یہ پھول سا نوجوان باجوڑ کا رہنے والا تھا چند ماہ پہلے یورپ جانے کے ارادے سے گھر نکلا اور اب انکی لاش گھر پہنچ گئ بدقسمتی سے یہ اس ایک نوجوان کی ،بپتا ، نہیں درحقیقت ہزاروں نوجوانوں کی کہانی ہے جو گھر سے یورپ کی رنگینوں میں پہنچ کر اپنی مستقبل سنوارنے کی آس دل میں رکھتے ہیں مگر کچھ عرصہ بعد انکی لاش اپنے تمام ارمانوں کا خون ہوکر لوٹتی ہے انسانی اسمگلنگ ایک انٹرنیشنل مسئلہ ہے اسمگلروں کو بددعائیں دیکر ہم اپنی سماجی ذمہ داریوں سے بری الذمہ نہیں ہوسکتے بلکہ والدین سمیت تمام لوگوں کو اس بڑھتے ہوئے معاشرتی رحجان کی حوصلہ شکنی کرکے اس سلسلے کو روکنا ہوگا۔
اپنے بچوں پر رحم کریں ! جو لوگ یورپ پہنچ پاتے ہیں وہ بہت خوش قسمت ہوتے ہیں ہمیں انکی پہنچنے کے بعد کا لائف اسٹائل دیکھنے کو ملتا ہے مگر ذرہ آپ ان سے کبھی ان سفری صعوبتوں اور راستے کے مشکلات کے بارے میں پوچھے جن سے انکو ان پرخطر راستوں سے گزرتے ہوئے سہنے پڑتا ہیں تو آپ کے رونگھنے کھڑے ہونگے اور پھر شائد آپ اپنے بچوں کو یورپ بیجھنا تو درکنار اس کےتصور سے بھی کانپ اٹھیں گے۔
پختونوں کے اجتماعی قومی مسائل میں مستقل بد امنی اور غربت سرفہرست ہے جبکہ یہ دونوں مسائل انکے جغرافیہ میں عالمی طاقتوں اور اپنوں کی مہربانیوں سے تخلیق کئے گئے ہیں انہی مسائل کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں بیشمار دوسری سماجی مسائل نے بھی جنم لیا ہے جنمیں آئس سمیت دوسرے منشیات کا پھیلاؤ اور اپنے وطن میں محنت مزدوری کے بجائے یورپ پہنچ کر امیر بننے کی ہوس بھی شامل ہے۔ ان مشکلات سے نکلنے کیلئے بحیثیت قوم اکٹھ لازمی ہے ۔ اگر یہاں پر امن ہو تو ہمارا وطن فطرت کی رعنائیوں کی برکت سے غریب نہیں ہے بلکہ اس کی پسماندگی سیاسی مقاصد کی خاطر تخلیق کی گئی ہے پختون نوجوانوں میں بیشمار صلاحیتیں ہیں جو یہ ممکن بناسکتی ہیں کہ ہم بہت جلد اپنی قومی مشکلات سے نکلنے کی استعداد راہیں ڈھونڈیں ۔ اگر ہمارا اپنے قدرتی وسائل پر اختیار ہو معدنیات کو نکالنے کیلئے جامع حکمت عملی بنائیں ہم اپنی زراعت کو جدید سائنسی اصولوں پر کھڑا کریں افغانستان کے ساتھ تجارتی راستوں کو کھول دیا جائیں تو آپ یقین کریں کہ یہ خطہ دنیا کی ترقی یافتہ علاقوں میں بہت جلد شمار ہوگا۔
اب ہمارا المیہ یہ ہے کہ غربت کی وجہ سے حصول رزق کی خاطر ہمارا اسی فیصد نوجوان طبقہ تعلیم چھوڑ کر دیار غیر میں جاکر محنت مزدوری پر مجبور ہے جسکی وجہ سے پختونخوا کے نئے اضلاع کا اکثر وبیشتر حصہ قبرستانوں کا منظر پیش کرتا ہے جس علاقے میں انسان کو زندگی کی بنیادی سہولیات میسر نہ ہو وہاں سماجی ترقی خاک آئیگی !
کچھ عرصہ سے ایک اور خطرناک رجحان میں باجوڑ کے علاقے میں بہت تیزی آرہی ہے اور وہ یہ کہ ہمارے نوجوان جنکی عمریں اٹھارہ سال سے لیکرپچیس سال تک ہوتی ہے سہانے سپنے دیکھ کر عازم بہ یورپ ہوتے ہیں جسمیں اکثریت کیساتھ والدین کی مرضی شامل ہوتی ہیں اس سفر کی صعوبتیں اتنی زیادہ اور انسان کی بس سے باہر ہوتی ہیں کہ بہت بڑی تعداد میں یہ نوجوان باڈروں پر ریاستی پالیسیوں کی سختیوں اور موسمی حالات کی وجہ سے اپنی جانوں سے ھاتھ دو بیٹھتے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ غربت تو زمانوں سے ہمارا مسئلہ ہے مگر اس بڑھتے ہوئے یورپ جانے کے رجحان میں والدین عزیز واقارب بھی ذمہ دار ہیں جو ان تمام مشکلات سے آگاہ ہو کے بھی اپنے لخت جگر کو ان تاریک راہوں میں مروانے کیلئے آمادہ ہوتے ہیں کیونکہ بیس سال کی عمر میں والدین کے بغیر کوئی بھی نوجوان اپنے مستقبل کے حوالے سے درست فیصلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا ۔ خدارا ! اس نئے بڑھتے ہوئے رجحان کو روکیں اگر اپنے علاقے میں گزر بسر مشکل ہو تو کئ دہائیوں سے ہمارے لاکھوں پختون پاکستان کے مختلف شہروں میں حصول رزق کیلئے جاتے ہیں ان میں بہت سے سرمایہ دار بن جاتے ہیں اور اکثریت اوسط درجے کی عزت کی زندگی گزارتے ہیں اور دووقت کی روٹی کماتے ہیں مگر کم از کم وہ جوانی میں موت کی آغوش میں نہیں چلے جاتے۔ بحیثیت والدین صرف ایک درجن بچے جننا کمال نہیں ہے بلکہ اپنے ان بچوں کو اپنی سوسائٹی کےذمہ دار انسان بناکر اسے دیگر انسانوں کے معاشرتی وسماجی مشکلات کو کم کرنے کے قابل بھی بنانا ہیں بچے کی تعلیم و تربیت کیساتھ اسے مستقبل میں قدم بقدم والدین کی رہنمائی اور ڈانٹ ڈپٹ کی ضرورت ہوتی ہے اگر آپ نے ذیادہ دولت کے حصول اور جلدی امیر ہونے کی ہوس کو اپنے بچوں کی مستقبل سے جوڑنا ہے تو پھر بصد احترام عرض ہے کہ انسانی سمگلروں سے زیادہ پھر آپ اپنے بچوں کے قتل میں شریک جرم ہے کیا وہ پرتعیش زندگی آپکا مقصد حیات ہے جس میں آپکا لختِ جگر آپ سے ہمیشہ کیلئے چھین لیا جائے یا وہ سکون کی زندگی جسمیں آپ کو اپنے بچوں کیساتھ گزر بسر کے لمحات میسر ہو ؟۔ یورپ جانے کی روایات تمام پسماندہ ممالک کی شہریوں میں ہوتی ہیں جو کیپٹل ازم کے غیر فطری نظام کے ثمرات ہیں جس نے بیس فیصد انسانوں کو اسی فیصد انسانوں کے حقوق پر قابض کیا ہیں اور سرمایہ کی آڑ میں نسل انسانی کا بدترین استحصال اس کے ماتھے کا جھومر ہے ۔ہمیں اپنے علاقوں میں اس بڑھتے ہوئے رحجان کو ختم کرنا ہوگا۔ انسانی اسمگلنگ کا آغاز کئی دہائیاں قبل، سن 50 کے عشرے میں بے ضرر اور قانونی طریقے سے ہوا تھا، جب برطانیہ کو صنعتی مزدوروں کی ضرورت آن پڑی تھی، اس وقت برطانوی کمپنی کی جانب سے پاکستان میں منگلہ ڈیم کی تعمیر کے باعث بے دخل ہونے والے میرپور آزاد کشمیر کے رہائشیوں کو ایک معاہدے کے تحت، برطانیہ کے ویزے جاری کیے گئے جس کے نتیجے میں اتنی کثیر تعداد میں ھجرت ہوئی کہ اب میرپور کو چھوٹا انگلینڈ بھی کہا جاتا ہے۔
اس کے بعد اگلے 4 سال میں ہی ھجرت کا یہ سلسلہ قریب کے علاقوں میں پھیل گیا، جس میں ضلع جہلم، تحصیل کھاریاں، ضلع گجرات بھی شامل ہیں، اور 60 ،70 کے عشرے میں بیرون ملک جانے والوں نے جرمنی اور دیگر یورپی ممالک کا رخ کیا۔
90 کی دہائی میں مہاجرین کا یورپ میں داخلہ مشکل ہوگیا، جس کے بعد پاکستانی نوجوانوں نے ایران، ترکی اور پاکستان میں موجود انسانی اسمگلروں کا سہارا لیا جبکہ پختونوں میں یہ رجحان افغان وار کے دوران بہت زیادہ پھیل گیا جب سیاسی پناہ کے نام پر بہت بڑے پیمانے پر ہمارے لوگوں نے امریکہ اور یورپین ممالک کا رخ کیا ۔
کئی دہائیوں تک غیر قانونی تارکین وطن، زمینی اور سمندری راستوں کے بجائے بذریعہ ہوائی سفر پر یورپ جاتے رہے، بعد ازاں 90 کے عشرے میں کچھ یورپی ممالک نے ہوائی سفر کے حوالے سے سختی کردی جس کی وجہ سے لوگ زمینی سفر کو ترجیح دینے لگے۔ انسانی اسمگلنگ ایک انٹرنشینل مسئلہ ہے مگر گلوبلائزیشن کی برکت سے ہم بھی اب اس کے زیر عتاب آرہے تھے۔
نیویارک میں ہونے والے 11 ستمبر کے حملوں کے بعد، بین الاقوامی ایئرپورٹس پر سیکیورٹی مزید سخت کردی گئی، جس کے نتیجے میں فضائی سفر کے ذریعے غیر قانونی طور پر امریکا اور دیگر ممالک میں داخل ہونا تقریباۤ ناممکن ہوگیا اور اب یہ سادہ لوح نوجوان ان انسانی اسمگلروں کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں جو پیسے کی خاطر ان نوجوانوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح ہانک کر انہیں سمندروں اور دشوار گزار پہاڑی سلسلوں میں موت کی وادیوں میں دھکیل دیتے ہیں مگر یہ انسانی اسمگلر کسی کو زبردستی نہیں لیجاتے بلکہ یہ نوجوان ان تمام مصائب کو جھیلنے کیلئے خود تیار ہوتے ہیں اور یوں یہ خودکشیاں برضا ورغبت ہوتی ہیں۔انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مارئیگریشن کے مطابق گزشتہ برس 3 ہزار 138 پاکستانی بحیرہ روم کا سفر طے کرکے اٹلی میں داخل ہوئے اور رواں برس صرف جنوری میں 240 افراد اٹلی پہنچ سکے۔
بلوچستان کے راستے یورپ میں داخل ہونے کے لیے متعدد راستے اختیار کیے جاتے ہیں ایک راستہ کراچی براستہ آر سی ڈی ہائی وے، تافتان اور پھر ایرانی شہر زاہدان سے ترکی کی سرحد پر نکلتا ہے، دوسرا راستہ کراچی سے سستان، بلوچستان سے ہوتے ہوئے لسبیلہ اور کیچ اضلاع تک نکلتا ہے۔
اس کے علاوہ کوئٹہ سے مغربی بلوچستان کے سرحد علاقے تافتان اور ماسکیل یا راجے والا روٹ ہے، پاک ایران سرحد پر قائم چیک پوسٹ پر ایف آئی اے کے اہلکار تعینات ہوتے ہیں، ان تمام چیک پوسٹوں میں سے صرف ایک فعال ہے۔
ڈائریکٹر ایف آئی اے پنجاب ڈاکٹر عمثان انور کے مطابق 905 کلو میٹر پرمشتمل سرحد پر متعدد کراسنگ پوائنٹس کی نگرانی کرنا پولیس کے بس کی بات نہیں اور ہمارے پاس تو سرحد پر پیٹرولنگ یونٹس بھی نہیں ہیں۔
دوسری جانب ایک سمندری راستہ بھی ہے جس کے لیے پہلے کراچی سے کوسٹل ہائی وے کے ذریعے ضلع گوادر اور وہاں سے مکران پہنچا جاتا ہے، مذکورہ راستہ شدت پسندوں کے خطرناک علاقوں سے قدرے محفوظ سمجھا جاتا ہے۔
پورپ کی آس یا مقتل گاہ !(مولانا خانزیب)
You might also like