باجوڑ میں امن وامان کے قیام اور پولیس فورس کے مسائل حل کرنے کیلئے گرینڈ جرگہ۔ جرگے میں سیاسی جماعتوں، قومی مشران، امیدواران، یوتھ کے نمائندوں اور پولیس فورس کے اہلکاروں نے شرکت کی۔ جرگے میں سابق گورنر خیبر پختونخوا انجنیئر شوکت اللہ خان، ملک فضل ربی، پولیس اہلکار حبیب اللہ، پیپلز پارٹی کے اخونزادہ چٹان، اورنگزیب انقلابی، ایم کیو ایم کے ملک وحید زمان، اتحاد ملکانان کے ملک محمدی شاہ، ملک حفظ الرحمن، باجوڑ یوتھ جرگے کے واجد علی، اے این پی کے مولانا خان زیب، گل افضل خان، جماعت اسلامی کے مولانا وحید گل، مظلوم اولسی تحریک کے ابوبکر شاہ اور درجنوں مشران نے شرکت کی۔ جرگے میں فیصلہ کیاگیا کہ آئی جی پولیس خیبر پختونخوا کے دورہ باجوڑ کے موقع پر امن وامان کے مسائل اور باجوڑ پولیس فورس کے مطالبات آئی جی پولیس کے سامنے رکھیں گے۔ اگر مطالبات نہیں مانیں گئے تو ایک ہفتہ بعد پھر جرگے کا انعقاد کیا جائیگا جس میں آئندہ کا لائحہ عمل طے کیا جائیگا اور آئندہ جرگے میں دھرنے اور احتجاجی مظاہروں کی کال بھی دی جاسکتی ہے۔ مقررین نے کہا کہ پولیس اہلکاروں کا سٹیٹس واضع نہیں ہے آیا یہ پولیس ہے یا لیویز فورس کیونکہ کام پولیس کا لیا جاتاہے اور مراعات لیویز کے دئے جاتے ہیں۔ باجوڑ ماموند بیلوٹ میں پولیس پر ہونیوالے بم دھماکہ کی مکمل تحقیقات کی جائیں۔ مکمل انکوائری کے بعد ایس او پیز کیخلاف ورزی کرنیوالوں کیخلاف کاروائی کی جائے کہ کیوں ایک ٹرک میں اتنے بڑی تعداد میں اہلکاروں کو بٹھایا گیا۔ اس کی بجائے اگر ایک ایک یا دو دو اہلکاروں کو بھیجا تھا تو اتنا نقصان نہیں ہوتا تھا۔ ماموند حساس علاقہ ہے پھر آخر کار اتنی غفلت کا مظاہرہ کیوں کیاگیا۔ جرگے نے مطالبہ کیا کہ ماموند واقعہ کا مکمل انکوائری کی جائے۔ شرکاء نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ اب شہداء کے بچوں کی کفالت کا کیا بنے گا کیونکہ آج تک جو درجنوں اہلکار شہید ہوگئے ہیں ان کے بچوں کے کفالت کا کوئی پروگرام نہیں ہے اور ان کے بچے و بیوائیں شہداء پیکج کے پیچھے در بدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔ یہ سارے مسائل آئی جی کیساتھ ڈسکس کرینگے۔ تمام شرکاء نے اس بات پر اتفاق کیا کہ بدامنی کی جو لہر آئی ہے سکیورٹی ادارے بھرپور کردار ادا کریں اور یہ انکا فرض ہے کہ عوام کو تحفظ دیں۔ قوم مزید بدامنی برداشت نہیں کرسکتی۔ جرگے میں ڈی پی او باجو ڑکے رویے کی بھی مذمت کی گئی۔