”لاک ڈاؤن یا تاجروں کا معاشی قتل“(حاجی محمد لطیف کھوکھر)

0

لاک ڈاؤن کی وجہ سے ملک کی معیشت کی جو بری حالت ہوئی ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ آج بھی ہر انسان اس درد کا احساس کرکے کرا رہا ہے۔ ملک کا متوسط طبقہ جو مزدوری وغیرہ کر کے خود اپنا اور اپنے پورے پریوار کا پیٹ پال رہا تھا وہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے اپنے اہل و عیال سمیت گھر پر تقریبا تین ماہ سے بے روزگاری کے ایام گزارنے پر مجبور رہا ہے۔ ضروریات زندگی سے محروم یہ لوگ آخر جائیں تو کہاں جائیں؟ کیا سرکار کو ایسے لوگوں کے بارے میں کوئی منصوبہ نہیں بنانا چاہیے تھا،جو مزدوروں کے لیے راحت کاسامان ہوتا؟صحیح بات تو یہ ہے کہ اس حکومت کو عوام کی تو بالکل بھی فکر نہیں ہے۔دوسری جانب مریضوں کی تعداد میں بے تحاشہ اضافہ کی وجہ سے لاک ڈاؤن کا سلسلہ مزید دراز ہوتا جا رہا ہے۔ یہ کب تھمے گا اور زندگی حسب معمول کب پٹری پرلوٹے گی یہ خود ہمارے وزیراعظم کو بھی معلوم نہیں ہے۔بہرحال! موجودہ صورتحال سب کے لیے تشویشناک ہے اور اذیت ناک بھی۔امیر سے لے کر غریب تک ہر کوئی اپنے اپنے حسب حیثیت اس مہلک اور لاعلاج وبا سے بری طرح متاثر ہوا ہے۔ ملکی معیشت بھی حکومت کی ناکامیوں اور اوٹ پٹانگ کی پالیسیوں کی وجہ سے ہچکولے کھارہی ہے۔اس لاک ڈؤن میں بے روزگاری کی شرح میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔سرمایہ داروں کے کاروبار کا جنازہ نکل چکا ہے۔فیکٹریاں ماتم کدہ میں تبدیل ہو چکی ہیں۔متوسط طبقہ بیروزگاری کی وجہ سے بالکل کنگال ہو چکا ہے۔غریب اور مزدور طبقے کی بات کی جائے تو وہ فاقہ کشی جیسے عذاب سے دو چار ہیں۔ہر کوئی اپنی موت آپ مر رہا ہے۔اب ایسے عالم میں عوام کی تحفظ اور اس کی روزمرہ کی ضروریات وسہولیات کے لیے حکومت کی طرف سے کیا امدادی مراعات اور انتظام ”کھائے تو مرجائے اور نہ کھائے تو مرجائے“۔ حکومتی فنڈز و امداد پر صرف لالی پاپ کی یاد آتی ہے جو چھوٹے بچوں کو رونے پر دے کر چپ کرایا جاتا ہے۔مزید اس پر لوٹ گھسوٹ اور کرپشن کی ایسی مار کہ اللہ ہی بچائے ان مافیاوں سے!۔ جب سے کرونا آیا ہے تب سے‘مار مار’ہی کی آواز سننے میں آ رہی ہے۔کبھی لاک ڈاؤن کی مار توکبھی کرپشن کی مار۔کبھی بیروزگاری کی مار تو کبھی مہنگائی کی مار۔ کرونا وائرس کی وجہ سے جاری لاک ڈاؤن چھوٹے تاجروں کے معاشی قتل کا سبب بن رہاہے، لاک ڈاؤن کے باعث تاجر سخت پریشان ہیں اوراگر حکومت نے لاک ڈاؤن کی توسیع کا سلسلہ نہ روکا تو تو چھوٹے تاجروں کی اکثریت دیوالیہ ہو جائے گی اور کئی نادہندگی کے قریب پہنچ جائیں گے اورممکن ہے کہ وہ ساری زندگی اس نقصان سے باہر نہ نکل پائیں۔ شاید حکومت کو یا تو سنگینی کا احساس نہیں یا اس کی کوئی پرواہ نہیں،حکومت سے یہی التماس ہے کہ وہ ایس او پیز پر عملدرآمد کی مشروط اجازت کے ساتھ دکانوں اور چھوٹے کارخانوں کو کھول دیں،، تاکہ چھوٹے تاجر اور غریب ملازمین بھی اپنے خاندانوں کی کفالت کر سکیں۔ ورنہ انارکی اور بے روزگاری کا جو طوفان آئے گا وہ حکومت سے سنبھالا نہیں جا سکے گا۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے تعمیراتی صنعت کو کام کرنے کی اجازت تو دیدی ہے لیکن کراچی سمیت سندھ بھر میں کہیں بھی تعمیراتی سرگرمیاں شروع نہیں ہوپائیں ہیں۔اور نہ ہی تعمیراتی صنعت سے وابستہ40سے زائد الائیڈانڈسٹریز کو کام کرنے کی اجازت ہے،جب ایک عام شخص کو اپنا مکان بنانے کیلئے سیمنٹ،سریا،بجری اور دیگر سامان ہی نہ ملے اورانہیں تعمیرات کرنے کی ہی اجازت نہ مل سکے تو پھر وزیراعظم کے احکامات بھی بے معنی ہوکر رہ گئے ہیں۔دوسری جانب حالیہ دنوں میں پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں زیادتی نے عوام کا کچومر نکا ل کر رکھ دیا ہے، صحیح بات تو یہ ہے کہ پٹرول اور ڈیزل کے دام میں مسلسل زیادتی نے نہ صرف یہ کہ مہنگاہونے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جاکر ایک نئی تاریخ رقم کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں بلکہعوام کے بنیادی مسائل سے حکومت کی عدم توجہی اور مجرمانہ چشم پوشی بھی ثابت کر رہے ہیں۔ یاد رہے! عالمی بازار میں خام تیل کی قیمت میں زبردست گراوٹ آئی ہے جس سے تیل سستا ہونا لازم ہے۔مگر حکومت اپنی ناکامی کوچھپانے کے لیے پٹرول اور ڈیزل کے دام بڑھاکر عوام کے بچے کھچے پیسوں پر ڈاکہ ڈالنے کا کام کررہی ہے۔ تیل کے دام بڑھنے سے لوگوں کو اپنی روزمرہ کی ضروریات کی تکمیل میں بہت ساری مشکلات سینہ تانے کھڑی ہیں۔۔ سو بات کی ایک بات یہ ہے کہ اگر حکومت کے کورونا سے لڑنے کے سارے داؤ پیچ پر نظر دوڑائیں تو معلوم ہوگاکہ حکومت عوام کے بنیادی مسائل کے تئیں بڑی بے رحم ثابت ہوئی ہے۔اسی وجہ سے بلا وجہ تیل کے نرخوں میں اضافہ کریا گیا ہے۔مہنگائی کے طوفان سے تباہ حال عوام، حکومتی ماہرین،نئے ٹیکس لگانے والوں اور مہنگائی کے ذمہ دار وں کی کسی بھی بات کو سننے سے زیادہ مہنگائی اور بے روزگاری سے ہونے والی اپنی بربادی کودیکھ کر خون کے آنسو رو رہے ہیں۔پٹرول ہو یا گیس یا بجلی توانائی کا ہر ذریعہ ملکی معاشی ترقی کے لئے لازم و ملزوم ہے، ان کی قلت یا عدم فراہمی یا قیمت میں اضافے سے معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔پاکستان میں معاشی بدحالی کے سبب ہونے والی مہنگائی اور بڑھتی ہوئی بیروزگاری کے نتیجہ میں لوگوں کی قوت خرید اس حد تک کم ہوگئی ہے کہ ملک میں ایک بہت بڑی تعداد دو وقت کی روٹی خریدنے کے قابل بھی نہیں رہی جبکہ سوئس ایجنسی برائے تعاون و ترقی کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی 48.6 فیصد آبادی خوراک کی شدید قلت کا شکار ہے جبکہ دیگر بنیادی ضروریات کا حصول اور سانس کی ڈور برقرار رکھنے کے لئے سہی جانے والی مصیبتیں اس کے علاوہ ہیں اور یہ سب حکمرانوں ہی کی عیاشیوں کا کیا دھرا ہے۔پاکستان میں ایک رکن اسمبلی سالا نہ خرچہ تقریباً35کروڑ روپے حکومتی خزانے سے کرتا ہے۔ ایوان صدر کا روزانہ کا خرچ 10لاکھ 71ہزار روپے جبکہ وزیر اعظم ہاؤس کا11 لاکھ73ہزار روپے اور دیگر وزراء اور ان کے معاونین کے اخراجات اس کے علاوہ ہیں جو ایک ارب کے لگ بھگ ماہانہ ہیں اور یہ سب اس قومی خزانے سے ادا کئے جاتے ہیں جسے عرف عام میں ”عوام کی امانت“ قرار دیا جاتا ہے لیکن بدقسمتی سے حکومتی خزانے میں سے عوام کے ٹیکسوں پر عیاشیاں کرنے والے وزراء مسلسل بے بس دکھائی دے رہے ہیں اور انہیں عوامی مسائل سے کوئی سروکار نہیں۔ کسی بھی دور حکومت میں پٹرول بحران کے ذمہ دار وزراء کیخلاف کارروائی نہ کی جاتی۔ الٹا اس کا خمیازہ بھی بے چاری مسائل کی دلدل میں پھنسی ہوئی عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.