وہ چنگاری جو اس کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی،سیموئل کی گستاخی پر وہ چنگاری ایک ایسا شغلہ بن گئی جس نے فرانس جیسے ملک میں اپنے تمام تر مستقبل کی پرواہ کئے بغیر سیموئل کواس کے انجام بد تک پہنچادیا، مغربی سورماؤں کو اب تو احساس ہونا چاہئے کہ وہ جہاں بھی پیغمبر اسلام ﷺکے بارہ میں بدزبانی کریں گے انہیں کسی عبداللہ الزوروف جیسے عاشق رسول مسلمان کا سامناکرناپڑے گا،مغربی ماحول میں موجود تنگ نظراورگوری چمڑی کے اندر سیاہ دل رکھنے والے گستاخان رسولﷺ اپنے آپ کو جتنابھی محفوظ سمجھیں،انہیں دنیا کی کوئی جگہ پناہ نہیں دے گی،17 سالہ چیچن طالب علم عبداللہ الزوروف نے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر فرانس جیسے ملک میں ایک گستاخ رسول کو جہنم واصل کرکے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے جذبات کی ترجمانی کرکے مغرب کے سرپھرے حکمرانوں کو یہ پیغام پہنچادیا کہ مسلمان دنیا کے کسی کونے میں بھی ہو وہ مسلمان ہوتا ہے اسے اپنے نبیﷺ سے بڑھ کر کسی سے محبت نہیں ہوسکتی ہے،وہ اپنے نبی ﷺپر غیرت کی انتہا کو پہنچاہواہوتا ہے،اسے سب کچھ برداشت کرنے کی ہمت ہے مگر اپنے نبی کے بارہ میں کسی قسم کی کوتاہی ایک لمحہ کے لئے بھی برداشت نہیں،عبداللہ کو پتہ تھا کہ اس کاروائی کے بعد اس کا اور اس کے گھروالوں کا کیا انجام ہوگا مگر اس نے ان تمام خطرات سے بے پرواہ ہوکر وہ کام کیا جو ایک باغیرت مسلمان کو کرنا چاہئے،اس کے استقبال کے لئے یقینابے شمار فرشتے آئے ہوں گے جنہوں نے اس کمسن عاشق رسول کو آقائے دوجہاں ﷺکے دربار میں بڑے فخریہ اندازسے پیش کیا ہوگا اور آپ ﷺنے بھی اُسے نہایت ہی شفقت ومحبت سے اپنے آغوش نبوت میں لے لیا ہوگا اور بڑے پیار سے تھپکی دی ہوگی کہ پیرس جیسے آوارگی سے بھرے شہر میں اس نے دنیا کی عیش وعشرت سے آنکھیں بندکرکے اپنے پیغمبرﷺپر غیرت کرتے ہوئے ایک گستاخ کے سرکو تن سے جداکردیااور خود بھی عشق ومحبت کی تمام منزلوں سے گزرکر آقائے دوجہاں ﷺکے پاس پہنچ گیا،رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ۔
سلام اس پر کہ جس کے نام لیوا ہرزمانے میں
بڑھادیتے ہیں ٹکڑاسرفروشی کے فسانے میں
فرانس….جان سے گزرنے والا کم سن عاشق رسول ؐعبداللہ شہید ؒ حافظ مومن خان عثمانی
You might also like