تحریر: محمد بلال یاسر
احباب کرام 14 فروری کو ویلنٹائن ڈے کے نام سے ان خرافات کا اہتمام کیوں کیا جاتا ہے..؟
یہودونصاری اس کو اتنی اہمیت کیوں دے رہے ہیں…؟
ان سوالوں کے جوابات مختصرا پیش خدمت ہے..
پہلی بات، ویلنٹائن ڈے رومانوی جاہلی دن ہے، اس دن کا جشن رومانیوں کے عیسائیت میں داخل ہونے کے بعد بھی جاری رہا، اس جشن کو ایک ویلنٹائن نامی پوپ سے جوڑا جاتا ہے جسے 14 فروری 270 عیسوی کو پھانسی کا حکم دے دیا گیا تھا، کفار ابھی بھی اس دن جشن مناتے ہیں، اور برائی و بے حیائی عام کرتے ہیں۔دوسری بات، مسلمان کفار کے کسی بھی دن کو نہیں منا سکتا؛ اس لئے کہ تہوار منانا شریعت کا حصہ ہے، اس لئے شرعی نصوص کی پابندی ضروری ہوگی۔
اللہ عزوجل کے ہاں قربت اور کامیابی صرف اسلام میں ہے..
دین اسلام ایک کامل دین اور دستور حیات ہے.. اس میں تمام انسانوں کے لیے زندگی گذارنے کا طریقہ اور طرز موجودہے۔اس دین پر عمل پیرا ہونے کیل? آنحضرت جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ کی عملی طور تصویر پیش کی گئے ہے۔ ایک کامیاب اور کامل زندگی گذارنے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقوں پر چلنا ضروری.. آپ ص کی تمام صفات بہترین اور کامل.. ان میں ایک صفت حیاء بھی ہے…
حیاء ایک ایسی صفت ہے جو انسان کو حقیقی انسان بناتی ہے.. اور اس کی وجہ سے انسان میں بہتریں اوصاف پیدا ہوجاتی ہے..
حیاء مسلمان کے لیے ایک ڈھال ہے حیاء مسلمان کے لیے ایک مانع ہے..
حیاء انسان کو کئی ناجائز اور حرام امور سے روکنے کا سبب ہے..
اسلام میں اکثر احکام چاہے وہ اوامر ہو یا نواھی تمام حیاء پر موقوف ہے.. اگر انسان سے حیاء چلی جائے اور انسان بے حیاء بن جائے تب اس کے وجود سے حقیقی اسلام کا اخراج ہوجاتا ہے.. پھر یہ انسان نام نہاد مسلمان بن جاتا ہے.. پھر ناجائز اور حرام امور سے مانع چیز کا خاتمہ ہوجاتا ہے.. پھر کوء بھی براء کرتے وقت اس کی ضمیر اسکو ملامت نہیں کرتا..
اسی کے طرف آپ ص نے اشارہ فرمایا.. اذا فاتک الحیاء فافعل ما شئت.
جب انسان سے حیاء چلی جائے تب وہ ہر کام کرسکتا ہے۔
ہمارے دین و شریعت کے رو سے اس تہوار کی کیا حیثیت ہے۔ مشہور مصنف و عالم دین شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اپنے معرکۃ الآرا فتاوی مجموعہ الفتاویٰ (25/329) میں رقم طراز ہیں۔
مختصراً: مسلمانوں کیلئے یہ جائز نہیں کہ وہ کفار کے تہوار کے دن کوئی خاص کام کریں، بلکہ انکے تہوار مسلمانوں کے دیگر ایام کی طرح ہونے چاہئیں، مسلمان اسے کوئی اہمیت نہ دیں۔
مذکورہ بالا چند وضاحتوں سے مقصود ایسے تحائف اور پھولوں کی خریدو فروخت کی ممانعت بیان کرنا تھی، جن کو خریدار اس قسم کے تہواروں کیلئے استعمال کر سکتا ہے، تا کہ فروخت کرنے والا اس بدعت کی ترویج میں شامل نہ ہو جائے، واللہ اعلم۔ یہودونصاری اس مقصد کے حصول کے لیے نصاری اپنی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں
اللہ ہماری نسلوں کی حفاظت فرما(آمین)