صحافی مطیع اللہ جان اسلام آباد سے اغوا، گاڑی اہلیہ کے سکول کے باہر سے برآمد

0

بی بی سی اردو کے رپورٹ کے مطابق مطیع اللہ جان کے لاپتہ ہونے کا واقعہ ان کی ٹویٹس پر توہینِ عدالت کے مقدمے میں ان کی سپریم کورٹ میں پیشی سے ایک دن قبل پیش آیا ہے۔غیرجمہوری قوتوں پر تنقید کے لیے مشہور پاکستانی صحافی مطیع اللہ جان کو اسلام آباد سے اغوا کر لیا گیا ہے اور ان کی گاڑی اس سکول کے باہر کھڑی ملی ہے جہاں وہ اپنی اہلیہ کو چھوڑنے کے لیے آئے تھے۔مطیع اللہ جان کی اہلیہ نے بی بی سی اردو کے اعظم خان کو بتایا کہ وہ منگل کی صبح ساڑھے نو بجے انھیں سیکٹر جی سکس میں واقع اس سرکاری سکول تک چھوڑنے آئے تھے جہاں وہ پڑھاتی ہیں۔مطیع اللہ کی اہلیہ کے مطابق انھیں سکول کے سکیورٹی گارڈ نے مطلع کیا کہ ان کی گاڑی سکول کے باہر تقریباً ساڑھے گیارہ بجے سے کھڑی ہے۔مطیع اللہ جان کی اہلیہ کے مطابق ’گاڑی کے شیشے کھلے تھے، گاڑی کی چابی اور ان کے زیر استعمال ایک فون بھی گاڑی کے اندر ہی تھا۔ان کے مطابق ‘جب میرا اپنے شوہر سے رابطہ نہیں ہو سکا تو میں نے فوراً پولیس کو فون کیا اور کچھ دیر بعد پولیس موقع پر پہنچی۔‘سکول میں نصب سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ تین گاڑیوں میں سوار نصف درجن سے زیادہ افراد مطیع اللہ کو زبردستی ایک گاڑی میں بٹھا رہے ہیں اور اس دوران مطیع اللہ جان اپنا فون بھی سکول کے اندر اچھال دیتے ہیں جسے ایک باوردی مسلح شخص سکول کے اندر موجود افراد سے حاصل کر لیتا ہے۔مطیع کی اہلیہ نے بھی بتایا کہ ’ایک موبائل فون سکول کے احاطے کے اندر آ کر گرا تھا جسے ایک دوسری ٹیچر نے اٹھا کر اپنے پاس رکھ لیا تھا۔ تھوڑی دیر بعد ایک وردی میں ملبوس ایک دراز قد شخص آیا اور فون مانگ کر واپس لے گیا۔ یہ سب اتنا جلدی میں ہوا کہ میں اس معاملے کو سمجھ ہی نہ سکی۔‘سی سی ٹی وی فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ نصف درجن سے زیادہ افراد مطیع اللہ کو زبردستی ایک گاڑی میں بٹھا رہے ہیں ۔تھانہ آبپارہ میں تعینات ایک پولیس افسر نے بی بی سی کو بتایا کہ تھانے کی پولیس نے مطیع اللہ جان کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کی سی سی ٹی وی فوٹیج حاصل کر لی ہے تاہم اس میں چہرے ابھی واضح نہیں ہیں۔انھوں نے کہا کہ اس فوٹیج کا بغور جائزہ لے کر ہی کوئی حتمی رائے قائم کی جا سکتی ہے۔ فوٹیج میں نظر آنے والے پولیس اہلکاروں کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ویڈیو میں بعض پولیس اہلکار بھی دکھائی دے رہے ہیں جنھوں نے بظاہر انسداد دہشت گردی فورس کی وردیاں پہنی ہوئی ہیں تاہم پولیس افسر کا کہنا تھا کہ اس یونیفارم کی بنیاد پر پولیس اہلکاروں کے تھانے یا تعیناتی کا درست اندازہ لگانا ممکن نہیں ہے۔خیال رہے کہ مطیع اللہ جان کی بدھ کو سپریم کورٹ میں توہین عدالت کے مقدے میں پیشی تھی۔ گذشتہ بدھ کو پاکستان کے چیف جسٹس گلزار احمد نے انھیں ایک متنازع ٹویٹ پر نوٹس جاری کیا تھا۔

مطیع اللہ جان کون ہیں؟

مطیع اللہ جان نے قائد اعظم یونیورسٹی سے ڈیفنس اینڈ سٹریٹیجک سٹڈیز میں ماسٹرز کیا تھا اور وہ گذشتہ تین دہائیوں سے صحافت کر رہے ہیں۔

 مطیع اللہ جان کی گاڑی ان کی اہلیہ کے سکول کے باہر کھڑی ملی ہے وہ پاکستان کے مختلف ٹی وی چینلز سے منسلک رہ چکے ہیں تاہم آج کل وہ یو ٹیوب پر اپنا چینل چلا رہے تھے۔ان کے والد فوج میں لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے پر فائز تھے اور خود انھوں نے بھی فوج میں کمیشن حاصل کیا تھا تاہم کچھ عرصے بعد انھوں نے یہ ملازمت چھوڑ دی تھی۔ ماضی میں بھی مطیع اللہ جان کو ہراساں کرنے کے واقعات پیش آتے رہے ہیں۔ ستمبر2017 میں بھی مطیع اللہ جان کی گاڑی پر حملہ کیا گیا تھا۔ یہ واقعہ اسلام آباد میں بارہ کہو کے مقام پر پیش آیا تھا جب موٹر سائیکل پر سوار افراد نے مطیع اللہ کی گاڑی کی ونڈ سکرین پر اینٹ دے ماری تھی جس سے ونڈ سکرین پر دراڑیں پڑی تھیں۔حملے کے وقت گاڑی میں مطیع اللہ جان کے بچے بھی ان کے ساتھ گاڑی میں موجود تھے۔ اس کے علاوہ جون 2018 میں اس وقت کے فوجی ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے جب سوشل میڈیا کے بعض اکاؤنٹس پر ریاست مخالف پراپیگنڈے پر مبنی ٹویٹس کا الزام لگایا تھا اور ایسے اکاؤنٹس کا ایک چارٹ دکھایا تھا تو اس میں بھی مطیع اللہ جان کا اکاؤنٹ نمایاں کر کے دکھایا گیا تھا۔

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.