فرانس میں ایک گستاخ کارٹونسٹ ٹیچر کی طرف سے بار بار حضور نبی کریم ﷺ کی شان اقدس میں گستاخی کاارتکاب کیا گیا،مسلمان طلباء کی شکایت پر جب وہ دریدہ دہن بدبخت ٹیچراپنے مجرمانہ فعل سے باز نہ آیا تو ایک چیچن نوجوان طالب علم عبداللہ الزوروف نے اسے برسربازارجہنم رسید کردیا،اس پر فرانس کا صدر آپے سے باہر ہوگیا اور اس نے اسلام کو دہشت گرد مذہب قرار دے کردنیا کی سب سے محترم ومکرم ہستی آنحضرت ﷺکی گستاخی کا آرڈر جاری کرتے ہوئے آپ ﷺکے گستاخانہ خاکے ملک بھر میں دیواروں اور سائن بوڈوں پر چسپاں کرنے کاحکم صادرکیا، فرانسیسی نام نہاد مہذب قوم نے مسلمانوں کی دل آزاری کے لئے مختلف دیواروں اور سائن بوڈوں پر آقاومولیٰ امام الانبیاء ﷺ کے گستاخانہ خاکے چسپاں کرکے اپنی تنگ نظری،تعصب اور دہشت گردی کا ثبوت پیش کیا،سیموئل نامی ٹیچر کا فعل تو اس کا ذاتی جرم قرار دیاجاسکتا تھا اوراس پر پورے ملک وقوم کو مطعون نہیں کیا جاسکتا تھا مگر فرانس کے تنگ نظر اور متعصب صدر میکرون کی جانب سے اس قسم کی گھٹیا حرکت پوری فرانسیسی قوم کے اخلاقی دیوالیہ پن کا بین ثبوت ہے،فرانس دنیا کے ان پانچ فرعونوں میں ایک فرعون ہے جن کے ہاتھوں میں ویٹوپاور ہے،ان پانچ ممالک نے پوری دنیا پر اپنی اجارہ داری قائم کررکھی ہے،انہیں اپنے فرعون ہونے کا پورا یقین ہے اور انہی فرعونی جذبات کی تسکین کے لئے یہ پانچ ممالک مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیل رہے ہیں،دنیائے انسانیت کے یہ نام نہاد ٹھیکیدار خود مسلمانوں کو اشتعال دلاتے ہیں اور جب مسلمان فریاد کرتے ہیں تو ان کی فریادکوانتہاپسندی کا نام دے کر ان کے خلاف دہشت گردی کا جھوٹاپروپیگنڈاکرتے ہوئے ان پر جدیدترین ہتھیار استعمال کرتے ہیں،دنیا کا امن انہی پانچ فرعونوں نے تیہ وبالا کررکھا ہے،ان کی بدمعاشی اور غنڈہ گردی کی وجہ سے مسلمان اپنے ممالک بلکہ اپنے گھروں میں بھی محفوظ نہیں ہیں،فرنچ صدر نے پوری دنیا کے مسلمانوں کے جذبات کو شدید ٹھیس پہنچائی ہے،اس نے انتہائی بچگانہ اور گھٹیا حرکت کی ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے،مگر افسوس مسلمان حکمرانوں پر ہے جو صرف زبانی کلامی اس جرم کی مذمت تو کرتے ہیں لیکن علمی طورپر ان کی کارکرگی صفر ہے،ترکی کے صدر طیب رجب اردگان کے علاوہ کسی مسلمان حکمران نے اس گستاخی پر جرات ایمانی کا مظاہرہ نہیں کیا،ترکی صدر نے اپنی عوام سے فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ کی اپیل کی ہے،قطر اور کویت میں بھی فرنچ مصنوعات کا بائیکاٹ کیاجارہا ہے،مگر دیگر اسلامی ممالک خواب خرگوش کے خراٹے لے رہے ہیں یا بنگ کے نشے میں مدہوش ہیں اور کچھ اپنی بادشاہتوں کی فکر میں حیران وسرگردان ہیں،مسلم ممالک کی تنظیم او آئی سی بے جان لاش کی طرح نقل وحرکت سے معذوربستر مرگ پر قومہ کی حالت میں پڑی ہوئی ہے،عرب لیگ اپنے مفادات کے لئے چپ کا روزہ رکھ کر گوشہ عافیت میں گوشہ نشین ہے،ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے لئے انتہائی شرم کا مقام ہے کہ ان کے آقاومولی حضرت محمدمصطفی ﷺکی عزت وناموس پر ایک بدبخت سربراہِ ملک سرعام بھونک رہاہے،ببانگ دہل مسلمانوں کے ایمان کوچیلنج کررہاہے،علی الاعلان مسلمانوں کی غیرت کو جھنجھوڑ رہاہے،ان کے بنیادی عقیدے پر ضربیں لگا رہاہے،مگر ڈیڑھ ارب مسلمان ہاتھ پر ہاتھ دھرے کسی معجزے کے انتظار میں ہیں،مسلمانان عالم کے لئے ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ ان کے جان سے پیارے نبی مہربان ﷺکی شان اقدس میں ایک کتا بھونک رہاہے اور یہ عاجزی وبے بسی کی تصویر بن کر سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں،مسلمانوں پر اس سے برا وقت پوری تاریخ میں نہیں آیا،مسلمان 1442سالہ دور میں کبھی بھی اس قدر حالات کے جبر سے دوچار نہیں ہوئے،جس قدر آج مسلمان بے بسی کی تصویر بن کر حالات کے جبرکوسہہ رہے ہیں،ہرزمانہ میں ہرفرعون کے لئے موسیٰ آیاکرتے تھے مگر مسلمان موجودہ دور میں اس قدر بانجھ ہوچکے ہیں کہ اب ان کے اندر کسی موسیٰ کے آثاردوردورتک نظر نہیں آرہے،جو اس فرعون کی فرعونیت کو خاک میں ملاکر کائنات کی عظیم ترین ہستی کی گستاخی کا بدلہ لے سکے،فرانس جس طاقت کے نشے میں دھندناکر مسلمانوں کے بنیادی عقیدے کو چیلنج کررہاہے وہ اس کی معیشت ہے جس کا اکثرحصہ وہ مسلمانوں سے وصول کررہاہے،اگر آج پوری دنیا کے مسلمان فرنچ مصنوعات کا بائیکاٹ کردیں تو چند دنوں میں اس کو نانی یاد آجائے گی،مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ فرانس کی مصنوعات کو ترک کردیں،کیونکہ ان مصنوعات کے اندر نبی کریم ﷺ کی گستاخی شامل ہے،جس بسکٹ کے اندر زہر ملا ہو اہواُسے کوئی بھی کھانے کے لئے تیار نہیں ہوتا،تو جس بسکٹ کے اندر ہمارے آقاومولیٰ ﷺ کی گستاخی شامل ہو اس کو ہم کیسے کھائیں گے؟ربیع الاول کا مہینہ ہے،نبی کریم ﷺکے ساتھ عشق ومحبت کے اظہار کا مہینہ ہے،ہر عاشق رسول کو چاہئے کہ وہ خود بھی فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ کرے اور اس مہم کو بھرپور طریقے سے چلائے ہر شخص کے ذہن میں یہ بات ڈالے کہ ان مصنوعات کے اندر ہمارے پیارے پیغمبر ﷺکی گستاخی شامل ہے،اس پر بھرپور احتجاج بھی ہرمسلمان کے لئے ضروری ہے،اس گستاخی پردنیاکے تمام مسلمان سراپااحتجاج ہیں،ہرشخص کے لئے ضروری ہے کہ جہاں تک اس کی آواز پہنچ سکتی ہے وہاں تک اپنی آواز پہنچائے،قائدجمعیت مولانافضل الرحمن نے کوئٹہ کے جلسہ عام میں اس کی شدید مذمت کرتے ہوئے آنے بوالے جمعہ سے اگلے جمعہ تک پورے ہفتے کے احتجاج کا علان کیا ہے،مگر افسوس کہ ہماری قومی اسمبلی اس احتجاج پر بھی ایک آوازنہ ہوسکی،جس بھونڈے انداز اور ایک دوسرے پر الزام تراشیوں کی گونج میں قرادادمذمت پیش کی گئی وہ خود قابل مذمت ہے،حکومتوں کا کام مذمت نہیں عملی اقدام ہوتا ہے مگر دال چینی کی نرخوں میں ناکامی کامنہ دیکھنے والی حکومت سے اس عظیم محاذ پر کامیابی کی کیا امید رکھی جاسکتی ہے،گستاخ رسول آسیہ ملعونہ کو فرانسیسی صدر کی گود میں پہنچانے والے حکمرانوں سے اس معاملہ میں کیا توقع کی جاسکتی ہے؟دوسرا افسوسناک واقعہ منگل کے دن پشاور شہر میں واقع سپین جماعت(سفید مسجد)کے مدرسہ میں خون ریزدھماکہ ہے،جس میں ایک درجن سے زائد معصوم طلباء اور ان کے اساتذہ کو خاک وخون میں تڑپادیاگیا،مولاناشیخ رحیم اللہ مشکوۃ شریف کا درس دے رہے تھے کہ اچانک بم دھاکہ ہوا،جس میں مدرسہ کے بے ضرر طلباء اور معصوم بچوں کو شہیدکردیاگیا،مولاناشیخ رحیم اللہ کو تو اللہ تعالیٰ نے بچالیا مگر چھوٹے چھوٹے پھول اس دہشت گردی کا نشانہ بنے،ایک ہزار سے زیادہ بچے جہاں تعلیم کے حصول کے لئے موجود تھے،وہاں اس قسم کابزدلانہ فعل دشمن کے گھٹیاپن کو ظاہرکررہاہے،جس نے معصوم پھولوں کو مسل کررکھ دیا ہے،ان معصوم بچوں نے کسی کاکیا بگاڑاتھا؟ایک بچے کی حسرت بھری معصومانہ لاش نے تو ہر آنکھ کو اشکبار کردیا ہے،جس کی آنکھوں میں مرنے کے بعد میں آنسوموجود ہیں،یہ انتہائی کربناک اور دل دہلادینے والامنظرہے،ایک ماں کے جگرگوشے کی معصومانہ لاش ہے جو مدرسہ میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے آیاتھا مگر تعلیم دشمن درندوں نے اس کے سارے ارمان اس کے معصومانہ آنسوؤں میں جمع کرکے قانون نافذکرنے والے اداروں کے کردار پر سوالیہ نشان لگاتے ہوئے اپنی بدبختی پر مہرتصدیق ثبت کردی،ان معصوم بچوں نے کس کرب کے ساتھ اپنی جان جانِ آفریں کی سپرد کی ہوگی،آہوں سسکیوں کی گونج میں ان کی روح کس طرح تڑپ ترُ پ کر نکلی ہوگی،جنازوں پر پھول تو ہم نے بارہا دیکھے تھے مگراسلام کے قلعہ مملکت خدادپاکستان میں پھولوں کے جنازے بھی دیکھنے پڑے،وہ خوبصورت نوجوان جو دنیا کے تمام دھندوں سے بے نیاز ہوکردن رات صرف اور صرف تعلیم کے حصول میں منہمک تھے، جنہیں نہ دنیا کے جھگڑوں کا علم تھا نہ سیاست کی پیچیدگیوں سے واقف تھے،نہ مسلکی منافرت کاانہیں پتہ تھا،نہ اقتدار کی رسہ کشی سے انہیں کوئی واسطہ تھا،نہ محلاتی سازشوں کا انہیں کوئی ادراک تھا،نہ مال ودولت کے حصول میں کسی سے رقابت رکھتے تھے،نہ زمین وجائیداد میں کسی کے شراکت دار تھے،مگر اس کے باوجود انہیں صفحہ ہستی سے مٹایاگیا،خاک وخون میں تڑپایاگیا،بارود میں جلایاگیا ان کی جسموں کے چیتھڑے اڑائے گئے،ان کو خون میں نہلایاگیا،ان کے ہاتھوں میں موجود قرآن پاک اور کتب حدیث کے نسخوں کو بھی خون میں لت پت کردیاگیا،لیکن افسوس صدافسوس ان بے ضمیر حکمرانوں پر کہ ان معصوم بچوں کے اس قدر ظالمانہ اورسفاکانہ قتل پرملک میں یوم سیاہ منایاگیا، نہ پرچم سرنگوں کیاگیا،نہ کوئی ترانہ تخلیق کیا گیا،نہ کوئی اسپیشل بل پاس کیا گیا،نہ اظہار یکجہتی کے لئے جلوس نکالے گئے،نہ کوئی ایکشن پلان سائن کیا گیا نہ صدر،وزیراعظم اور سپہ سالارِ قوم نے جائے وقوعہ کا دورہ کیا،نہ دشمن کو للکارا گیا،بلکہ آئی جی پولیس نے پریس کانفرنس میں کہا اتنے مدرسوں کو ہم سیکیورٹی فراہم نہیں کرسکتے،دہشت گردی کو ہم نے ختم کردیا ہے،چھوٹے موٹے واقعات ہوتے رہتے ہیں،ایک درجن سے زائد ماؤں کے گود اجاڑدئے گئے،سوسے زیادہ نوجوان زخمی ہوکر ہسپتالوں میں پہنچ گئے بے شمار قرانی نسخے اورکتب حدیث جلادئے گئے مگر آئی جی صاحب کی نظر میں یہ چھوٹاموٹاواقعہ ہے اور اس طرح کے واقعات تو ہوتے رہتے ہیں،یعنی غریب جتنے بھی مرجائیں،غریبوں پر جتنی بھی قیامت ٹوٹ پڑے یہ چھوٹے موٹے واقعات ہیں جوہتے رہتے ہیں،انتظامیہ کی صحت پر ان سے کوئی اثرنہیں پڑتا،قائدجمعیت مولانافضل الرحمن سچ کہتے ہیں کہ جب سکول کالج کے بچے قتل ہوتے ہیں تو ہم بھی ان کے ساتھ روتے ہیں لیکن جب مدرسہ کے بچے قتل ہوتے ہیں تو پھر ہم اکیلے روتے ہیں ہمارے ساتھ کوئی غم بانٹنے والا بھی نہیں ہوتا،بلکہ الٹا زخموں پر نمک چھڑکنے والوں کی کثرت ہوتی ہے۔ریاست کو سوتیلی ماں والاسلوک ترک کرنا ہوگا جنتاغم اے پی ایس کے بچوں پر ہوا تھا اتنا ہی غم مدرسہ زبیریہ کے بچوں پر بھی ہونا چاہئے۔