بلاول کا شہباز شریف سے رابطہ، اتحاد کیلئے امیدیں زور پکڑ گئیں

0

حکومت کے خلاف اتحاد تشکیل دینے کی کوششیں زور پکڑ گئیں اور کئی ہفتوں کی خاموشی کے بعد اپوزیشن کی دو بڑی جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کی قیادت کا رابطہ ہوا۔مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف اور پی پی پی کے چیئرمین بلال بھٹو جو گزشتہ روز لاہور پہچنے تھے، ٹیلیفون پر گفتگو کی۔ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق کورونا وائرس کی تشخیص ہونے کے بعد گزشتہ کچھ ہفتوں سے شہباز شریف قرنطینہ میں ہیں۔اس سے قبل رواں ماہ کے آغاز میں لاہور میں کئی روز گزارنے کے باوجود بلاول بھٹو زرداری شہباز شریف سے فون پر بھی بات نہیں کرسکے تھے۔ ٹیلیفونک گفتگو میں پی پی پی چیئرمین نے شہباز شریف کی خیریت دریافت کی جبکہ صدر مسلم لیگ (ن) نے سابق صدر آصف علی زرداری کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ دونوں رہنماؤں نے رابطے بڑھانے پر اتفاق کیا اور مسلم لیگ (ن) کا ایک 3 رکنی وفد لاہور کے بحریہ ٹاؤن میں موجود بلاول ہاؤس میں چیئرمین پی پی پی سے ملاقات کرے گا۔وفد میں ممکنہ طور پر مسلم لیگ (ن) کے جنرل سیکریٹری احسن اقبال، سابق اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق اور سابق وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق شامل ہوں گے۔پی پی پی جو کہ صوبائی سطح پر کثیر الجماعتی کانفرنس کا انعقاد کرچکی ہے کی خواہش ہے کہ حکومت مخالف تحریک چلانے سے قبل ایک قومی سطح کے ایونٹ کا انعقاد کیا جائے لیکن شہباز شریف کی خرابی صحت اس میں رکاوٹ ہے۔دونوں جماعتوں سے ایک ’مشترکہ حکومت مخالف ٹھوس ایجنڈا‘ تشکیل دینے کے لیے اپوزیشن کی دیگر جماعتوں سے رابطہ کرنے کے لیے اپنی اپنی ٹیمیں تشکیل دی ہیں اور امید کرتی ہیں کہ کثیر الجماعتی کانفرنس اس قسم کے ایجنڈے کے اعلان کے لیے بہترین پلیٹ فارم ہوگا۔ایک روز قبل احسن اقبال نے کہا تھا کہ ان کی جماعت پنجاب بچاؤ تحریک کا آغاز کرے گی جسے پی ٹی آئی حکومت نے 2 سال میں تباہ کردیا ہے۔تاہم انہوں نے اس تحریک کی کوئی ٹائم لائن نہیں بتائی۔دونوں جماعتوں کے قائدین کے براہ، راست رابطے میں موجود مشکلات کثیر الجماعتی کانفرنس کے انعقاد کے حوالے سے شکوک و شبہات کو جنم دے رہی ہیں۔لیکن مسلم لیگ (ن) پنجاب کے صدر رانا ثنا اللہ نے کھلے عام بتایا تھا کہ اس کانفرنس کے انعقاد کے لیے اعلیٰ قیادت کے درمیان 3 مرتبہ ٹیلیفونک رابطہ ہوا۔انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ نے یہ بھی کہا تھا کہ کثیر الجماعتی کانفرنس ضرور ہوگی اور اپنے مقاصد حاصل کرے گی۔دونوں جماعتوں کی قیادت سے 28 جون کو مولانا فضل الرحمٰن کے اسی طرح بلائی گئی ایک ملاقات میں شرکت نہیں کی تھی جس کے بعد انہوں نے کانفرنس کو وفاقی بجٹ کی منظوری تک کے لیے ملتوی کردیا تھا۔

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.