پاکستان میں کووڈ-19 کے خطرات کے باوجود انسداد پولیو مہم کا آغاز

TOPSHOT - A health worker (R) marks the finger of a child after administering polio vaccine drops during a polio vaccination door-to-door campaign in Lahore on July 20, 2020. - Pakistan on July 20 resumed its polio vaccination campaign after a four-month pause due to the coronavirus outbreak, with health authorities predicting a surge in cases of the crippling disease. (Photo by Arif ALI / AFP)
0

پاکستان میں ماسک اور گلوز پہنے پولیو ورکرز نے کورونا وائرس کے باعث مارچ سے التوا کی شکار انسداد پولیو مہم کا آغاز کردیا۔ملک بھر میں 5 سال سے کم عمر کے 8 لاکھ بچوں کو 5 روزہ مہم کے دوران پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلائے جائیں گے۔حکام کا کہنا تھا کہ پاکستان میں مہم کے التوا کے باعث پولیو کے کیسز میں اضافے کے خدشات پیدا ہوگئے تھے۔خیال رہے کہ دنیا میں پاکستان اور افغانستان دو ہی مایسے مالک ہیں جہاں اس وقت بھی پولیو کے کیسز پائے جاتے ہیں۔عالمی ادارہ صحت کے بیان میں کہا گیا ہے کہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں 2020 میں اب تک پولیو کے 60 کیسز سامنے آئے ہیں جبکہ 2017 میں 8 کیسز اور 2018 میں 12 کیسز کی تصدیق کی گئی تھی لیکن 2019 میں اضافہ ہوا اور 147 کیسز سامنے آئے۔پولیو کے حوالے سے اعلیٰ عہدیدار رانا محمد صفدر کا کہنا تھا کہ اس مہم میں تمام چار صوبوں کے 8 انتہائی رسک کے حامل علاقوں کو ہدف بنایا گیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ورکرز کے لیے کورونا وائرس کے خلاف تمام حفاظتی اقدامات کا انتظام کیا گیا ہے تاکہ عملی طور پر مصرف ورکرز سے کووڈ-19 کے پھیلاؤ کو روکنے کو یقینی بنایا جائے۔پاکستان میں اب تک کورونا وائرس کے کیسز کی مجموعی تعداد 2 لاکھ 65 ہزار 791 جبکہ اموات کی تعداد 5 ہزار 631 ہوچکی ہے۔سندھ کی وزیر صحت ڈاکٹر عذارا فضل پیچوہو نے میڈیا کو بتایا کہ ورکرز کو بچوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے بہترین تربیت دی گئی ہے۔ایمرجنسی آپریشنز سینٹر فار پولیو سندھ نے اپنے بیان میں کہا کہ پولیو ورکرز کو ہدایت کی گئی ہے کہ شہریوں سے فاصلہ رکھیں اور بچوں کو قطرے پلانے کے لیے والدین سے مدد لیں۔

اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف نے اپریل میں خبردار کیا تھا کہ ویکسینیشن میں رکاوٹ سے 2020 اور مستقبل میں بحران کے لیے راستہ ہموار ہوسکتا ہے۔گزشتہ برس پشاور میں پولیو کے قطروں کے خلاف افواہ پھیلائی گئی تھی کہ کئی بچے قطرے پینے کے بعد بیمار ہوئے ہیں۔اس کے بعد مشتعل افراد نے ایک صحت مرکز کو نذر آتش کیا تھا اور سڑک بند کرکے گاڑیوں پر پتھراؤ کیا جبکہ طبی عملے کو ہراساں کیا گیا اور دھمکایا گیا تھا۔گزشتہ برس ہی ایک اور واقعے میں خواتین پولیو ورکرز کی سیکیورٹی پر مامور دو پولیس اہلکاروں کو گولی مار دی گئی تھی۔

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.