تحریر: شیخ جہانذادہ ناوگئی
خیبرپختونخوا کے ضلع باجوڑکے مشہور علاقہ ناوگئی کے نام آور عالم دین اور مفتی سید نورشاہ صاحب گذشتہ دنوں بروزجمعۃ المبارک 15 مئی سن 2020ء کو ایک مختصر سے بیماری کے دروان پشاور کے ایک مشہور ہسپتال میں اس فانی اور عارضی دنیا سے ہمیشہ کے لئے رخصت ہوگئے۔ (اناللہ واناالیہ راجعون)
جس کے ساتھ اپنے زندگئی کے 53سال سفر زندگئی کو پورا کرکے اپنے ابائی قبرستان میں مدفون ہوئے۔ موت کوئی نیا فلسفہ نہیں ازل سے ابد تک جاری ہے۔ انسان ہر قسم جنگ جیت سکتاہے سوائے موت سے جنگ کرنا انسان کبھی نہیں جیت سکتا۔قرآن کریم میں بھی رب کائنات کاارشاد ہے: ہر ذی روح کو ایک دفعہ موت کا ذائقہ چکنا ہوگا۔ کہاجاتاہے کہ موت کے لئے سبب، جگہ اور وقت سب کچھ متعین ہے۔
مفتی سیدنورشاہ صاحب کے وفات کی خبر باجوڑ اور مہمند کے اقوام کے لئے مایوس کن حیران کن اور پریشان کن تھی لیکن جیسا کہا جاتاہے کہ ہائی ہائی اخر موت ہے۔
پشتوکا ایک شعر ہے
پہ چا بہ یو کلے ورانیگی
پہ جانان وران شو مارگلی پوری ملکونہ
مفتی صاحب ایک جید عالم دین، قومی راہنما، عوام الناس کے محبوب کے ساتھ ساتھ ایک صالح بزرگ کے طور پر مانے جانے والے عالم تھے جن کے حلقہ احباب کا دائرہ افغانستان کے بعض علاقوں تک پھیلا ہوا تھا۔ علم و فقہ کی سمجھ ان کواپنے بزرگ و اجداد سے ورثہ کے طور پر ملا تھا جس کی بدولت موصوف ایک عالم متبحر، فقیہ اور روحانی شخصیت کے حیثیت سے پہنچانے جاتے تھے۔
مفتی صاحب ایک امن پسند شخصیت تھے ہمہ وقت دینی خدمات کے ساتھ ساتھ علاقے کے امن و سلامتی کے لئے انہوں نے اپنے تمام تر توانیاں خرچ کی تھی اور اسی سوچ کے لئے وہ ہمیشہ فکرمند ہوتے تھے جہاں بھی دو لوگوں یا اقوام کے درمیان میں کوئی اختلاف ہوتاتھا تو مفتی صاحب اس کو ختم کرنے کے لئے پوری قوت و توانائی کے ساتھ مصروف ہوتے تھے اور اختلاف ختم کرنے تک چھین و سکون سے نہیں بیٹھے تھے، ہمیشہ مظلوم کا ساتھی و مددگار ہوتے تھے ظالم کو ہمیشہ ظلم و بربریت سے منع کرتے تھے، درس و تدریس اور افتاء ان کا علمی مشغلہ تھا متعدد شاگردوں کا حلقہ رکھتے تھے، آج مفتی صاحب کے تمام شاگرد ان کے جدائی اور سفر آخرت پر افسردہ و پریشان ہیں۔
مفتی صاحب کے جنازے میں اگر ایک طرف علاقے کے معزز بزرگ افراد، علماء کرام،سیاسی رہنماؤں، خوانین اور عوام الناس نے کثیر تعداد میں شرکت کی وہاں مفتی صاحب کے شاگردوں نے بھی دور دراز علاقوں سے شرکت کی، جنازے میں ممبر صوبائی اسمبلی عوامی نیشنل پارٹی ضلع مہمند نثارنے بھی اپنے احباب سمیت شرکت کی۔
غرض یہ کہ مفتی صاحب اس کہاوت عربی کا سچا مصداق تھے کہ موتُ العالَمَ موتُ العالَم، یعنی ایک عالم کا موت تمام عالم یعنی مخلوق کی موت ہے۔مفتی صاحب ایک نیک صالح، نیک اخلاق کے مالک، دیانتدار، غیرجانبدار تقوی اور اخلاص کا پیکر، حقوق اللہ اور حقوق العباد کے بہترین خیال رکھنے والا، امربالمعروف کرنے والے اور نہی عن المنکر کرنے والے، عوام الناس کے اختلافات کو ختم کرنے کیلئے علاقائی بزرگوں اور سیاسی و سماجی راہنماؤں سے مشورے اور تعاون لینے والے یہ عالم دین اور مفتی صاحب نے جب دنیا سے آخرت کا سفر کرنے لگے تو مرد و عورت چھوٹے بڑے سب ان کے رخصت ہونے پر آنکھ شکبار تھے
چی تہ پیدا شوی تا جڑل خلکو خندا کولہ
داسی مڑ شہ چی تہ خاندی خلک جاڑی
سن1987ء میں جب مفتی صاحب دینی علوم کی تعلیم مکمل کرکے گاؤں واپس آئیں تو علاقے میں مفتی صاحب کے دو چچامولاناسیدعبدالجلال اور مولاناسیدجمال الدین ولد مولاناسیدعصام الدین جو علاقے میں (بانڈو کے مولانو )کے نام سے پہنچایا جاتے تھے، علاقے کے سفیدروش لوگوں میں تھے 1996ء میں دونوں نے آخرت کی طرف سفر کیا تو نوجوانی ہی میں علاقے کے قضاوت، دارالعلوم کے اہتمام اور خطابت کے عظیم تر ذمہ داریاں مفتی صاحب کے کندھوں پر اتر آئے جو انہوں نے علاقائی بزرگوں کے تعاون و مشوروں سے بہت زبردست طریقے سے سنبھالے۔
یاد رہے کہ پشتون روایات کے مطابق مفتی صاحب کے جنازے کے موقع پر مفتی غلام قادر صاحب کی طرف سے مفتی سیدنورشاہ صاحب کے چھوٹے بھائی مفتی سیف الرحمن صاحب کو ان کا جانشین مقرر کیا گیا جس کی تائید جنازے میں شریک ہزاروں لوگوں نے بیک اواز کی اور ان سب نے عہد کیا کہ ہم مفتی سیف الرحمن صاحب کے ساتھ ہر قسم تعاون کریں گے۔
پیارے عزیزو! جیسا کہ مفتی صاحب نے اپنے سارے حیات کو اپنے علاقے کے فائدے کے لئے گزاری اور ہمیشہ ممبررسول ﷺ سے حق کی آواز بلند کی کبھی فرقہ واریت، نفرت، اختلاف اور انتشار کی بات نہیں کی، علاقائی امن و امان، صلح لانااور اختلافات ختم کرنا مفتی صاحب کے زندگی کا منشور و نصب العین تھا اسی طرح دیگر علماء کرام سے امید ہے کہ علاقے میں اسلام پسندی، امن و محبت پسندی کا درس دیکر لوگوں کو شرو فساد سے روکے رکھے۔
آئیں! ہم مفتی صاحب کے تعلیمات کو اختیار کرکے ان پر عمل پیرا ہوکر دنیا و آخرت کے کامیابی حاصل کریں، اسی سے مفتی صاحب کے روح بھی خوش ہوگا۔
لگ خپہ نیولے شہ زما د قبر خواتہ
لاس کہ پورتہ پہ دعا پاک غنی مولا تہ