انتخابی اصلاحات اور بے زار عوام۔( محمد نعیم قریشی)

0

 قیام پاکستان کے وقت سے ہی ملک میں ہونے والے تقریباً ہر الیکشن کے بعدان پر دھاندلی زدہ ہونے کے الزامات لگتے رہے ہیں۔ 1973 کے آئین میں صاف شفاف اور غیر جانبدار انہ انتخابات یقینی بنانے کی ضمانت موجود ہے مگر اس کے طریقہ کا رپر اختلافات کا پھڈا آج تک ختم نہ ہوسکاہے،سینیٹ کے انتخابات پنجاب میں ڈسکہ اور کراچی میں حالیہ این اے 249کے انتخابات کے بعدپھر یہ ضرورت محسوس کی جارہی ہے کہ ملک کا موجودہ انتخابی نظام بوسیدہ اور متنازع ہے لہذا اس کو تبدیل ہونا چاہیے،اس سلسلے میں میں سمجھتاہوں کہ کسی بھی ملک کے نظام کو زیادہ سے زیادہ بہتر بنانے اور اسے عوامی خواہشات کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے اصلاحات کی ہمیشہ گنجائش ہوتی ہے،جس کی ضرورت اس وقت یقینی طورپر پاکستان کو بھی ہے پاکستان میں صرف انتخابی نہیں بلکہ آئینی، انتظامی، قانونی، عدالتی اور معاشی اصلاحات کی جاتی رہی ہیں یہ سب کچھ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جاری رکھنے کی ضرورت پیش آتی رہی ہے تاکہ وقت کے ساتھ تجربات اور مشاہدات کی روشنی میں انھیں مزید بہتر بنایا جاسکے۔مگر فی الحال اس وقت بات ہورہی تھی انتخابی اصلاحات کی وزیر اعظم عمران خان کا بھی آجکل پھر سے یہ ماننا ہے کہ انتخابی اصلاحات کے بغیر پاکستان کا انتخابی نظام متنازع رہے گا،وزیراعظم عمران خان کی سیاسی جدوجہد میں یہ معاملہ چار حلقوں سے شروع ہوا جب وہ اپوزیشن میں تھے تب بھی یہ چاہتے تھے کہ ملک کا انتخابی نظام شفاف ہومگر آج ان کی حکومت کوتین سال ہونے کو ہے ان تین سالوں کے بعد انہیں یہ بات چانک یاد آئی ہے کہ وہ اس سلسلے میں بہت تقریریں کرچکے ہیں کہ ملک میں موجود انتخابی نظام کو تبدیل کردیا جائے، لیکن ان دنو ں عمران خان صاحب ٹیکنالوجی کے استعمال سے انتخابی نظام میں شفافیت کے خواہش مند ہیں،اس سلسلے میں وہ انتخابی اصلاحات پر اپوزیشن کو مل بیٹھ کر بات کرنے کی پیشکش بھی کرچکے ہیں،اور کہاکہ اس سلسلے میں ہماری حکومت انتخابی نظام میں اصلاحات لانے کے لیے پر عزم ہے، انھوں نے اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ٹرمپ نے 2020کا امریکی الیکشن متنازع بنانے کی ہر ممکن کوشش کی، لیکن ٹیکنا لوجی کے استعمال کی وجہ سے کوئی انتخابی بے ضا بطگی ثابت نہ ہوسکی، میں سمجھتا ہوں کہ اس سلسلے میں وزیراعظم کی یہ ایک اچھی دلیل ہے مگر اس بارے میں پہلا اہم ترین سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا انتخابی اصلاحات کے بعد دھاندلی کے الزامات سے پاک الیکشن ممکن ہو پائیں گے؟ میں سمجھتا ہوں کہ ای ووٹنگ میں صاف شفاف انتخابات کے لئے دو بنیادی چیزیں جن میں ووٹ کی درست گنتی اور سسٹم ہیک نہ ہونا انتہائی ضروری ہیں،الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے تحت ووٹ کے ٹریل کا سسٹم بنانا انتہائی ضروری ہے، کیونکہ اگر دھاندلی کا کوئی کسی جماعت پر الزام لگاتا ہے تو آپ کیسے ثابت کریں گے کہ دھاندلی ہوئی ہے یا نہیں؟جیسا کہ 2018 کے عام انتخابات میں آرٹی ایس سسٹم متعارف کروایا گیا اور وہی ٹیکنا لوجی پورے انتخابات کے متنازع ہونے کی وجہ بن گئی۔ ایسا بھی ممکن ہوسکتا ہے کہ پرانی ٹیکنالوجی کی طرف جانے کی بجائے انٹرنیٹ ووٹنگ کے ذریعے الیکشن کروائیں جائیں، مثال کے طورپر بھارت میں الیکٹر انک ووٹنگ مشین کے ذریعے انتخابات کروائے جاتے ہیں جب کہ بنگلہ دیش میں بھی گزشتہ انتخابات میں اس نظام کو آزمائشی طور پر استعمال کیا گیا تھا، اس کے علاوہ کئی ترقی یافتہ ممالک میں بھی ای وی ایم کے ذریعے ہی انتخابات کرائے جاتے ہیں جب کہ امریکا میں ووٹوں کی گنتی مشین کے ذریعے کی جاتی ہے، اگرچہ اس وقت حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اختلافات شدت اختیار کیئے ہوئے ہیں، یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے وفاقی حکومت کی خواہش پر اسی وقت انکار کردیا اور کہاکہ الیکڑانک ووٹنگ مشینوں سے نہیں بلکہ انتخابی اصلا حات تمام فریقین کی مشاورت عوام کی رائے کی روشنی اور اتفاق رائے سے ممکن ہوتی ہیں، یعنی یہاں مسلم لیگ ن کی جانب سے وزیراعظم کی پیشکش کو مسترد کردیا گیاہے،پاکستان میں عام انتخابات کے بعد دھاندلی کے الزامات ایک روایت بن چکی ہے،جو انتخابی عمل کونہ صرف مشکوک بناتی ہے بلکہ اس کی شفافیت پر بھی سوال اٹھتے ہیں، لیکن ان دنوں شفاف انتخابات سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ عوام کا انتخابات سے دلچسپی کاسامان اٹھ چکاہے ہم نے این اے 249میں دیکھا کہ کسی بھی لحاظ سے اس حلقے میں روایتی انتخابی رنگ دکھائی نہ دیا یعنی عوام کی بے زاری کا یہ عالم تھا کہ لوگ ووٹ ڈالنے ہی نہیں آئے،اس حلقے میں ری کاونٹنگ سے قبل بھی ہم نے دیکھا کہ یہاں نہ تو سیاسی کارکنوں کی کوئی پرجوش انتخابی مہم دکھائی دی نہ ہی کارکنوں میں کوئی جزبہ یا ولولہ دکھائی دیا جو کچھ تھوڑے بہت لوگ ووٹ ڈالنے آئے بھی تو روکھے روکھے انداز میں اور بجھے بھجے سے یعنی اس روز ووٹنگ کا تناسب نہایت ہی کم رہا،یعنی 3لاکھ ووٹرز میں سے صر65ہزار ووٹ ہی کاسٹ ہوسکے،خیر یہاں ہم نے دیکھا کہ چند سو ووٹوں سے پیپلزپارٹی کے امیدوار کی مسلم لیگ ن کے امیدوار سے برتری نے ہنگامہ کھڑا کردیا،پیپلزپارٹی کے امیدوار عبدالقادرمندخیل نے 16ہزار 156ووٹ حاصل کیئے،یہ وہ پیپلزپارٹی کا امیدوار ہے جو 2018میں اسی حلقے میں چھٹے نمبر پر تھامگر حیرت انگیز طور پرآج اس کی پوزیشن نمبر ون پرہے،اور پی ٹی آئی کے فیصل واوڈا جو کہ پوزیشن کے لحاظ سے پہلے نمبر پر تھے آج چھٹے نمبر پر ہیں، اس کے برعکس دوسرے نمبر پر آنے والے مسلم لیگ ن کے مفتاح اسماعیل نے 15ہزار473ووٹ حاصل کیئے،یہاں 2018کے انتخابات میں مسلم لیگ ن کے شہباز شریف بھی دوسرے نمبر پر ہی تھے آج بھی  این اے249 میں مسلم لیگ ن کی پوزیشن تقریباً ویسی ہے، دیکھا جائے تو کراچی کا یہ حلقہ عمومی طورپر مسلم لیگ ن کا قلعہ ہی تصور کیا جاتاہے، میاں نوازشریف کے دیرینہ ساتھی میاں اعجازشفیع اور ابوبکر شیخانی بھی اس حلقے سے کامیاب ہوچکے ہیں، 2018میں کامیابی مسلم لیگ ن کے رہنما میاں شہباز شریف سے بھی چند سو ووٹوں سے دور رہی اور یہ ہی حال موجودہ انتخابات میں مفتاح اسماعیل کا بھی رہاہے، دوسری جانب موجودہ ضمنی انتخاب میں پیپلزپارٹی کی انوکھی جیت پر باقی جماعتوں نے بھی اپنی ہار پرروایتی انداز میں شور شرابہ توکیا مگر مسلم لیگ ن جو کہ صرف چند سو ووٹوں سے ہاری تھی انہیں یہ ہار کچھ زیادہ مشکوک دکھائی دی جس پر یہ لوگ الیکشن کمیشن میں اپنی درخواست لے گئے اس پر سنوائی ہونے پر الیکشن کمیشن کی جانب سے چھ مئی کو ری کوانٹنگ کا حکم دیا گیا، کہایہ جارھا ہے کہ پیپلزپارٹی نے الیکشن کمیشن کے تعاون یاملی بھگت کے زریعے یہ جیت اپنے نام کروائی ہے یعنی الزام یہ ہے کہ الیکشن سے کچھ روز قبل درجنوں پریزائیڈنگ افسران کو تبدیل کرواکر اندرون سندھ سے لائے ہوئے من پسند افسران کو لایا گیاجس کی یقینی طور پر انکوائری ہونی چاہیے جس پر مسلم لیگ ن کے مفتاح اسماعیل نے یہ جواز پیش کیا کہ پی پی کے منظور نظر پریزائیڈنٹ افسران نے انتخاب شروع ہونے کے کچھ دیر بعد ہی پولنگ ایجنٹوں سے فارم 45پر دستخط کروالیے تھے جو کہ قبل ازوقت تھے اور بھی اس قسم کی کچھ اورسنگین اور مشکوک معاملات دکھائی دینے پر ہارنے والی جماعتوں کا واویلہ جاری ہے۔ قائرین کرام یہ وہ معاملات ہیں جو ہمارے موجودہ انتخابی نظام کی بوسیدگی کا کھلا ثبوت ہے اور اس قسم کا کھیل عرصہ دراز سے کھیلا جاتارہاہے سندھ میں پی پی پولیس سے توپنجاب میں مسلم لیگ(ن) پٹواریوں سے یہ کام باآسانی کروالیتی ہے،اس ساری تحریر میں صرف انتخابی مہم کی درستگی کا معاملہ نہیں ہے اس ری کاوونٹنگ کے بعد ہار جیت خواہ کسی کی بھی ہومگر یہ کون بتائے گاکہ 3لاکھ ووٹرز میں سے صرف65ہزار لوگ اور وہ بھی مرجھائے ہوئے چہروں کے ساتھ کیوں آئے، میں سمجھتا ہوں کہ جہاں انتخابی اصلاحات اس وقت وقت کا تقاضہ ہے وہاں سیاستدانوں سے بے زار عوام کو بھی گھروں سے نکالناہے کیونکہ ووٹ ایک قومی فریضہ ہے ایک امانت ہے،جبکہ یہ بھی قابل غور بات ہے کہ مخلص اور ایماندار قیادت دکھائی نہ دینے پر لوگ اپنے ووٹ کا استعمال نہیں کرتے لوگ شکایت کرتے ہیں کہ ہم کس کو ووٹ دیں اور کس کو ووٹ نہ دیں لوگ ہمیں خوشحالی دینے کی بات تو کرتے ہیں مگر پھر یہ ہی لوگ ہمارے ووٹوں سے کامیابی حاصل کرنے کے بعد پیچھے مڑ کربھی نہیں دیکھتے۔ آخر میں میں یہ ہی کہونگاکہ جو سیاستدان جھوٹ بول کر نوکریوں کا جھانسہ دیکر ووٹ حاصل کرتاہے اس کے بعد وہ اگر اگلے پانچ سال بعد دوبارہ حلقے میں تشریف لائے گا تو اس پر عوام کا ردعمل کیا ہونا چاہیے اس کا فیصلہ کرنا بھی پھر عوام کا ہی حق ہے۔

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.