سائنسدانوں نے ایسا ایئر فلٹر تیار کرنے کا دعویٰ کیا ہے جو ہوا میں موجود نئے کورونا وائرس کو ‘پکڑ کر مار’ سکتا ہے۔ امریکا کی ہیوسٹن یونیورسٹی نے دیگر اداروں کے اشتراک سے سے یہ ایئر فلٹر تیار کیا اور ماہرین کا دعویٰ ہے کہ یہ کووڈ 19 کا باعث بننے والے کورونا وائرس کو فوری طور پر ختم کرسکتا ہے۔
جریدے میٹریلز ٹوڈے فزکس میں شائع مقالے میں محققین نے بتایا کہ لیبارٹری ٹیسٹوں میں ثابت ہوا کہ آسانی سے دستیاب نکل فوم سے بنائے جانے والا فلٹر 200 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت سے 99.8 فیصد کورونا وائرس کا خاتمہ کردیتا ہے۔ محققین نے بتایا کہ یہ فلٹر ائیرپورٹس اور طیاروں، دفتری عمارات، اسکولوں اور کروز جہازوں میں کووڈ 19 کے پھیلاؤ کو روکنے میں مددگار ثابت ہوسکے گا۔ درحقیقت اس کی وائرس کو پھیلنے سے روکنے کی صلاحیت معاشرے کے بہت مفید ثابت ہوسکتی ہے۔انہوں نے مزید بتایا کہ وہ ایک ڈیسک ٹاپ ماڈل پر بھی کام کررہے ہیں جو کسی جگہ کی ہوا صاف کرنے میں مدد دے سکے گا۔ہیوسٹن یونیورسٹی سے مارچ میں میڈیا اسٹار نامی ایک طبی نگہداشت کے لیے کام کرنے والے ادارے نے رابطہ کیا تھا تاکہ وائرس کا خاتمہ کرنے والے ایئر فلٹر کو تیار کیا جاسکے۔طبی ماہرین یہ پہلے ہی جان چکے ہیں کہ مخصوص حالات میں نیا کورونا وائرس ہوا میں 3 گھنٹے تک موجود رہ سکتا ہے اور یہ ایئر فلٹر اس کے فوری خاتمے میں مددگار ثابت ہوگا، جس سے دفاتر کو کھولنے کے ساتھ ان مقامات میں ایئر کنڈیشنر سے وائرس کے ممکنہ پھیلاؤ کو روکنا ممکن ہوسکے گا۔محققین کے مطابق وہ پہلے سے جانتے تھے کہ یہ وائرس 70 ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ درجہ حرارت پر زندہ نہیں رہتا تو انہوں نے ایک حرارت والے فلٹر کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔اس کے لیے انہوں نے 200 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت والے فلٹر کو تیار کیا تاکہ وائرس کا فوری خاتمہ کیا جاسکے۔محققین کا کہنا تھا کہ نکل فوم کے استعمال سے متعدد ضروریات پوری ہوجاتی ہیں، یہ مسام دار ہوتا ہے، ہوا کا بہاؤ اور برقی موصل کو برقرار رکھتا ہے، جس سے حرارت پیدا ہوتی ہے، یہ لچکدار بھی ہوتا ہے۔تاہم نکل فوم میں درجہ حرارت بڑھانا آسان نہیں ہوتا اور سائنسدانوں نے اس کے حل کے طور پر برقی تاروں کے لیے متعدد خانے بنائے تاکہ درجہ حرارت 250 ڈگری سینٹی گریڈی تک برھایا جاسکے۔ سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ بجلی کے ذریعے فلٹر کو گرم کرنے سے اس سے حرارت کے اخراج کو کم از کم رکھنا بھی ممکن ہوسکے گا جبکہ ایئرکنڈیشنر کے افعال بھی متاثر نہیں ہوں گے۔ابھی یہ بڑے پیمانے پر تیار کرنے کے لیے محققین فنڈنگ چاہتے ہیں، مگر انہیں امید ہے کہ آئندہ چند ماہ میں یہ مارکیٹ میں دستیاب ہوں گے۔