جنہیں ہم دیکھ کر جیتے تھے ناصرؔ ۔وہ لوگ آنکھوں سے اوجھل ہو گئے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آہ۔۔۔۔۔۔ ملک عبدالعزیز بھی راہ آخرت پہ چل پڑے۔ ( صاحبزادہ بہاؤالدین)

0

نصف   صدی  سے  بحیثیت  مجموعی   باجوڑ میں      تدبر   اور    شائستگی     کا   فہم و   فراس    رکھنے    والا     اور     پیچیدہ     قبائلی    معاشرہ      پر دسترس   کے خوبیوں    سے      مالا    مال    شخصیت ،    ممتاز     قبائلی    سردار   ملک   عبد العزیز خان    آف    کمر    باالاخر    ہم   سے     جدا     ہو   کر    خالق   حقیقی   سے   جا   ملا ۔انا     للہ     وانا    الہ    الراجعون ۔   مرحوم    کا     انتقال     جہاں غم زدہ     خاندان کے   لئے    ایک    ناقابل     تلافی    صدمہ   ہے    تو     دوسری    طرف     مرحوم   کا ناگہانی موت ترکانڑی اور اوتمان خیل قبائل سمیت  باجوڑ بھر کے تمام مکاتب فکر کے حلقوں کے لئے نہ  سہنے والا صدمہ قرار دیا جانا بے جا نہیں ہوگا۔ایک متنوع،صاحب حیثیت  اور صاحب جائیداد حیثیت کے ہوتے ہوئے وہ ایک درویش صفت اور ملنسار شخصیت  تھا۔مل ملاپ میں ایک عام اور  سادہ  سا انسان  تھا مگر گفتار و رفتار میں ایک نہایت با ذوق اور پراثر خوبیوں کا خزانہ سمجھا جاتا تھا ۔ملک عبد العزیز خان آف کمر یہ نہیں  کہ  وہ  ایک محدود علاقہ  ماموند  میں سچائی اور بہ بانگ دہل حقیقت بولنے کا نام تھا بلکہ باجوڑ کے دو بڑے قبائل ترکانڑی اور اوتمان خیل دونوں میں یکساں مقبول ترین شخصیت تھا۔رب ذالجلال نے روائتی قسم کے تعلیم کے باوجود  مرحوم کو لامحدود خوبیوں اور صلاحیتوں سے نوازا تھا۔صبر و استقلال  ان کے رگ رگ میں رچھا بسا تھا۔وہ ایک خاندان کا چشم و چراغ نہیں تھا بلکہ پورے باجوڑ کے دلوں پر راج کرنے والا شخصیت تھا۔ اللہ تبارک و تعالی نے  مرحوم کو بحر وبر جیسا حوصلہ دیا تھا ۔سب سے بڑھ کر انتہائی زرخیز ذہن کا مالک تھا ۔تعصب اور نفرت کا سخت مخالف تھا ۔ایک کشادہ ذہن کا حامل شخصیت تھا۔برابری کی بنیاد پر عزت و تکریم کا پیامبر تھا۔ملک عبدالعزیز خان مصلحت کا نام تھا ۔قبائلی جھگڑوں کو افہام و تفہیم سے انجام تک پہنچانے کا نام تھا ۔اسلامی اقدار اور قبائلی روایات کا آمین اور دلدادہ  تھا۔ایک ہنس موک اور کھلے ذہن  کا مالک تھا ۔علاقہ میں آمن و آشتی کا خواہاں  تھا ۔پیچیدہ سے پیچیدہ قبائلی معاملات کو نہایت خوش اسلوبی سے حل کرنے کا نام تھا۔بات سننے اور سمجھنے کا ڈھنگ رکھتا تھا۔نوجوانوں کے جذبات کو ٹھنڈا رکھنے اور عمر کے آخری حصہ میں پہنچنے والوں کے ساتھ خندہ پیشانی سے پیش انے کا  آسلوب رکھتا تھا۔ظالم اور مظلوم میں فرق جاننے کا نام تھا۔اتحاد و یگانگت کا داعی تھا۔ترقی و خوشحالی کا دلدادہ تھا۔مرحوم اپنے خوش اخلاق مزاج کی بدولت  چھوٹے بڑوں میں یکساں مقبول تھا۔لامحدود خوبیوں اور قبائلی معاشرہ پر نصف صدی سے زیادہ بھی زیادہ راج کرنے والا یہ شخصیت گزشتہ روز خالق حقیقی سے جا ملا ۔مرحوم کے انتقال سے باجوڑ بھر کا فضاء نہایت غم زدہ ،افسردہ  اور   سراسیمی کی سی کیفیت میں مبتلا رہا۔بحیثیت مجموعی مرحوم کے انتقال سے  ایک خاموشی  چھائی ہوئی تھی ۔کسی کے خیال و گمان میں بھی نہیں تھا تاہم مرحوم کا میت سفر اخرت کے لئے جنازگاہ لایا گیا تو ناقابل یقین  ہوائیں یقین میں بدلنے لگے۔جنازگاہ شمال سے جنوب تک اور مشرق سے مغرب تک انسانی سمندر کا منظر پیش کررہا تھا ۔ہر آنکھ آشک بار تھی ۔ہر دل  بے قرار تھا ۔پتھر جیسا دل رکھنے والا کیوں نہ ہوں غمگین و نڈھال تھا۔مرحوم کو سفر طویل پر لے جانے اور لحد میں رکھنے سے قبل ہر کوئی   ایک جھلک دیدار کرنے کے لئے بے تاب تھا ۔جب مرحوم کو منوں من مٹی تلے سپرد خاک کر دیا گیا تو ہر آنکھ آشک بار اور پر نم تھی ۔ملک عبد العزیز خان آف کمر ایک کرشماتی کردار کا حامل انسان تھا ۔وہ حلیف اور حریف دونوں میں یکساں قدرومنزلت رکھتا تھا ۔وہ اتفاق و اتحاد کا پیکر تھا ۔افراتفری اور منقسم المزاج  لوگوں  کو راہ راست پر  لانے کا حامی تھا۔عفریت اور تعصب پر مبنی سرگرمیوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا داعی  تھا ۔مرحوم ایک نہایت راسلعقیدہ انسان تھے  ۔ کئی بار فریضہ حج نصیب ہوا تھا ۔صحت ساتھ دینے پر   مرحوم ہر سال نہیں تو ہر دوسرے برس   سفر عمرہ کی ادائیگی پر ضرور جاتا تھا ۔ مرحوم کی زندگی بذات خود بے شمار نشیب و فراز کا مجموعہ تھا ۔زندگی میں کئی ایسے  ڈھلانوں کا سامنا کیا جو قطعی طور پر ناقابل برداشت رہیں لیکن مرحوم ایک چھٹان جیسا حوصلہ کا حامل شخصیت تھا ۔پہلا دلخراش واقعہ زندگی میں اس وقت سہنے کو نصیب  ہوا جب   زندگی کے بہترین ساتھی اپنی اہلیہ کو مقدس مقام بیت اللہ شریف کے زیارت کے دوران خالق حقیقی سے جا ملنے  کی صورت میں  دیکھنے کو نصیب ہوئی  اور اسے آبائی قبرستان لانے کی بجائے جنت المعلا میں دفن کرنے پر ترجیح  ہوئی چھوڑ آیا ۔اگرچہ  سفر حجاز مقدس سے واپسی پر ملک صاحب اندر ہی اندر اہلیہ  مرحومہ  کی جدائی کی وجہ سے زخموں سے چور چور تھا لیکن  اپنے اہلیہ مرحومہ کو جائے انبیاء علیہ صلواہ والسلام و  دیار سرور کائنات محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے سنگ عظیم ہستیوں کے مسکن جنت البقیع  جیسے عظیم آرام گاہ  میں دفن کرنے پر زرہ برابر پیشمان نہیں دیکھائی نہیں  دے رہا تھا۔دوسرا ڈھلان اس وقت دیکھنے کو ملا جب مرحوم پر شدید جان لیوا حملہ ہوا جس سے مرحوم شدید زخمی ہوا اور کافی وقت تک زیر علاج رہا ۔تمام تر بدنی  تکالیف اور نامساعد حالات کے باوجود ہمت مرداں بن کر ڈھٹا رہا اور زندگی کے آخری ایام تک آمن و آشتی کا علم اٹھائے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند کھڑا رہا ۔چونکہ موت  ایک اٹل اور تسلیم شدہ حقیقت ہے ۔ہر کسی نے ہر حال میں چھکنا ہے کوئی آج تو کوئی کل ۔اللہ رب العزت مرحوم ملک عبد العزیز خان آف کمر کو اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا ء فرمائیں اور  جنت الفردوس نصیب فرمائیں اور ان کے خاندان کو یہ صدمہ برداشت ہونے کی توفیق  عطا فرمائیں۔آمین

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.