اسرائیل نامنظوملین مارچ(حافظ مومن خان عثمانی)

چٹان
0

فلسطین کی مقدس سرزمین پر عالمی قوتوں کی سرپرستی میں یہودیوں کی طرف سے شیطانی کھیل جاری ہے،برطانوی استعمار کی سرپرستی میں پوری دنیا سے یہودیوں کو فلسطین کی سرزمین پر جمع کیا گیا ہے تا کہ اس مقدس سرزمین پر مکمل قبضہ کرکے گریٹر اسرائیل کے منصوبے کو عمل جامہ پہنایاجاسکے،حضرت سلیمان ؐنے یہاں اللہ کا گھر بنایاتھا جسے یہودی معبد کہتے ہیں،ہمارے نبی آخرالزمان ﷺ جب معراج کے سفر پر روانہ ہوئے تو مسجد حرام (بیت اللہ شریف)سے مسجد اقصی کا سفر فرمایا اور مسجد اقصی میں ایک لاکھ چوبیس ہزار کم وبیش انبیاء علیہم السلام کی امامت فرمانے کے بعد اس مقدس چٹان سے براق کے ذریعہ سدرۃ المنتہیٰ کے لئے روانہ ہوئے،فاروق اعظم ؓ نے اپنے دورِ خلافت میں اسے فتح کرکے مسجد قائم کی،جس مقدس چٹان سے ہمارے پیغمبر ﷺ براق کے ذریعے معراج کے سفر پر روانہ ہوئے تھے،اموی خلیفہ عبدالملک بن مروان نے اس چٹان پر ایک خوبصورت اور عالی شان گنبد بنوایا جسے ”قبۃ الصخرہ“کہاجاتا ہے،اردن کے سابق بادشاہ‘ شاہ حسین نے اس گنبد پر سونے کی چادر چڑھائی تھی جس کا وزن 35ٹن کے لگ بھگ بتایا جاتا ہے،جب اس مقدس گنبد پر سونے کی چادر چڑھائی گئی تھی تو اس وقت یہود یوں نے کہا تھا کہ یہ سونا ایک دن ہمیں نئے معبد کے لئے کام آئے گا،یہ وہی”ٹیمپل ماؤنٹ“ہے جس کے نام پر صلیبی جنگجو ٹیمپل نائٹ کے نام سے مشہور ہوئے یعنی حضرت سلیمان کی پہاڑی کی حفاظت کے لئے لڑنے والاسالار،1099ء سے صلیبیوں نے ان مقدس جنگوں کا سلسلہ شروع کررکھا ہے۔پہلی جنگ عظیم میں شکست کے بعد ترکی کے جنوبی اضلاع فرانس اور برطانیہ کے قبضے میں دے دئے گئے، دونوں استعماری قوتوں نے ان علاقوں کو سرحدوں میں تقسیم کرتے ہوئے عراق،شام اور لبنان تشکیل دئے،چوتھا علاقہ فلسطین کا تھا مصرمیں برطانیہ کے ہائی کمشنر ہنری میک موہن نے 1916ء میں وعدہ کیا کہ عربوں کے وہ علاقے جو سلطنت عثمانیہ میں شامل تھے،آزادکردئے جائیں گے مگر برطانوی استعمار نے عیاری کرتے ہوئے ایک خفیہ معاہدہ ”سائیکس پیکاٹ“کیا جس کی رو سے برطانیہ اور فرانس نے عربوں کے علاقوں کو اپنے مشترکہ انتظام کے تحت تقسیم کردیا،چنانچہ اس بدعہدی کے تحت انگریزوں نے پہلی جنگ عظیم کے اختتام پر 1918ء میں فلسطین پر قبضہ کرلیا، لیگ آف نشنیز (جمعیۃ الاقوام)نے 25 اپریل 1920ء کو فلسطین پر انگریزوں کے قبضہ کو جائز قراردے دیا،برطانوی استعمار نے مزید عیاری یہ کی کہ 1917ء میں برطانوی وزیرخارجہ آرتھر بیلفور نے برطانیہ کی طرف سے لارڈ راتھ شلڈ نامی ایک صہیونی لیڈر کو خط لکھا جس میں فلسطین میں یہودی ریاست بنانے کی یقین دہانی کرائی،اس طرح 14مئی کو اسرائیلی ریاست کے قیام کا اعلان کردیا گیا،15 مئی کی صبح مصر،اردن اور عراق کی فوجیں عربوں کے مفاد کے تحفظ کے لئے فلسطین میں داخل ہوئیں بعد میں سعودی عرب کا ایک دستہ بھی مصری فوج سے آملا،6 روزہ جنگ میں پاک فضائیہ کے ہوابازوں نے بھی حصہ لیا جنہوں نے اسرائیل کے فضائیہ کے 3 جہازوں کو مار گرایا جو اسرائیلی پیش قدمی رکنے کی سب سے بڑی وجہ قرار پائی،لیکن عربوں کے اس متحدہ فوج کو بھی کوئی بڑی کامیابی حاصل نہ ہوسکی، اس طرح 1948ء میں اسرائیلی ریاست کے قیام کے ساتھ ہی عرب اسرائیل میں پہلی بار جنگ ہوئی جسے یہودی جنگ آزادی کہتے ہیں،یہودیوں نے فلسطین پر قابض ہوکر فلسطینیوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ ڈالے،جس کی وجہ سے فلسطینیوں کو اپنا وطن چھوڑ کر ہجرت کرنی پڑی دس لاکھ عرب دربدر ٹھوکریں کھانے پرمجبورہوئے،15مئی 1948ء تک اندرون فلسطین عربوں کی مزاحمت ختم ہوگئی 14اور 15 مئی کی درمیانی شب 12بجے یہودیوں نے تل ابیب میں ریاست اسرائیل کا اعلان کردیا، 11 مئی 1949ء کو اسرائیل کو اقوام متحدہ کا رکن بنالیا گیا۔مزیدفلسطینی علاقوں پر قبضہ کرنے کے لئے اسرائیل نے امریکی شہ پر پہلے سے تیاری کرتے ہوئے جون 1967ء کے پہلے ہفتہ میں بغیر کسی اعلان جنگ کے اچانک مصرپر حملہ کردیا،اور مصر کا بیشتر فضائی بیڑہ ایک ہی حملہ میں تباہ کردیا،1967 ء سے پہلے مشرقی یروشلم اردن کا حصہ تھا عرب اسرائیل کی چھ روزہ جنگ میں صہیونیوں نے تین عرب ممالک کو شکست دے کرنہ صرف اس پر قبضہ جمایابلکہ باقی فلسطین سے مصر اور اردن کو نکال باہرکیا، شام میں جولان کے پہاڑی علاقے اور مصر کے پورے جزیرہ نما سیناپر بھی قبضہ کرلیا،یہ عربوں کے لئے ایک ذلت آمیز شکست تھی،جس میں عرب کے 21 ہزار فوجی ہلاک 45ہزار زخمی اور 6 ہزار قیدی بنالئے گئے جبکہ 400 سے زائد طیارے تباہ ہوئے،اس جنگ کے نتیجہ میں عربوں کا ایک لاکھ آٹھ ہزار مربع کلومیٹر کاعلاقہ اسرائیل کے قبضہ میں چلاگیا۔نہر سوئز بند ہوگئی اور مصر جزیرہ نما سینا کے تیل کے چشموں سے محروم ہوگیا۔ اس دن سے لے کر آج تک صہیونی قوتیں عالمی شیطانوں کی سرپرستی میں مسجد اقصیٰ کو گراکر اس کی جگہ تیسرا معبد تعمیر کرنے کی جدوجہد میں لگے ہوئے ہیں،بقول ان کے حضرت داؤدؐ نے پہلا،حضرت سلیمان ؐ نے دوسرامعبد تعمیر کیا تھااور یہ اب تیسرے معبد کی تعمیر کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔امریکہ کا سابق سرپھراصدر مسٹر ٹرمپ جب اقتدار میں آیا تو اس نے عالمی قوانین کی دھجیاں اُڑاتے ہوئے 2017 میں پروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرتے ہوئے مئی 2018ء میں اپناسفارت خانہ بھی وہاں منتقل کردیاتھا،امریکہ دوسرے ممالک کی بھی حوصلہ افزائی کررہاہے کہ وہ بھی اپنے اپنے سفارت خانے بیت المقدس میں کھولیں مگر فلسطینیوں اور یورپ کی طرف سے اس کی شدید مخالفت کی جارہی ہے،عالمی دباؤ کے تحت کچھ عرصہ پہلے یورپ کے ایک اسلامی ملک کوسوو ونے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا تھا،گزشتہ برس عالمی دباؤ کے تحت متحدہ عرب امارات،بحرین اورسوڈان بھی اسرائیل کو تسلیم کرچکے ہیں،عالمی قوتوں کی طرف سے تمام مسلمان ممالک پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کا سخت دباؤ ہے اور اسی دباؤ کے تحت مذکورہ عرب ممالک نے اسرائیل کو تسلیم کرکے اس کے ساتھ تعلقات قائم کرلئے ہیں اور یہی دباؤ پاکستان پر بھی ہے،موجودہ حکومت کے دوران کئی ایسے واقعات رونما ہوچکے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے حکمران بھی اسے تسلیم کرنے کے لئے رائے عامہ کو ہموار کرنے میں لگے ہوئے ہیں،علماء میں بھی کچھ لوگوں نے اسرائیل کو تسلیم کرنے اور بیت المقدس کو یہودیوں کو حوالے کرنے کے لئے قرآنی آیات کی من پسند تشریح کرتے ہوئے رائے زنی کرنے کی کوشش کی ہے،جس پر جمعیت علماء اسلام نے عالم اسلام کے جمہور مسلمانوں کی ترجمانی کرتے ہوئے 21 جنوری2021 کو کراچی میں ایک عظیم الشان اسرائیل نامنظور ملین مارچ کا اہتمام کیا جس میں بلاشبہ لاکھوں افراد کی شرکت نے یہ ثابت کردیا کہ پاکستانی عوام کے دل آج بھی فلسطینیوں کے ساتھ دھڑک رہے ہیں اور وہ اسرائیل کو ایک ناجائز،غاصب اور قابض گروپ سمجھتے ہوئے اسے تسلیم کرنے کے لئے کسی بھی صورت تیار نہیں،اس عظیم الشان اجتماع سے قائدجمعیت مولانا فضل الرحمن کے ولولہ انگیز اور موثر خطاب نے فلسطینی عوام کو ناامیدی کے اندھیروں سے نکال کر اُمید کی شاہراہ پر گامزن کردیا ہے کہ فلسطینی عوام اکیلے نہیں، اگر عرب کے کچھ ممالک اپنی مجبوریوں کی بناپر اسرائیل کو تسلیم کرکے فلسطینی عوام کو مایوسی کے دلدل میں دھکیل رہے ہیں تو پاکستانی عوام،پاکستانی علماء و طلباء اور عام شہری فلسطین کے مظلوم لوگوں کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہیں اور وہ اپنے مسلمان بھائیوں اور قبلہ اول کو تنہا نہیں چھوڑیں گے،اس فقید المثال اجتماع سے فلسطین کے مفتی اعظم، قبلہ اول کے امام وخطیب الشیخ عکرمہ صبری اور اسرائیل کے ظلم وستم کے خلاف مسلسل لڑنے والی جہادی تنظیم حماس کے قائد جناب ڈاکٹر اسماعیل ھانیہ کے خطابات نے مسلم امہ کو ایک بہت بڑاحوصلہ افزا پیغام دے دیا ہے کہ آج کے پرخطر دورمیں بھی امت مسلمہ کے حقیقی رہنما فلسطینی عوام کے دکھ درد میں شریک ہیں، وہ کسی ظالم، غاصب، قابض صہیونی قوت اور اس کے پشتیبانوں کو یہ اجازت نہیں دیں گے کہ وہ ارض فلسطین پر اپنی من مانیاں کرتے ہوئے قبلہ اول سے مسلمانوں کو بے دخل کردیں یا فلسطینی مسلمانوں کو ان کے ملک سے نکال کرکے بے یاد ومددگار چھوڑدیں۔اس عظیم الشان اجتماع سے جہاں صہیونی لابی،اس کے سرپرستوں اور اس کے ایجنٹو میں کھلبلی مچی ہے وہاں فلسطین کے مظلوم ومقہور،بے یارومددگار، دربدر ٹھوکریں کھانے والے مسلمانوں میں ایک حوصلہ،ولولہ اور جذبہ پیدا ہوا ہے۔ قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن نے بروقت اور مضبوط وار کرکے بہت سی چھوٹی بڑی قوتوں کو حیران وپریشان کرکے رکھ دیا ہے،عرب دنیا میں اس ملین مارچ کوبڑی پزیرائی ملی ہے۔

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.