تاریخ باجوڑ ڈاکٹر زاھد شاہ

0


(1)ضلع باجوڑ ہمسایہ ملک افغانستان کی وادی کنڑ سے متصل واقع ہے۔ باجوڑ کے مشرق میں ضلع دیر اور دیر کا دریائے پنجکوڑابہتی ہے جو اسے، مغرب میں صوبہ کنڑ،افغانستان، جنوب میں ضلع مومند اور شمال مغرب میں بھی صوبہ کنڑ واقع ہے ۔(معاشرتی علوم دوم، این ڈبلیو، ایف پی، ص 15)
باجوڑ کے افغانستان کیساتھ کچھ ،پچاس ، کلومیٹر طویل سرحدی پٹی ہے افغانستان کا صوبہ کنڑ باجوڑ سے متصل ہے ڈیورنڈ لائن کے آر پار ترکلانی قبیلہ کے دو شاخوں ،ماموند ،اور سلارزی آباد ہیں۔باجوڑ اور افغانستان کےدرمیان ہزاروں سال سے 26 ایسے راستے تھے جن پر انکے درمیان آمد و رفت کے ساتھ وسطی ایشیاء اور روس تک تجارت ہوتی تھی اب باڑ لگانے سے یہ امدورفت مستقل طور پر بند ہوچکی ہے ۔
ان 26 راستوں میں سب سے بڑا تاریخی راستہ ،نواپاس ،کا ہے.
(2)قدیم مذاھب: ویدک، ہندو،زرتشت، بدھ مت، وغیرہ
(3)قدیم اقوام ونسل:حجر نو کے دور سے یہاں لوگ اباد ہے۔منڈہ، سیاہ پام، کورو، کول، تورانی، دراوڑ، داسیو، ارین، ۔۔۔۔البتہ اس وقت کوہستانی اور گوجر اس خطے کے قدیم اقوام ہیں ۔.،جو یہاں خال خال رہائش پزیر ہے، زیادہ تر دیر سوات کوہستان میں رہتے ہیں (تاریخ ملاکنڈ از ڈاکٹر زاھد شاہ)
(4)باجوڑ تاریخ خلاصہ :
(1)قدیم تاریخ :
عبدالولی خان یونیورسٹی کے سابقہ وائس چانسلر اور اثارقدیمہ کے ماہر پروفیسر ڈاکٹر احسان علی کا کہنا ہے کہ باجوڑ میں جو اثار قدیمہ نکلا ہے اس س معلوم ہوتا ہے کہ 40 ہزار سال پرانے اثار رکھتے ہیں ناوگئ باجوڑ کے قریب ٹانگو بابا کے مقام پر 2002 ء میں ایک غار دریافت ہوا یہ اس دور کا غار ہے۔۔۔۔ جب لوگ اس طرح غاروں میں رہا کرتے تھے۔ اس غار سے جو اوزار نکلے ہیں وہ بھی اس کی شھادت ہے۔باجوڑ میں ابھی تک محکمہ اثار قدیمہ نے 304 غار دریافت کیے ہیں جس میں انسان زندگی بسر کرتا تھااس سلسلے میں109 سروے ہوئے ہیں جس میں 35 ،40 مقامات سے انسان کی استعمال کی چیزیں ملی ہے۔۔۔۔ناوگئ، "علینگار” اور "سیدوناو” میں زیادہ پائے جاتے ہیں ۔ناوگئ پائین میں ایک غار ہے جس سے 40 ہزار سال قدیم انسانی اثار ملے ہیں ۔مقامی لوگ اس کو”گل ٹقار کمر” کہتے ہیں ۔یہاں 18 ویں صدی تک لوگ رہتے تھے۔۔۔۔یہ غار21 میٹر لمبا اور 14 میٹر چوڑا اور 3 میٹر اونچا ہے۔۔۔۔جب دو کلومیٹر کھودائی کی گی تو پرانے زمانے کے برتن اور دیگر اشیاء ملے۔”انگو گٹکو” میں چار پرانے زمانے کے ڈیوے ملے ہیں ۔ان غاروں سے 500 سے زائد شکار، کاٹنے، کھودائی اور دیگر استعمال کی چیزیں برامد ہوئے ہیں۔۔۔مورخین نے لکھا ہے کہ باجوڑ میں دس ہزار سال قبل مسیح میں لوگ رہتے تھے۔عام طور لکھنے پڑھنے سے قبل دور کو قبل از تاریخ دور کہا جاتا ہے، اور لکھنے دور کو بعد از تاریخ دور کہاجاتا ہے، ۔۔دونوں زمانوں میں 5500 سال فرق ہے، یعنی ساڑھے پانچ ہزار زمانہ تاریخ سے پہلے ہے اور ساڑھے پانچ ہزار سال زمانہ تاریخ کے بعد کا ہے۔۔۔یہ دور تہذیب وتمدن کا دور کہلاتا ہے۔۔۔۔دیر، سوات اور باجوڑ میں قبل از تاریخ اور بعد از تاریخ لوگ اباد رہے ہیں ۔۔۔رگ وید کا زمانہ تقریبا 1800 قبل مسیح یے۔ہندو کی یہ کتاب 15 حصوں پر مشتمل ہے کہا جاتا ہے کہ اس کا ایک حصہ” چوکیاتن "دیر بالا میں اور پانچواں حصہ ( منڈل) ” گوسم” جندول میں لکھا گیا ہے، جو پہلے باجوڑ کا حصہ تھا۔…اس طرح ہندوں کی کتاب "باج پران” کے متعلق البیرونی کا خیال ہے کہ یہ باجوڑ میں لکھا گیا ہے۔۔۔۔۔اس طرزرتشتیوں کی کتاب "اوستا” جو 1200قبل مسیح میں لکھا گیا ہے، اس میں 16 تاریخی ممالک اور مقات کا ذکر ہے، جس میں ایک باجوڑ کے "راغا” بھی یے۔۔۔۔۔۔
550 قبل مسیح میں پشتون علاقے، پشاور تا سوات، دیر باجوڑ ایرانی ھخا منشی سلطنت کے قبضہ میں ائے تھے ۔دارا کے فوج کے کمانڈ کرائس اور ان کا بیٹا گجیس تھا ان کے ساتھ بہت سے یونانی ائے تھے۔۔۔۔اور یہ یونانی باجوڑ میں بھی رہائش پزیر ہوئے اور کئ قبیلے بنے۔۔۔۔بعد میں جب 327 قبل مسیح کو الیگزنڈر نے باجوڑ، دیر سوات پر حملہ کیا تو باجوڑ میں بقول یونانی مورخ ھیرڈوٹیس ان کے ہم نسل اور قوم یونانی ان کے ساتھ ملے تھے۔۔۔۔باجوڑ شمال مغرب کے طرف رود کے کنارے اتمانخیل کے طرف پہاڑ کے دامن میں بڑا شہر "نیخا” اباد تھا۔۔۔۔اسی دور میں ایشیا کوچک سے ائے ہوے فوج نے بھی ایک شہر اباد کیا تھا جن کام نام "نیسا” تھا۔۔۔ 228 قبل مسیح میں افغانستان کے راستے "گار” یا "جار” ائے تھے جن کے نام باجوڑ میں "جار” نام کا ایک مقام ہے۔
یونامی سکندر نے باجوڑ، دیر اور تالاش پر حملہ کیا تو ان دنوں کونڑ تا چکدرے تک اسپانیز، اسپاسی نامی قوم پھلی ہوئی تھی اور بعض مورخین کا خیال ہے یہی پشتون قبائل تھے، ۔۔۔جب چوتھے صدی میں پشتون نے اسلام قبول کیا تو اسپانیز، اسپاسی یعنی ایسپ زئی بعد میں یوسف زئی بنے۔انہی پشتون قبیلے نے کونڑ، باجوڑ اور تالاش دیر کے مقامات پر سکندر کا زبردست مقابلہ کیا۔
ناوگئ باجوڑ کے مقام پر "اریگان” نامی شہر اباد تھا سکندر یونانی 327 قبل مسیح کو کونڑ فتح کرنے بعد اریگان پر حملہ آور ہوا۔۔ ۔۔۔لوگ پہلے سے پہاڑوں پر چھڑے گئےتھے۔۔۔باجوڑیوں اور یونانی کے درمیان سخت جنگ ہوئی کہاجاتا ہے کہ یہاں دو مہینے جنگ جاری رہی، سیکندر زخمی بھی ہوئے تھے۔ اخر فتح یونانیوں کو ہوا، اور ہزاروں لوگ قیدی اور سینکڑوں قتل کیے گئے ۔۔۔۔سیکندر نے اریگان شہر کو بہت نقصان پہنچایا۔۔۔۔۔چونکہ دفاعی اور تجارتی نقطہ نظر سے اہم شہر تھا اس سکندر نے اپنے جرنیل کراتیس کو دوبارہ اباد کاری کےلیے مقرر کیا۔۔۔۔یہاں پر ایک جرگہ ہوا چونکہ یہاں کے لوگ مالدار، خوشحال اور اچھی نسل کے مال مویشیوں کے مالک تھے۔۔۔۔۔اس لیے سیکندر کا ان چیزوں پر نظر تھی چنانچہ جرگہ میں فیصلہ ہوا کہ سیکندر باجوڑی قیدیوں کو جو 40 ہزار بتایا جاتا ہے ازاد کرے گا اور بدلے میں دو لاکھ گائے بیل سیکندر کو دیا جائے گا۔۔۔۔اس میں بعض ایسے اعلی نسل کے جانور تھے کہ سیکندر نے نسل کےلیے یونان بھیجے۔۔۔۔ باجوڑ رام کرنے کے بعد سیکندر دیر پہنچے ان دنوں اسے مساگا کہاجاتا تھا جو ایک مضبوط ریاست تھے۔۔۔۔۔اس دور میں باجوڑ، دیر سوات میں زرتشت کے پیروکار تھے، اور شائید فیگر مذسھب بھی ہو کیونکہ مختلف مذاھب کے اثار پائے جاتے ہیں۔۔۔210 قبل مسیح میں ایک قوم "منگ” کی حکمرانی وادی پشاور، ملاکنڈ میں رہی ہے۔۔۔۔کہا جاتا ہے کہ "چارمنگ” باجوڑ انہی دور کا باقیات میں سے ہے۔۔۔۔45 قبل مسیح میں باجوڑ پر "ازرس” نامی قوم کی بالادستی تھی۔۔۔۔۔کہاجاتاہے کہ اس خاندان کے ایک حکمران "متہ شاہ” تھا، ان کا پایہ تخت مھمند کے ایلہ زئی پہاڑ کے دامن میں شمشا سیمہ تھا۔۔۔۔ اسی کے نام سے باجوڑ میں متہ شاہ ہے۔،
باجوڑ گندھارا تہذیب کا بھی اہم حصہ رہاہے، اثار قدیمہ اور پشاور یونیورسٹی کے محققین کو اس حوالے سے اٹھارا تحریریں ملی ہیں اور دیگر سامان بھی۔راجا چندرگپت موریا خاندان کی حکومت 313 قبل مسیح میں رہی ہے باجوڑ اس سلطنت کا باقاعدہ حصہ تھا۔305 قبل مسیح چندر گپت اور یونانی جرنیل سلیوکس کے درمیان اباسین کے کنارے بڑی جنگ ہوئی ۔۔۔۔۔سلیوکس نے شکست کھائی اور صلح کےلیے تیار ہوا۔صلح کے مطابق گندھارا کے علاقے پشاور، دیر، سوات اور باجوڑ وغیرہ چندر گپت کودی گئی۔۔۔کہاجاتا ہے کہ چندر گپت باجوڑ ایا تھا اور برنگ پہاڑ کے دامن میں تاج پوشی کا ایک پروگرام ہوا تھا۔۔۔اس مقام کو اج بھی پائے تخت کہا جاتا ہے۔۔۔۔اس طرح کیمور پہاڑ کا نام بھی موریا نام کے ساتھ مناسبت رکھتا ہے ۔297 قبل مسیح میں چندرگپت فوت ہوا۔اس کے بعد ان کا بیٹا بندوسارا حکمران بنا ۔بندوسارا 273 قبل مسیح میں فوت ہوئے اس کے بعد ان کا بیٹا اشوک حکمران بنا۔261 قبل مسیح میں کالنگا جنگ کے بعد اشوک کا ذہن بدل گیا، جنگوں سے بد دل ہوا اور بت مذھب اختیار کی۔۔۔انہوں نے مختلف علاقوں کو بدھ مذھب کے مبلغین بھیجے۔دیر سوات اور باجوڑ کو” مادھنیشکا” بھیجا اور ملاکنڈ میں بدھ مذھب پھلایا۔232قبل مسیح میں اشوک فوت ہوا۔
175 قبل مسیح میں باختر۔۔۔۔ یعبی پشتون علاقے پر یونانیوں کے طرف سے ایوکراس حکمران تھا۔مغربی پنجاب، گندھارا اور افغانستان کے زیادہ تر علاقوں پر ان کے طرف سے ایک جرنیل میناندرم والی تھا۔۔۔۔اس جرنیل نے جب دیگر علاقے قبضہ کیے تو بادشاہ کا لقب اختیار کیا، ۔۔۔باجوڑ اس کے زیرتسلط تھا، اور ان کے دور کے کتبے اور سامان باجوڑ میں ملے ہیں ۔۔۔ان کے دور میں باجوڑ، دیر سوات میں بدھ مت خوب پھلی۔۔۔۔اس کے بعد” اساکا” قبائل شمال سے ائے۔۔۔کہاجاتا ہے کہ اساکا کے نام سے ملاکنڈ ڈویژن کا ایک اہم مقام سکا کوٹ ہے، جو بعد میں سخاکوٹ بنا( باجوڑ دہ تاریخ پہ رنڑا کے، ص 116 وبعد۔۔).
یونانی چترال، دیر، سوات اور باجوڑ میں دو تین دفعہ ائے اور بہت سے لوگ یہاں رہے۔سکندر یونانی 337 قبل مسیح سے پہلے جو لوگ ائے تھے اس میں بعض بعد میں سکندر یونانی کے ساتھ باجوڑ میں ملے تھے۔۔۔۔یہ لوگ یہاں کے قبائل میں خلط ملط ہوئے یہی وجہ ہے کہ بہت سے پشتون یا پشتون علاقوں میں رہنے والے دیگر قبائل خود کو یونانی قرار دیتے ہیں، مثلاً گبر سواتی تاجک وغیرہ اولف کیرو اور غنی خان کی بھی یہ رائے ہے۔
کوشان 130: ساکا قبائل کے بعد افغانستان گندھارا یعنی ٹیکسلا، پشاور، دیر، سوات اور باجوڑ وغیرہ میں کوشن کا دور شروع ہوا۔بعض مورخین کا خیال ہے کہ کوشان اصل میں کوچیان ہیں چونکہ یہ لوگ خانہ بدوش اور کوچیوں کی زندگی بسرکرہی تھی اس لیے اسے کوشان یا کوچیان کہا جاتا تھا اور یہ اصل میں پشتون یوچی قبائل تھے( باجوڑ دہ تاریخ پہ رنڑا کے، ص 148، 149)…یہ بات کہ کوشن پشتون تھے ثبوت کو نہیں پہنچی ہے تاہم ایک رائے ہے۔۔۔۔کوشن کا دور 130 ء کے لگ بھگ ہے۔گندھارا فن جو اشوک اور باختر یونانیوں سے شروع ہوا تھا اس تہذیب نے کنشکا دور میں عروج کو پہنچا تھا ۔اسی دور میں بدھ مت مذھب میں بہت سی تبدیلیاں ائیں۔وادی پشاور، سوات اور کشمیر سے پانچ سو علماء کا کانفرنس ہوا جس میں گوتم بدھ کا مجسمہ بنایا گیا۔۔۔بدھ کے مذکورہ مجسمے دیر، سوات، اور باجوڑ میں اب بھی پائے جاتے ہیں اور دیر، سوات اور پشاور کے عجائبات گھر میں موجود ہے۔۔۔۔۔دیر سوات،اور باجوڑ بدھ مت کے مراکز ریے ہیں۔225 ء میں کوشان کا زوال شروع ہوا۔
ساسانی : کوشان کے بعد سا سانیوں کا دور شروع ہوا اس کا بانی اردشیر تھا۔ان کے دادا کانام ساسان تھا اس لیے اس خاندان اور حکومت کو ساسانی کہا جاتا تھا۔اس خاندان نے ایران پر چارسو سال حکومت کی۔اس خاندان کے اخری حکمران یزدگرد تھا جس نے نہاوند کی جنگ میں مسلمانوں کے ہاتھوں شکست کھائی ۔اس حکومت کے سرحدات دریائے سندھ پار، وادی پشاور، سوات، فیر، باجوڑ اور افغانستان تک تھے۔
اپتالوی ( ہن)425ء: بعض مورخین کا خیال ہے کہ چھٹے صدی قبل مسیح سے لیکر چوتھے صدی عیسوی تک افغانستان، چترال، سوات، دیر باجوڑ اور وادی پشاور وغیرہ پر جیتنے بھی فاتحین ائے تھے سکندر یونانی کے علاوہ اکثرایران النسل تھے۔لیکن پانچویں صدی عیسوی میں یہاں جو قوم ائی ہے وہ اپتالوی ہے اور یہ وسطی ایشیا سے ائی تھی۔یہ سفید چمڑے والے کہلاتے تھے، 425ء میں اپتالیوں نے باختر۔۔۔۔ موجودہ
پشتون علاقے قبضہ کیے کہاجاتا ہے کہ گوجر قبائل ان کے ہمسایہ تھے۔ بعض مورخین دلازاک قبائل کو اپتالوی سمجھتے ہیں( باجوڑ دہ تاریخ پہ رنڑا کے ص 150)۔اپتالیوں کی زوال کے بعد ایران میں بھی ساسانی دورختم ہوا ۔۔۔اس کے بعد کابل شاھان کا دور شروع ہوا اور دیر، سوات، باجوڑ اور وادی پشاور اور افغانستان تک علاقے ہندوں کے قبضے میں ائے۔۔۔اس کے بعد اسلامی دور شروع ہوا۔۔۔۔باقی
… ۔تفصیلات میری کتاب "تاریخ ملاکنڈ میں موجود ہے۔۔۔۔۔مختصر خلاصہ یہ ہے۔۔۔۔۔
(5)قدیم تاریخ:اارین 1600،،900،BCیرانی دور، 550BC, بدھ مت، 430BC, یونانی 327BC, موریا 321تا 185BC, سک 47BC, کے درمیان77،پہلوی 5ء تا 75ء، کوشن 60ء 225ء، ساسانی، 365،ءتک، کابل شاھی 650ء، صفاری 861ءتا 900ء ھندوشاھیہ، 870ء تا 1021ء، محمود غزنوی 1100ء(تاریخ ملاکنڈ از ڈاکٹر زاھد شاہ)
(6)اسلام، صفاری دور( 861 تا900، )میں ،139ھ بمطابق 721ء میں حضرت زیاد بن صالح کے ذریعے پہنچا(امام جوینی ،المسالک والممالک،اثر،روحانی تڑون ،ص 620)۔پھر محمود غزنوی کے دور 1021ء مزید پھیلا۔(البتہ محمو د غزنوی باجوڑ یا سوات نہیں ایا ہے، جیسا کہ بعض لوگوں نے لکھا ہے۔البتہ چنگیز خان , ،21-620ھ(1225/24ء) کوایا تھا،لیکن اس کا ذکر ملاکنڈ کے مورخین نے نہیں کیا). (سراج الدین ناصری، طبقات ناصری، 175/2)
(7)گبرسواتی تاجک(جو قرانی ذولقرنین ،(سوہ کہف) کی اولاد ہے) 1190تا1519(مملکت گبر، ص، 28، 187،وبعد)
(8)تیموریہ خاندان 3جنوری 1519تا 1670، باجوڑ پر ظہیرالدین بابر کے حملے کے بعد ،تیموریہ دور شروع ہوئی، ان دنوں دیر ،باجوڑ کا حصہ تھا، خواجہ کلاں پہلا حکمران بنا تھا۔(تزک بابری ص 147،148) اس کے بعد نومبر 1525 میں عبد اللہ خان بن سلطانمرزا، پھر سخی عرب خان 1587یا 1557تک،اتم خان، عرب خان، سرور خان، عنایت اللہ خان حکمران رہے۔۔۔۔۔بعد میں اس خاندان کو صاحبزادگان کہا جانے لگا۔اس خاندان نے باجوڑ، دیر کی زمین، مقامی اور نووارد اقوام میں سید نور محمد المعروف چورک بابا کے ذریعے ،1036ھ،بمطابق ،1628تقسیم کی. (باجوڑ، از عبد حلیم اثر، 1971،ص، 11وبعد)۔۔۔۔۔نواب عبدالرشید اسی خاندان سےتھا جو یہاں سے جاکر پشاور میں حکمران بناتھا جن کا مزار اب کوہاٹ روڈ پر ٹینکل کالج کے قریب ہے اور تیموریہ فن کا یادگار نمونہ ہے۔۔۔۔۔ باجوڑ کے پی اے ظفر خان اسی خاندان سے تعلق رکھتا تھا.۔۔۔ نواب عبدالرشید کا خاندان اب تک بہت باثر ہے،اور حکومت کے بڑے بڑے عہدوں پر فائز رہے ہیں، اور ہیں۔۔۔۔۔عبدالحلیم اثر کے مطابق خان میرعالم خان بھی خاندان تیموریہ سے تعلق رکھتا تھا جن کی 1200ھجری بمطابق 1785 میں باجوڑ سے پشاور کے دوابہ تک حکمرانی تھی۔۔۔۔ان کا بیٹا میرجمال خان انہی دور میں باجوڑ کے خار کا حکمران تھا(باجوڑ، قاضی عبدالحلیم اثر ص 34)….لیکن ان کا دور 1810 تا 1863 ہے، ۔۔جنہوں نے سید احمد کو باجوڑ انے کی دعوت دی تھی، اور سید احمد شھید نے دعوت قبول کرکے انا چاہتے تھے لیکن چکدرے اور ادینزی علاقے میں منع کیا گیا ۔۔۔تاہم 1829 کو دونوں کے درمیان خطوط کا تبادلہ ہوا تھا۔۔۔۔دوسرے یہ کہ دیگر مورخین نے میرعالم خان کو ترکلانی قوم سے لکھا ہے۔اور لکھا ہے کہ ان کے بعد "خار” کا خان ان کے بھائی میر آمان خان بنے تھے (حیات افغانی، از محمد حیات خاب، بحوالہ تورایخ باجوڑ، امین الحق، ص 255،)جس نے 1863 تا 1884 تک خانی کی. اس کے بعد ان کا بیٹا حیدر خان اف ناوگئ خان بنے، پھر دلارم خان خان نامزد ہوا تھا(تواریخ باجوڑ، امین الحق، ص 255)
(9)خانی دور: باجوڑ میں مقامی خانی دور 1124 ھجری بمطابق 1712 کو شروع ہوئی ۔۔۔۔اور 1313 ھجری بمطابق 1896 ء تک 184 سال رہا۔۔۔۔ مختلف علاقوں کے مختلف خان رہے۔۔۔
خانی دور: کہاجاتاہے کہ باجوڑ اوراسمار پر ابراہیم خان رہا ہے۔۔۔۔بعد میں ابراہیم کی اولاد میں موزاخان خان بنے۔شجرہ یوں ہے موزاخان بن بن شمشیر خان بن قمر دین باز خان بن کامرا بن ابراہیم۔۔۔ابراہیم کی اولاد کو ابراہیم خیل کہا جاتا ہے۔موزا خان کے حوالے سے کہاجاتا ہے کہ وہ اکبر بادشاہ کے حملے 1586 کے بعد خان بنے تھے ۔۔۔لیکن یہ درست نہیں ممکن ہے کسی علاقے کا خان ہو، تاہم ان دنوں مختلف مقامات پر تیموریہ خاندان کے لوگوں کی خانی تھی۔۔۔۔بہرام خان کے خاندان نے باجوڑ کے ناوگئ خار، پشت اور اسمار، چار علاقوں یا مقامات پر خانی کی ہے ۔۔۔۔باجوڑ پر پانچویں خانی ترکلانی کے ذیلی شاخ ایسیوزو مست خیل کے عمرا خان گھرانے نے کی ہے۔۔۔۔باجوڑ کی خانی کھبی نوانی کے درجے نہیں پہنچی۔نواب وہی ہوتا تھا جس کی منظوری رسمی طور حکومت ہند دیتا یا بعد میں حکومت پاکستان۔۔۔۔۔باجوڑ کا کوئی خان رسمی طور نواب نہیں بنا، حتی کہ عمرا خان خانی کے سرحدات اسمار، چترال پہنچے تھے، لیکن نواب نہیں بنے تھے۔۔۔۔البتہ صفدر خان وغیرہ اپنے ساتھ نواب لکھا کرتا تھا لیکن وہ رسمی نواب نہیں تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔ موزہ خان پہلے رسمی خان تھے،باقی خانان ان کی اولاد میں سےتھے۔۔۔۔۔۔اس میں نواب صفدر اف نواگی کا دور 1881 سے شروع ہوتا ہے۔وہ حیدر خان کے بیٹے تھے۔ وہ 1921ء میں فوت ہوئے تھے۔ پھر محمد جان خان نواب بنا، جو شوال 1360 ھجری بمطابق 1930 یا 1931 کو فوت ہوئے ۔۔۔۔جبکہ بعض مورخین نے محمد خان کا دور 1911 تا 1938 لکھا ہے اس کے بعد ان کا بیٹا عبدالسبحان نواب بنا وہ 1963ء میں باجوڑ کے طرف سے قومی اسمبلی کے ممبر تھے۔پھر 1985 میں ممبر بنے تھے۔
(10)باجوڑ 1885 ء ملاکنڈ ایجنسی کا حصہ تھا۔یکم دسمبر 1973ء کو علحدہ ایجنسی بنی اور فاٹا کے زیر انتظام کیا گیا۔یہ سات ایجنسیوں میں سب سے چھوٹی ایجنسی ہے۔اس کا رقبہ1290 کلومیٹر ہے( بعض کتب میں 1354 کلومیٹر ہے۔۔۔۔صدر مقام خار ہے۔2017 مردم شماری کے مطابق ابادی 1093684 ہے۔۔۔27 مئ 2018 کو ائینی ترمیم کے مطابق ضلع بنا۔ ائین کے 25 ترمیم کے نتیجے میں 20 جولائی 2019 کو پہلے بار باجوڑ میں انتخابات ہوئے ۔
(11)باجوڑ کا ، 1824 ،1857، 1863، 1885، 1897، 1931،…سیکھ، انگریز کے خلاف جدوجہد، جہاد کشمیر 1947 ،1948، 1965، اور جہاد افغانستان میں نمایاں کردار رہا ہے۔
(12)اقوام: ترکلانی اور ان کے ذیلی شاخیں ماموند، سلارزیوغیرہ ،تیموریہ اور ان کے ذیلی شاخ صاحبزادگان، اتمان خیل، گبر، خیلجی، رودباری، مشوانی، روغانی، وردگ، ساپی، سادات، یوسف زئی وغیرہ… رہائش پزیر ہیں ۔۔۔تمام اسلام اور پشتون روایات کے امین ہیں ۔

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.